• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

ریاستی سرپرستی میں چلنے والے کاروباری اداروں کی ملکیت کے جواز اور ان کی مالی کارکردگی کی بنیاد پر جانچ کرنے کیلئے ایک کڑا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ایسے تمام اداروں کو دو وسیع تر درجوں میں بانٹا گیا: (a) ریاستی ملکیت میں برقرار رکھا جائے گا اور (b) نجکاری کی جائے گی یا تحلیل کردیا جائے گا۔

(a) پہلے درجے میں وہ ادارے شامل ہیں جو بنیادی خدمات انجام دیتے ہیں اور پبلک پالیسی فریم ورک کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ ان ریاستی کمرشل اداروں کو ان کی مالی کارکردگی کے مطابق مزید دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔(i) وہ جو منافع بخش اور مالی طور پر مستحکم ہیں۔ مالی سال 2018-19 میں 25 کمرشل ادارے نفع میں چل رہے تھے۔ ان کی مالی افادیت کا جائزہ لینے کیلئے مزید سخت معیار کا استعمال کرتے ہوئے چاراداروں کو مالی طور پر اس درجہ بندی میں رکھا گیا۔ ان میں جی ایچ پی ایل، پاک عرب ریفائنری، پاک کویت انوسٹ منٹ کمپنی اور پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ شامل ہیں۔ مزید 19 ادارے گزشتہ تین برسوں کے دوران مسلسل منافع کما رہے ہیں۔ دیگر دو اداروں، سی پی پی اے اور پاک ایران انوسٹ منٹ کمپنی کے پاس مثبت ایکویٹی ہے اور وہ مالی سال 2017 اور 2019 میں منافع بخش رہے تھے۔ اگرچہ یہ ادارے مالی طور پر خود کفیل ہیں لیکن ان کی کارکردگی کو ادارہ جاتی اصلاحات کے ذریعے بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔مخصوص شعبوں میں لائی جانے والی اصلاحات کے علاوہ ان کمرشل اداروں کے مالیاتی نتائج کو مطلوبہ حد تک لے جانے کے علاوہ کارکردگی کی نگرانی اور رپورٹنگ کا ایک منظم اور ادارہ جاتی طریقہ کار وضع کیا جائے گا۔(ii)کچھ اداروں کو برقرار رکھیں لیکن ان میں اصلاحات اور ساخیاتی تبدیلی ضروری ہے۔ چودہ ادارے ہیں جنھیں حکومتی ملکیت میں برقرار رکھنے کا منصوبہ ہے لیکن مالیاتی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے فوری اصلاحات اور بڑی تنظیم نو کی ضرورت ہے۔ ان میں پاکستان ریلویز اور پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز ہیں جن کامالی سال 2019 میں خسارے میں 88 بلین روپے تھا۔یہ ادارے پہلے سے ہی فعال تنظیم نو اور اصلاحاتی عمل کے تحت ہیں جن کی ذیل میں وضاحت کی گئی ہے۔پاکستان ریلوے فی الحال نقصانات کو کم کرنے اور خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کیلئے آپریشنل اور مالیاتی کارکردگی کو بڑھانے کے ایک جامع منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز نے روٹ کے انتخاب میں حقیقت پسندی کی پالیسی اور ہیومن ریسورس مینجمنٹ کو موثر بناتے ہوئے اصلاحاتی عمل کا آغاز کیا ہے۔ ساختی تعمیر نو منصوبہ قومی ایئرلائن کو دوکمپنیوں میں تقسیم کرنے کی سفارش کرتا ہے۔ ایک ہولڈنگ کمپنی جو واجبات اور اثاثوں کو سنبھالے اور ایک نئی کمپنی جو ایک تازہ بیلنس شیٹ کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کا آغاز کرے۔ اس میںموجودہ افرادی قوت کا نصف، منافع بخش روٹ، غیر اہم امور کو آئوٹ سورس کرنا اور نئے ہوائی جہازوں کا حصول شامل ہے۔ اس ذیلی درجہ بندی میں شامل باقی ریاستی کمرشل اداروں کا مالی سال2019 کے دوران مجموعی خسارہ سترہ بلین روپے تھے۔

