• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسجد کے وسائل رفاہِ عامہ کے کاموں میں صرف نہیں کیے جاسکتے

تفہیم المسائل

سوال: کیا زکوٰۃ کی رقم سے مسجد اور غریب لوگوں کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے پینے کے صاف پانی کا فلٹر پلانٹ فنائے مسجد میں لگواسکتے ہیں؟ (غلام سبحانی ،کراچی)

جواب: زکوٰۃ کی درست ادائیگی کے لیے تملیک یعنی کسی مستحقِ زکوٰۃ شخص کو مالک بنانا شرط ہے ، رفاہِ عامہ کے جن کاموں میں تملیک نہیں پائی جاتی ، اُن میں زکوٰۃ کی رقم صَرف نہیں کرسکتے ۔ تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے: ترجمہ:’’ اورزکوٰۃادا کرنے کی شرط یہ ہے کہ نادار کو مالک بنا دیا جائے، نہ کہ محض استعمال کرنے کی اجازت دی ہو، (ردالمحتار علیٰ الدرالمختار)‘‘۔ 

علامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’اور زکوٰۃ کی رقم سے مسجد (وغیرہ) کی تعمیر جائز نہیں اور اسی طرح پلوں کی تعمیر ، کنوؤں کی کھدائی، راستوں کی درستی، نہروں کی کھدائی اور حج اور جہاد کے لیے (زکوٰہ کی رقم کا براہِ راست استعمال) جائز نہیں ہے، (اسی طرح)ہر اُس کام کے لیے جس میں تملیک نہیں پائی جاتی (زکوٰۃ کی رقم کا استعمال ) جائز نہیں ہے، (فتاویٰ عالمگیری ،جلد1)‘‘۔

زکوٰۃ کی رقم تو اس کام کے لیے استعمال ہوہی نہیں سکتی ،لیکن اگر آپ زکوٰۃ کے علاوہ بھی کسی رقم سے مسجد میں فلٹر پلانٹ عوامی استعمال کے لیے نہیں لگاسکتے ،کیونکہ مسجد کی زمین صرف مصالحِ مسجد کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے، عوامی فلاحی منصوبوں کے لیے استعمال نہیں کرسکتے ۔ بلکہ اگر کوئی زمین مسجد پر وقف ہو تو اسے بھی کسی دوسرے مقصد کے لیے استعمال نہیں کیاجاسکتا۔

فنائے مسجد وقف مسجد کے تابع ہے ،اس میں واٹر فلٹر پلانٹ کے لیے کوئی جگہ مختص کرناجائز نہیں ہے ،خواہ وہ رفاہِ عام کے لیے ہی ہو ۔البتہ مسجد کے ذاتی استعمال کے لیے کیاجاسکتا ہے۔ اگر مسجد میں دکانیں موجود ہوں اور اُن کے بجلی ،پانی کا نظام علیحدہ ہو ،تو باقاعدہ کرایہ اور یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی کے ساتھ آپ علیحدہ ایک نظام قائم کرسکتے ہیں ، جس سے مسجد کو بھی فائدہ پہنچایا جاسکے، مسجد کے ناکافی وسائل پر عوامی سہولیات کا بوجھ نہیں ڈالا جاسکتا۔ اس کے لیے آپ علیحدہ سے انتظام کریں ،تو زیادہ مناسب ہوگا ۔

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheem@janggroup.com.pk