• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’اسمبلیاں توڑ کر جلد سے جلد الیکشن‘‘ کا مطالبہ منوانے کے لیے تحریک انصاف کا اسلام آباد کی جانب ملک گیر مارچ تو بالآخر ٹھہر گیا۔ تاریخی عوامی رابطہ مہم مکمل کرنے کے بعد پارٹی چیئرمین عمران خان نے 25مئی کو صرف کارکنوں نہیں، پوری قوم کو اسلام آباد پہنچنے کی کال دے دی ہے۔

دوسری جانب حکومتی اتحاد، حکومت جاری رکھنے یا مصیبت بنتی حکومت سے جلد سے جلد جان چھڑانے اور خود بھی جلد الیکشن کی طرف جانے کے سوال پر تذبذب میں مبتلا ہے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف اور محترمہ مریم نواز نے چچا کی حکومت بنتے ہی اسے درپیش چیلنجز کا درست اندازہ کرتے یہ موقف اختیار کر لیا کہ ایسی حکومت کا گلے پڑا طوق گلے سے اتار کر فوراً عوام میں آیا اور الیکشن میں جایا جائے۔

مسئلہ پی ڈی ایم کا یہ ہے کہ بمطابق بدستور سیاست، اس کی رہبری و رہنمائی بھی تو شیئرڈ ہے، یہ کوئی حال مقیم میاں صاحب لندن ہی کو تو نہیں سونپی گئی، زرداری اور مولانا صاحب بھی تو اس میں حصے دار ہیں تاہم مولانا فضل الرحمٰن بھی عمران حکومت کے خاتمے پر تو مکمل مطمئن اور شاد تھے لیکن انہوں نے بھی ’’جلد انتخاب‘‘ کی بات کئی مرتبہ کی تاہم پی پی کے چیئرمین اور ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو سیاست کے گروہ جو عمران حکومت گرانے میں کلیدی کردار ادا کرنے کے دعویدار ایک واضح موقف پر قائم ہیں کہ پی ڈی ایم کو عمران اقتدار کی بقیہ مدت پوری کرے۔

بعد از تشکیل شہباز حکومت متذکرہ صورتحال مکمل عیاں کرتی ہے کہ ’’فوری انتخاب‘‘ فقط عمران خان کا ہی مطالبہ نہیں، ن لیگی رہبر کے موقف کو ایک بڑی حد تک عوامی رابطہ مہم سے عمل میں ڈھالنے والی مریم صاحبہ، خود شہباز کابینہ میں شامل میاں نواز شریف کے مکمل معتمد وزرااور مولانا صاحب بھی بحران کے فوری حل کے حوالے سے کافی حد تک ایک ہی پیج پر ہیں۔

 اپنی حکومت کے یکدم ختم ہونے پر ’’امریکی سازش‘‘ کا بیانیہ اور اسکی تصدیق خود امریکی انتظامیہ کے قریب ترین معاون تھنک ٹینک کی سربراہ روبیٹہ گرانٹ سے ہونے کے بعد پاکستانی عوام خصوصاً مڈل کلاس میں اسے ایٹ لارج حقیقت مانا جا رہا ہے۔

 عمران خان کی کامیاب ترین ملک گیر عوامی رابطہ مہم اور اس میں کارکنوں سے کہیں آگے عوام الناس کے مختلف اہم طبقات کی بھرپور تائیدی شرکت نے خان صاحب کو اپنے موقف پر پکا رہنے اور عوامی دبائو سے ہدف حاصل کرنے کا یقین پختہ کر لیا ہے حالانکہ ناچیز کی رائے میں وہ پھر بڑی غلطی دہرا رہے ہیں یوں کہ دوبارہ ان کے پاس نہ کوئی انتخابی پروگرام ہے، نہ پارٹی منظم ہے تو پھر الیکشن کی جلدی کیوں؟ یہی حال ن لیگ کا ہ.

اس کے فقط شہباز شریف کی پنجاب کے حوالے سے گڈگورننس کے دعوے اور عوام میں اس کے بلند درجے کے یقین کے زور پر ہی موجودہ مشکل ترین اور سخت متنازعہ و نحیف حکومت گلے ڈال لی، یار لوگوں کا یہ کہنا بھی ثابت تو بہت حد تک ہوتا ہے کہ اصل میں تو حکومت سنبھالنے کی اولین ترجیح حکومت میں آتے ہی وہ سوراخ بند کرنا تھے جو ان کے خلاف درج سنجیدہ مقدمات میں فراہمی انصاف کو ممکن بنانے کے لیے ہنوز کھلے ہیں لیکن اب تو عدالتوں نے اپنے اختیارات کے استعمال سے، سو موٹو سے مشکل حکومت سنبھالنے کا یہ جواز بھی ختم کر دیا۔

