• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ روز عطاالحق قاسمی مجلس ترقی ادب کے دفتر میں تشریف لائے۔ان کی آمد پر مجھے اسٹاف کے لوگوں نے مبارک باددی کہ وہ آپ سے ملنے آپ کے آفس میں آئے ہیں ۔پہلی بار مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ عطاالحق قاسمی کے ساتھ میراجو چالیس سالہ تعلق ہے، اسے زیادہ لوگ نہیں جانتے ۔میں یادوں کے دریچے کھولنے کے متعلق سوچ ہی رہا تھا کہ میرے سامنے پڑی ہوئی کتاب بول پڑی ۔کتاب کا نام ہے ’’مشاہیر کے خطوط بنام عطاالحق قاسمی ‘‘۔یہ ابھی تھوڑی دیر پہلے مجھے ملی تھی اور میز پرکھلی پڑی تھی ۔ پنکھے کی ہوانےاس کے کچھ صفحے الٹ دئیے ۔ میری نظر ایک لائن پر پڑی تھی ۔لکھا تھا ۔’’ مدیر ،شاعر و ادیب منصور آفاق پرچے کی اشاعت کےلئے لاہور آ رہا ہے۔امید ہے تم نے مضمون لکھ لیا ہوگا‘‘ ۔یہ ڈاکٹر اجمل نیازی کے خط کا ایک جملہ تھا جو عطاالحق قاسمی کو لکھا گیاتھا ۔یہ خط انیس سو اکیاسی کا لکھا ہوا تھا ۔یعنی میں اس وقت صرف انیس سال کا تھا ۔

اس میں عطاالحق قاسمی کے نام بڑے بڑے لوگوں کے خطوط ہیں ۔اس کی تحقیق و ترتیب کا کام ڈاکٹر عائشہ عظیم نے سرانجام دیا ہے ۔اس میں تقریباً 235 شخصیات کے مکاتیب شامل ہیں۔ جنرل محمد ضیاالحق ، میاں شریف ،میاں نواز شریف ، میاں شہباز شریف ،یوسف رضا گیلانی ، مولانا کوثر نیازی ،سید منور حسن ، سراج الحق ،لیاقت بلوچ، ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور غلام حسن شگن کے سوا تقریباً تمام رائٹرز ہیں۔ویسے تو ان سیاست دانوں میں کوثر نیازی کی کئی کتابیں ہیں ۔وہ شاعر بھی تھے۔ یوسف رضا گیلانی کواپنی کتاب ’’ چاہِ یوسف‘‘ سے بھی بہت شہرت ملی ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی کالم لکھا کرتے تھے۔

ان خطوط میں کئی خطوط ایسے بھی ہیں جنہیں چھاپتے ہوئے میں بھی ہچکچاتامگر قاسمی صاحب بڑے دل والے ہیں ۔کسی زمانے میں نون لیگ نے ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ انہیں گورنر پنجاب بنایا جائے گامگر کچھ مصلحتیں رکاوٹ بن گئیں ۔میں اسے پاکستان کی بدقسمتی سمجھتا ہوں کہ اہلِ قلم کے ساتھ یہاں کبھی اچھا سلوک نہیں ہوا۔حالانکہ یہ ملک ایک شاعر حضرت اقبال کے خواب کی تعبیر ہے ۔افسوس کہ یہاں جن لوگوں کو دانشور سمجھا جاتا ہے علم انہیں چھو کر بھی نہیں گزرا ہوتا۔حکومت چاہے پیپلز پارٹی یانون لیگ کی ہو یا پی ٹی آئی کی ۔یہ سب پارٹیاں جب اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو اہلِ قلم سے اپنےروابط اچھے رکھتی ہیں مگر اقتدار میں آتے ہی انہیں اس طرح نظر انداز کردیتی ہیں جیسے یہ کچھ ہیں ہی نہیں ۔پی ٹی آئی جب اقتدار میں آئی تو اس نے ہارون الرشید جیسے بڑے اہل قلم سے آنکھیں پھیر لیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہارون الرشید جو اقتدار میں آنے سے پہلے سولہ سال تک عمران خان کے مشیرِ خاص رہے ،انہیں اگر اقتدار میں آنے کے بعد ساتھ رکھا جاتا اور ان کے مشوروں پر عمل کیا جاتا تو آج صورتحال قدرے مختلف ہوتی ۔یہ ہارون الرشید کی عظمت ہے کہ وہ اقتدار ختم ہوتے ہی دوبارہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں ۔مظہر برلاس نے کافی طویل عرصہ تک پی ٹی آئی کے حق میں لکھا مگر اتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ پچھلے کچھ عرصہ سے مسلسل ’’سندھ کا مقدمہ ‘‘ لکھتے چلے جارہے ہیں ۔اسی طرح عطاالحق قاسمی نے ہر دور میں نون لیگ کا ساتھ دیا ہے۔انہیں پی ٹی وی کا چیئرمین بنایا گیامگران کے خلاف سپریم کورٹ میں جو کیس ہوا ،وہ بھی نون لیگ کے ہی دورِحکومت میں ہوا۔نواز شریف نے اپنے دورِ حکومت میں تھوڑی سی اہمیت عرفان صدیقی کو دی تھی مگر شہباز شریف نے انہیں بھی نظر انداز کیا۔

