• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے سلامتی کونسل میں امن اور سلامتی سے متعلق مباحثے میں اقوامِ متحدہ پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس ادارے کی جانب سے اقدامات نہ کیے جانے سے کشمیری اپنی ہی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ وزیر خارجہ نے اقوامِ متحدہ کو اس کے قیام کی غرض و غایت کا حوالہ دیتے ہوئے باور کرایا کہ عالمی تنازعات کو حل اور بھوک، غربت و پسماندگی کے خلاف جنگ کرنا اس کے بڑے مقاصد ہیں لیکن کشمیر کے معاملے میں یہ سب نہ ہونے کے باعث خطے میں جو بحران جنم لے رہے ہیں اس میں قائدانہ کردار کے لیے ہم اقوامِ متحدہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے لوگ دائمی تنازع کی وجہ سے مسلسل قید اور بھوک سمیت وحشیانہ سلوک کا شکار ہیں۔ پون صدی گزر جانے کے بعد بھی ان تنازعات کامنصفانہ طور پر حل نہ ہونا اقوامِ متحدہ کے غیر فعال ہونے کا مظہر ہے جبکہ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں 5اگست 2019اور 5 مئی 2022کو کیے گئے اقدامات کشمیریوں اور اقوامِ متحدہ کی توہین کے متراف ہیں۔ وزیر خارجہ کے ان الفاظ کی روشنی میں یہ حقیقت عیاں ہے کہ کشمیر پر جبری قبضہ کرنے کی کوشش میں ناکامی پر بھارت یہ مسئلہ خود اقوامِ متحدہ میں اس یقین دہانی کے ساتھ لے کر گیا تھا کہ جنگ بندی ہو جائے تو وہ استصوابِ رائے کے ذریعے کشمیریوں کا اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا حق دینے کو تیار ہے۔ اس کے نتیجے میں یکم جنوری 1948کو یونائٹڈ نیشنز کمیشن آن انڈیا اینڈ پاکستان تشکیل دیے جانے کے بعد اپریل میں قرارداد منظور کی گئی جس میں اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں کشمیریوں سے یہ رائے لینا شامل تھا کہ آیا وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔ لیکن بھارت نے ان قراردادوں پر دستخط کرنے کے باوجود اپنی فوج مقبوضہ کشمیر سے نہ نکالی جس کے پس پردہ یہ ایجنڈا تھا کہ وہ کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کرکے ان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر لے گا اور سات عشروں سے زائد مدت سے اس مذموم ایجنڈے پر عمل جاری ہے۔ ظلم و تشدد کا کوئی ایسا طریقہ نہیں جو بھارتی فوجیوں نے بےگناہ اور نہتے کشمیریوں پر نہ آزمایا ہو۔ اس کے باوجود ناکامی کے بعد مودی حکومت نے یہ کہتے ہوئے 5اگست 2019کا اقدام یہ کہتے ہوئے اٹھایا کہ وہ کام جو 70برس میں نہ ہو سکا ہم نے 70روز میں کر دکھایا۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ بھارت کشمیر کے مسئلے پر عالمی تناظر میں جس قدر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا چلا آرہا ہے اتنا ہی اپنی شدت اور حساسیت کے باعث یہ معاملہ ہر فورم پر اجاگر ہوا ہے۔ پچھلے دنوں اسلام آباد میں منعقد ہونے والے او آئی سی وزرائے خارجہ کے اجلاس میں جہاں مندوبین نے کشمیر کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا وہیں خصوصی حیثیت سے شریک ہونے والے چینی وزیر خارجہ نے ان کے مؤقف کی بھرپور تائید کی۔ مزید برآں چند روز قبل اسلامی تعاون تنظیم سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری کردہ بیانیے میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے از سر نو انتخابی حلقہ بندیوں اور آبادی کے تناسب میں تبدیلی کے اقدام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون سمیت چوتھے جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا اور سلامتی کونسل سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔ قبل ازیں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان بھی واشگاف الفاظ میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی بھرپور تائید کر چکے ہیں۔ خود بھارت میں بھی 2019سے اب تک جاری اقدامات کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے آواز اٹھائی گئی ہے۔ یہ ساری صورتحال اقوامِ متحدہ کومسلسل باور کرارہی ہے کہ حقائق سے چشم پوشی مسئلہ کشمیر کا حل نہیں اور اپنی قراردادوں پر عمل کرانا بہرصورت عالمی ادارے کی لازمی ذمے داری ہے۔

تازہ ترین