شہباز حکومت اب اس میثاقِ معیشت کو سامنے لائے جس سے وہ بحران کے بہتر طور مینج ہونے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ عوامی خدمات کے وہ ادارے جن کا بحران میں بھی جاری و ساری رہنا اور سنبھالنا ناگزیر ہے، اسے یقینی بنائیں۔

جیساکہ انہوں نے گزشتہ روز لاہور میں پی کے ایل آئی کا دورہ کرکے بانی ادارہ ڈاکٹر سعید اختر کو بحال اور کڈنی لیور پلانٹیشن جیسے عوامی خدمت کے ادارے کو سرگر م کرنے کی ہدایت کی۔ جسے سابق چیف جسٹس صاحب کے نہ سمجھ آنے والے ایکٹوازم نے بڑا نقصان پہنچایا اور ڈاکٹر سعید اختر بھی مایوس ہو کر واپس امریکہ چلے گئے تھے جس کا لاہور کے باشعور شہریوں کو بہت قلق ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف اس پر سوچیں کہ ن لیگ کی ’’شہرت یافتہ‘‘ فنانشل مینجمنٹ، بجٹ سازی اور آئی ایم ایف ڈیل جتنی بھی بہتر آئی ایم ایف کی لٹکی تلوار تلے ہوسکتی ہے، اب وہ معاشی معاملات کو سنبھالیں،ا سمارٹ بجٹ بنانے کی ذمہ داری پوری کریں، عوام کوئی بڑی توقع نہیں کر رہے، غربا کو جتنا ریلیف ممکن ہو، دیں۔

مکمل اخلاص سے مفت لیکن قیمتی مشورہ یہ بھی ہے کہ آپ یہاں تو اپنے رہبر اور پارٹی کی نوخیز قیادت کی اپروچ کے ساتھ یہ اپنی فیصلہ سازی کریں اور یہ جو ’’خانہ جنگی، خونی مارچ، انارکی، چھوڑیں گے نہیں، گرفتاریوں کی اور سخت حوالاتوں‘‘ جیسے الفاظ کی فری کوئنسی ہر دو جانب کے سیاسی ابلاغ میں بڑھتی جا رہی ہے، خدارا اسے ختم کریں۔

عمران خان کی طویل اور ملک گیر اور مریم صاحبہ کی بھی، ہر دو عوامی رابطہ مہم اور ان ہی پُرامن سیاسی سرگرمیوں کو بتدریج انتخابی مہم میں تبدیل کردیا جائے۔

پاکستان تحریک انصاف اسلام آباد میں مطالبے کے لیے طویل دھرنے کی بجائے احتجاج کو ملک بھر کے شہروں میں پھیلانے کا شیڈول بنائے اور مرکزی قائدین پارٹی کی تشکیل نو، پروگرام چاک آئوٹ کرنے اور نئی ٹیم اور کوالٹی امیدواروں کی تلاش پر بھی وقت دیں۔

خود خان صاحب اور پی ڈی ایم بھی انتقامی رویے پر مبنی انتظامی کارروائیاں اور ایکشن آپریشن فوراً ترک کرے، خصوصاً صحافیوں، مین اسٹریم اور سوشل میڈیا والوں کے گھروں پر جو چھاپے مارے جا رہے ہیں.

 اس میں جو بھی ملوث ہیں یہ سلسلہ ترک کریں تاکہ معاملہ انتخابی سرگرمیوں کی طرف بڑھے اور میڈیا بھی اس طرف مائل ہو جائے۔ بہت اطمینان بخش ہے کہ بحران کی سنگینی اور اسے قانون و آئین، تشویشناک صورتحال اور وسیع تر عوامی و ملکی مفاد کی روشنی میں عدلیہ نے بہت جلد قابلِ تحسین اور نتیجہ خیز پوزیشن لے لی ہے۔ اس میں اس کا احترام اور اعتبار بہت تیزی سے سنبھلا اور اب بڑھ رہا ہے۔

 بیورو کریسی کو بھی چاہیے کہ وہ حکومت کے غیر قانونی احکامات پر نہ اپوزیشن کے سیاسی دبائو میں آئے جہاں ابہام ہے، بس اپنے آئینی کردار کے دائرے میں رہ کر عدالتی فیصلوں اور آئین و قانون کی ہوئی تشریح سے ہی اپنے فرائض کی مطلوب ادائیگی کے لیے مدد لے۔

عدلیہ، بیورو کریسی اور میڈیا پر جاری سنگین بحران کی شدت کو کم سے کم کرنے میں بمطابق حلف و آئین بہت حساس ذمے داری عائد ہوتی ہے اور اس نازک وقت پر ان کا استحکامِ پاکستان کے تحفظ کے لیے عدلیہ کی طرف اپنےتئیں چوکس رہنا لازم ہے۔

تازہ ترین