• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ نے اراکینِ پارلیمنٹ کے اپنی سیاسی جماعت کی پالیسیوں سے انحراف کے بارے میں آئین کے آرٹیکل 63اے کی تشریح کے حوالے سے دائر صدارتی ریفرنس اور آئینی درخواستوں پر تین دو کی اکثریت سے فیصلہ سنا دیا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ پارٹی پالیسی سے انحراف کے مرتکب رکنِ پارلیمنٹ کا ووٹ شمار نہیں ہوگا، صدرِ مملکت نے ریفرنس میں آئینی شق 63اے کے حوالے سے 4سوالات بھجوائے تھے، جن میں سپریم کورٹ سے استفسار کیا گیا تھا کہ کیا شق 63اے کو محدود طریقے سے سمجھا جائے یا اس کی وسیع تر معانی میں تفہیم ضروری ہوگی؟ کیا انحراف کرنے والے اراکین کو نا اہل قرار دیا جائے، پارٹی پالیسی سے انحراف کرنے، فلور کراسنگ اور ووٹوں کی خریداری میں ملوث ہونے کے مسائل سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کئے جائیں؟ سپریم کورٹ نے ایسے اراکین کے ووٹ شمار نہ کرنے کا حکم دیا ہے جنہوں نے پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیے ہیں۔ سپریم کورٹ نے منحرف اراکین کی سزا تجویز نہیں کی بلکہ یہ سوال صدر کو کسی جواب کے بغیر واپس بھجوا دیاہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے منحرف اراکینِ پارلیمنٹ کی تاحیات نااہلی کی درخواست مسترد کر دی ہے اور کہا ہےکہ اس بارے میں پارلیمنٹ ہی قانون سازی کر سکتی ہے۔ اس طرح پارٹی پالیسی سے انحراف کرنے والے تاحیات نا اہلی سے بچ گئے ہیں چونکہ وفاق میں پی ٹی آئی کے 25اراکین نے بغاوت کی تھی لیکن وزیراعظم شہباز شریف کو ان کے ووٹوں کی ضرورت ہی پیش نہ آئی، اس طرح شہباز شریف اپوزیشن اور اتحادی جماعتوں کے 174اراکین کے ووٹوں سے وزیراعظم منتخب ہو گئے لیکن پنجاب میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے اثرات مرتب ہوں گے، اِس فیصلے کے بعد پنجاب جو پہلے ہی صدرِ مملکت اور گورنر کے درمیان فٹ بال بنا ہوا ہے، میں آئینی بحران مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ سیاسی حلقوں میں یہ سوال بھی زیر بحث ہے کہ کیا حکومت سپریم کورٹ کے صدارتی ریفرنس پر اُس کی رائے کو من و عن قبول کر لے گی یا اس ایشو پر فل کورٹ قائم کرنے کے لیے عدالتِ عظمیٰ سے رجوع کر ے گی؟ منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہ کرنے کے فیصلے سے بظاہر ان جماعتوں کی اخلاقی فتح ہوئی ہے جو منحرف اراکین کے مخالفانہ ووٹ کو شمار نہ کرنے اور تاحیات نا اہلی کا مطالبہ کر رہی تھیں یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے ’’لوٹوں‘‘ کے خلاف فیصلہ دے کر اخلاقیات کو گرنے سے بچانے پر سپریم کورٹ کا شکریہ ادا کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی حکومت ’’بیک فٹ‘‘ پر چلی گئی ہے۔۔ آئینی امور کے ماہرین سپریم کورٹ کے فیصلے کی اپنی اپنی تشریحات کر رہے ہیں، سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63اے کے بارے میں صدارتی ریفرنس پر فیصلہ نہیں، رائے دی ہے۔ تین ججوں نے آئین کے خلاف جبکہ دو نے آئین کے مطابق رائے دی ہے۔ حکومتِ وقت پر منحصر ہے کہ وہ اس رائے کو مانتی ہے کہ نہیں۔

سیاسی حلقوں میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں وزیراعلیٰ پنجاب کے منصب کا دوبارہ انتخاب ہوا تو بھی دوسری بار مسلم لیگ (ن) کا ہی وزیراعلیٰ بنے گا۔ الیکشن کمیشن پنجاب کی جانب سے اسمبلی کے 25اراکین کو ڈی سیٹ کرنے سے نئی گنتی کے مطابق حمزہ شہباز ہی وزیر بنیں گے۔ آئین کے آرٹیکل 130کی ذیلی شق 4کے تحت وزیراعلیٰ کو صوبائی حکومت کے اراکین کی تعداد کی اکثریت کی رائے دہی کے ذریعے منتخب کیا جائے گا۔ اگر کوئی رکن پہلی رائے شماری میں مذکورہ اکثریت حاصل نہ کر سکا تو پہلی رائے شماری میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے پہلے دو اراکین کے درمیان رائے شماری کا اہتمام کیا جائے گا۔ موجودہ اراکین کی اکثریت حاصل کرنے والا رکن وزیراعلیٰ منتخب ہو جائے گا۔

حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے قائدین کا غیرمعمولی اجلاس وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں قبل از وقت انتخابات کی تجویز کو یکسر مسترد کر دیا گیا ہے اور طے پایا ہے کہ حکومت اگست 2023تک اپنی آئینی مدت پوری کرے گی۔ انتخابی اصلاحات کے بعد ہی عام انتخابات ہوں گے جہاں تک ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے سخت فیصلوں کا تعلق ہے، اتحاد میں شامل جماعتوں نے ’’طاقتوروں‘‘ کی سپورٹ کی یقین دہانی کو حکومت کی آئینی مدت پوری کرنے سے مشروط کر دیا ہے، اس کے لیے اسٹیبلشمنٹ قبل از وقت انتخابات کرانے کے لیے دبائو میں موجودہ حکومت کی پشت پر کھڑی ہوگی۔ وزیراعظم کواگر قومی سلامتی کے اداروں کی طرف سے دو ٹوک الفاظ میں یقین دہانی نہ کرائی گئی تو حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں عوام کی ناراضی مول لینے کی بجائے انتخابات کروانے کو ترجیح دیں گی۔ حکومت کی ’’بےبسی‘‘ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تاحال وفاقی حکومت اپنا گورنر پنجاب نہیں لگا سکی جبکہ گورنر پنجاب نہ ہونے سے وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اپنی کابینہ کے اراکین کا حلف نہیں اٹھوا سکے۔ ایک دو روز میں اگر ’’طاقتوروں‘‘ کی آشیر باد حاصل ہو گئی تو پھر وزیراعظم شہباز شریف کھل کر کھیلیں گے بصورت دیگر قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس دے سکتے ہیں۔ دوسری طرف لندن میں ’’مقیم‘‘ نواز شریف پاکستان واپس آنے کی پوری تیاری کیے ہوئے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین