• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پولیس سروس آف پاکستان (پی۔ایس۔پی) اور پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (پی۔اے۔ایس) کے افسروں میں سیاسی جماعتوں کا آلہٴ کار بننے کے رحجان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔۔۔جس کے نتیجے میں دونوں ریاستی اداروں کی زوال پذیری کے ساتھ ساتھ ان کے افسروں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور درست فیصلہ کرنے کی استطاعت میں واضع کمی ہو رہی ہے۔۔۔اور دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے آج سیاست دانوں کے اشاروں کے منتظر ہیں۔۔۔پولیس اور انتظامی اداروں کے افیسرز سیاسی جماعتوں سے منسلک ہیں اور اپنی اپنی پسندیدہ سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں کے طور پر کام کرتے ہیں۔۔۔ کسی گروہ کا تعلق مسلم لیگ سے ہے، کوئی تحریک انصاف کا ہے، کسی نے پیپلز پارٹی کی غلامی قبول کر رکھی اور کوئی کسی اور سیاسی جماعت سے دوستی کا دم بھرتا ہے۔۔۔لیکن ان سب کا مقصد ملک و قوم کی خدمت نہیں بلکہ ان سیاسی پارٹیوں سے جن کے وہ پیروکار ہیں ۔۔ وقت آنے پر فائدہ اٹھانا ہے۔۔۔ اپنی پارٹیوں کے اقتدار میں آنے کا مدتوں انتظار کرتے ہیں اور جب یہ سیاسی پارٹی اقتدار میں آجاتی ہے تو ریاست کے سپوت سیاستدانوں کی چاکری میں ان کا ہر ناجائز کام عبادت سمجھ کرتے ہیں۔۔۔لیکن سیاسی وابستگیاں رکھنے اور سیاسی جماعتوں یا فرح شہزادی کے ذریعے عزت اور ترقی پانے والے افیسر اپنا کیرئر تباہ کر لیتے ہیں۔

پی۔ایس۔پی اور پی۔اے۔ایس افیسرز میں سیاسی تقسیم کا باقائدہ آغاز میاں نواز شریف کے دور میں اس وقت ہوا جب وہ پنجاب کے وزیر اعلی تھے۔۔۔اور مرکز میں پیپلز پارٹی تھی۔۔۔ان اداروں کے افسروں کی سیاسی گروہ بندیوں کے نتیجے میں پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے شعبے انحطاط کا شکار ہوئے اور اس گراوٹ میں اضافہ ہی ہوا، کمی نہیں ہوئی۔۔۔ان دونوں اداروں کی تنزلی پر اس لئے بھی تشویش ہے کہ یہ ریاستی ادارے ہیں اور ان کی تنزلی ریاست کی تذلیل کا باعث ہیں۔۔۔اور سیاسی لباس میں یہ ریاستی ادارے عوام کی نگاہ میں معیوب اور غیر اخلاقی تصور کئے جاتے ہیں۔

اب حالات اس قدر دگرگوں ہیں کہ سیاسی چہیتے افیسرز کھلے عام اپنی سیاسی وابستگیوں کا اعلان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی اپنی گروہ بندیوں، معاشی اور اخلاقی ابتری اور غیرپیشہ ورانہ رویوں نے ریاستی اداروں کی ساکھ اور تنظیم کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ .پولیس کے سربراہوں میں ایک منفی رحجان دکھائی دے رہا ہے کہ جب بھی آئی۔جی کی سطح کوئی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔۔۔اکثر پولیس سربراہ اپنی مرضی اور مزاج کی ٹیم لانے کو ترجیح دیتا ہے۔۔۔حال میں ایک اہم شہر کے پولیس سربراہ نے منصب سنبھالتے ہی سب ڈویژنل پولیس افیسر سے ڈی۔آئی۔جی تک تمام افیسرز کو نکال باہر کیا اور تمام سیٹوں پر میرٹ کی پروا کئے بغیر ’’اپنوں‘‘ کو بٹھا دیا۔۔۔ان تمام ’’اپنوں‘‘ نے غیر پیشہ ورانہ ’’سربراہی‘‘ سے شہر کا سکون برباد کردیا۔۔۔اور رخصت ہوگئے۔۔۔پولیس سربراہوں کے اس قسم کے اقدامات کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔۔۔ایک یہ کہ ایسا پولیس کمانڈر اس قدر نااہل ہوتا ہے کہ اپنا نظام چلانے کے لئے اپنے مزاج کے افسروں کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔دوسرا پہلو یہ ہو سکتا کہ پولیس کمانڈر کے کمانڈ کی بنیاد کرپشن پر استوار ہو اور وہ کرپشن کا دھندہ ’’اپنوں‘‘ کے ذریعے کرتا ہو۔۔. دونوں صورتوں میں کمانڈر کا یہ رویہ غیر پیشہ ورانہ ہے۔

کوئی وقت تھا جب قوم کے نوجوان حصول تعلیم کے بعد قانون کی بالادستی اور ملک سے جرائم کے خاتمے کا مقصد اور عزم لے کر پولیس اور ایڈمنسٹریٹو سروس میں شمولیت اختیار کرتے تھے ۔۔۔اور ایک وقت یہ ہے کہ اکثر نوجوان پولیس افسروں کا مشن جرم اور مجرموں کے خلاف جہاد کرنا نہیں بلکہ خود شریک جرم ہو کر دنیاوی مفادات حاصل کرنا ہے۔

ہر لحاظ سے اعلیٰ اوصاف کے مالک اور اپنے کردار اور کارکردگی سے پولیس کے ذریعے محکمے کی عزت اور وقار میں اضافہ کرنے والے ریٹائرڈ پولیس افسر ذوالفقار چیمہ نے گزشتہ دنوں نیشنل پولیس اکیڈمی میں زیر تربیت اسسٹنٹ سپرنٹیڈنس آف پولیس سے خطاب کے دوران پولیس کے شعبہ کی تنزلی اور بے وقعت ہونے کے اسباب بیان کرتے ہوئے پولیس فورس میں شمولیت اختیار کرنے والے نئے پولیس افسروں کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان پولیس افسروں کی ترجیحات تبدیل ہو گئی ہیں۔۔۔پہلے نوجوان ملک کی خدمت کے جذبے کے تحت پولیس فورس میں شامل ہوتے تھے ۔۔۔آج کے افیسرز کے مقاصد میں کرپشن اور اختیارات کے غلط استعمال کے ذریعے اپنی طاقت میں اضافہ کرکے معاشی اور معاشرتی قوت میں اضافہ کرنا شامل ہو گیا ہے جو ملک اور ادارے کی تنزلی کی وجہ بن رہا ہے۔۔۔ ذوالفقار چیمہ نے کہا ’’صرف 25فیصد نوجوان افیسرز ایمانداری، میرٹ، نیک نامی، محنت اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے ذریعے ماضی کے اقدار کو اپنے کیریئر کو آگے بڑھانے پر یقین رکھتے ہیں اور 75فیصد نوجوان آفیسرز منفی مقاصد کے تحت پولیس فورس میں شمولیت اختیار کرتے ہیں اور ملک اور ادارے کی تذلیل کا باعث بنتے ہیں۔‘‘

ان تشویشناک حالات میں اگر ریاست کے حاکم ریاستی اداروں کو، خاص طور پر پی۔ایس.پی اور پی۔اے۔ایس ’’کو مکمل تباہی سے بچانا چاہتے ہیں تو ان کے اتخاب کا سخت کر دیں اور ان کے انتخابی عمل میں ان کے نفسیاتی تجزیئے بھی شامل کردیں تاکہ ان کے منفی اور مثبت رویوں کا قبل از وقت علم ہو جائے‘‘۔

تازہ ترین