(b) جن ریاستی کمرشل اداروں کو نجی تحویل میں دیا جائے گا، یا تحلیل کردیا جائے گا، اس فہرست میں ایسے ایس او ای شامل ہیں جو عوامی پالیسی کے فریم ورک میں شامل بنیادی کام انجام نہیں دے رہے ہیں۔ سفارش کی جاتی ہے کہ یا تو ان کی نج کاری کردی جائے یا انھیں تحلیل کردیا جائے۔ انھیں مندرجہ ذیل چار ذیلی درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

(i) جوپہلے ہی نجکاری کے تحت مراحل میں ہیں۔ ان میں سے دس ادارے فعال نجکاری کی فہرست میں ہیں اور نجکاری کے عمل کے مختلف مراحل میں ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز اس فہرست میں ایک اہم ادارہ ہے اور نجکاری کے عمل کے مرحلے میں ہے۔ایس ایم ای بینک ایک اور خسارے میں جانے والا ادارہ نجکاری کی فہرست میں ہے۔ ان کے علاوہ او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل سے کیپٹل مارکیٹ کے ذریعے سرمایہ کاری نکالی جارہی ہے۔ (ii) نجکاری کے اگلے دور میں 24 ایسے اداروں کی نشاندہی کی گئی ہے، جن میں سے بارہ مالی سال 2019 میں خسارے میں جا رہے تھے۔ ان کا مجموعی خسارہ 156 بلین روپے تھا۔ (iii) جن ریاستی کمرشل اداروں کو ممکنہ طور پر نجی تحویل میں دینا یا تحلیل کیا جاناہے، وہ دس ہیں۔ اس کیلئے متعلقہ وزارتوں سے مشاورت پہلے ہی شروع کر دی گئی ہے۔دس میں سے چھ ادارے مجموعی طور پر 38.5 بلین روپوں کے خسارے میں چل رہے تھے۔ (iv) انڈسٹریل ڈویلپمنٹ بینک آف پاکستان پہلے ہی لیکویڈیشن کے عمل میں ہے۔ اس عمل کی جلد تکمیل کیلئے اقدامات کیے جائیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ 84 ریاستی کمرشل اداروں میں سے 25 باقی رکھے جائیں کیونکہ وہ عوامی پالیسی کے کاموں کو پیش کر رہے ہیں یا مارکیٹ کی ناکامی یا بیرونی وجوہات کی وجہ سے مالی طور پر قابلِ عمل ہونے کے معیار پر بھی پورا اترتے ہیں۔ مزید چودہ کو برقرار رکھا جائے گا لیکن انہیں بڑی تنظیم نو سے گزرنا ہوگا اور اس میں پی آئی اے اور پاکستان ریلوے شامل ہیں۔ مجموعی طور پر، 84 میں سے 39 کو ریاست کی ملکیت میں رکھا جائے۔ باقی 40 کی نجکاری کی جائے گی۔دس پہلے ہی نجکاری کے عمل میں ہیں جن میں پاکستان اسٹیل ملز سب سے زیادہ خسارے میں جانے والی کمپنیوں میں شامل ہے۔ نجکاری کے اگلے بیچ کیلئے 24 تیار ہیں اور اس ذیلی سیٹ میں بارہ بڑے خسارے میں جانے والے ادارے شامل ہیں جن کا مجموعی خسارہ 156 بلین روپے ہے جو بنیادی طور پر پانچ خسارے میں جانے والی پاور ڈسکوز سے شروع ہوتا ہے۔ مزید دس نجکاری یا لیکویڈیشن کی ممکنہ امیدوار ہیں اور ان میں چھ خسارے میں جانے والے ادارے شامل ہیں جو مل کر 38 ارب روپے کا نقصان کرتے ہیں۔ مذکورہ تجزیے سے جو واضح اور بلند پیغام سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ترجیح کا کوئی ایک شعبہ ہے جو معیشت میں خاطر خواہ فرق ڈالے گا تو وہ پاور سیکٹر ہے۔ حکومت کو ان کمپنیوں کے حوالے سے فوری ایکشن لینا چاہیے جو عوامی مالیات پر دباؤ ڈال رہی ہیں، گردشی قرضوں میں اضافہ کر رہی ہیں، صنعتوں کو مسابقتی نہیں بنا رہیں، لوڈ شیڈنگ کو جنم دے رہی ہیں اور گھرانوں پر بوجھ بڑھا رہی ہیں۔

تازہ ترین