ابھی جب شہباز شریف نے بحیثیت وزیر اعظم اسمبلی میں پہلی تقریر کی تو اپنی تقریر میں عطاالحق قاسمی کی پوری غزل سنا دی لیکن مشیروں کی فہرست میں ان کا نام شامل نہیں کیا۔پاکستان میں ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ (بزبانِ خالد مسعود خان ) سوئی کے چھوٹے سے سوراخ میں دھاگا ڈالنے کی نوکری ہمیشہ اندھے کو دی جاتی ہے ۔ ابھی قرآن بورڈ کی چیئرمین شپ سے حامد رضا مستعفی ہوئے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حامد رضا اس چیئرمین شپ کے اہل تھے مگر ان کا سیاست سے بہت گہرا واسطہ ہے ۔ قرآن بورڈ کا چیئرمین پروفیسر احمد رفیق اختر کو ہونا چاہئے تھا کہ لمحہ ِ موجود میں قرآن حکیم پر ان سے زیادہ گہری نظر اور کس کی ہوسکتی ہے ۔

میں عطاالحق قاسمی کے نام لکھے گئے مشاہیر کے خطوط پڑھ رہا تھا تو ان میں قدرت اللہ شہاب کا خط بھی دکھائی دیا۔قدرت اللہ شہاب جیسے لوگ صدر ایوب کی اصل طاقت تھے ۔نون لیگ کی اصل طاقت بھی عطاالحق قاسمی ، عرفان صدیقی اور پرویز رشید جیسے لوگ ہیں ۔ان سے صرف ِ نظر کر کے نون لیگ کوئی بہتر فیصلہ نہیں کرسکتی۔اسی طرح پی ٹی آئی کے پاس حسن نثار اور ہارون الرشید جیسے دماغ موجود ہیں مگر افسوس کہ جب وقت آتا ہے تو ان تر دماغوں اور دھڑکتے دلوں کو اہلِ اقتدار اس طرح بھلا دیتے ہیں جیسے پرنٹ شدہ حرفِ مکرر ہوں ۔شہباز شریف کے پاس ایک دماغ شعیب بن عزیز کے نام سےبھی ہوا کرتا تھا۔پتہ نہیں اب ساتھ کیوں نہیں ۔مجموعی صورت حال یہ ہے کہ اب تو کوئی حبیب جالب کی طرح کسی پر ایسی پھبتی نہیں کسی جا سکتی ۔

پہلے بھی فیض صدر کا ادنیٰ مشیر تھا

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

مشاہیر کے خطوط میں مجھے ڈاکٹر انورسدید کا خط بھی نظر آیا ۔ڈاکٹر انورسدید کو اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں جگہ دے، زندگی بھر عطاالحق قاسمی کے خلاف لکھتے رہے۔یہ بھی عطاالحق قاسمی کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ ان کاخط بھی اس کتاب میں شامل کیا۔ بہرحال اردو ادب کےلئے یہ کتاب ایک اہم اثاثہ ہے ۔

تازہ ترین