• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

اسلام دین فطرت ہے اور اسلام کے امتیازات و خصوصیات میں ایک اہم امتیاز اور منفرد وصف یہ ہے کہ اسلام انسان کو عقیدہ وعمل، اخلاق و کردار ، فکر و نظر ، ظاہر و باطن ، قلب و روح لباس و بدن ، خور و نوش ،ضروریات و خواہشات اور تمام امور زندگی میں طہارت و نظافت اور پاکیزگی و صفائی کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کفار و مشرکین کے طرزِ حیات پر جامع تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’کافراس طرح لذت اٹھاتے اور کھاتے پیتے ہیں جس طرح جانور (لذت اٹھاتے ) اور کھاتے پیتے ہیں ۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔(سورۂ محمد :12)

یہ ایک اٹل حقیقت اور روشن سچائی ہے کہ دیگر اقوام کا تمام کاموں میں گندا ہونا قدیم و جدید ہر دو ادوار میں یکساں اور برابر ہے البتہ موجودہ دور میں ان کی ظاہری چمک دمک کی بات الگ ہے۔ لیکن حقیقت میں وہ جانوروں جیسی گندی اور غلیظ زندگی گزارنے والے ہیں شراب و کباب کے رسیا ، ہم جنس پرستی کے مارے ہوئے ، کتے، بلی، چوہا، چمگادڑ ، سور، مردار اور کیڑے مکوڑوں جیسی گندی چیزیں کھانے والے اور طہارت و پاکیزگی کے زریں اسلامی اصولوں سے ناآشنا اور تہی دست ہیں۔ 

جبکہ اسلام نے انسان کو انتہائی پاکیزہ اور صاف ستھری زندگی گزارنے کی تعلیم دی ہے اور طہارت و نظافت کے سلسلے میں افراط و تفریط سے پاک انتہائی معتدل احکامات عطا کئے ہیں اور پاک صاف رہنے والوں کی بڑی زبردست مدح و ستائش کی ہے ۔ رب العالمین نے سورۂ بقرہ میں ارشاد فرمایا کہ ’’بے شک اللہ تعالیٰ بہت زیادہ توبہ کرنے والوں اور بہت زیادہ پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘

معلوم ہوا کہ طہارت و پاکیزگی بندوں کی ایسی صفت ہے جسے اللہ تعالیٰ بھی پسند کرتا ہے۔ طہارت و پاکیزگی اللہ کو اتنی زیادہ پسند و محبوب ہے کہ پہلی وحی ’’اقراء‘‘ کے بعد اللہ نے اپنے رسول طاہر و مطہر ﷺ پر جو دوسری وحی نازل کی اس میں رسول طاہر و مطہر ﷺ کو پاک و صاف رہنے ہی کا حکم دیا گیا کہ (اے طاہر و مطہر رسول ﷺ ) اپنے لباس کو پاک صاف رکھیئے اور ہر طرح کی گندگی سے بچ کر رہیں ۔ (سورۂ مدثر 5,4)

خود نبی اکرم ﷺ بھی طہارت و نظافت اور پاکیزگی ونفاست پسند تھے ۔لہٰذا آپ ﷺ نے بھی اپنے ارشادات مقدسہ میں طہارت و نظافت اور پاکیزگی و نفاست کی بڑی اہمیت بیان فرمائی ہے۔ فرمایاکہ ’’پاکیزگی و طہارت آدھاایمان ہے۔‘‘ (صحیح مسلم) ہمارے معاشرے کی اکثریت کا یہ عالم ہے کہ ہم اپنے رہن سہن ، کھانے پینے اور زندگی کے اکثر معاملات میں اپنے اس آدھے ایمان سے بے نیاز اور بے فکر ہیں۔ ہمارے جسم ، لباس، گھر، گلی، محلے، سڑکیں بازار، میدان و پارک سارے کا سارا ماحول ہی گویاہمارے آدھے ایمان کو منہ چڑاتا ہے۔

طہارت و نظافت ، پاکیزگی و نفاست انسانی فطرت کا جزولاینفک، مزاج کا حصہ اور طبیعت کاخاصہ ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ارشاد فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’دس کام فطرت میں سے ہیں۔‘‘ بعض روایات میں پانچ امور کوفطرت کہاگیا ہے اور وہ یہ ہیں ، لب (کے بال ) تراشنا، داڑھی رکھنا، مسواک کرنا، ناک میں پانی داخل کرنا، نا خنوں کو تراشنا، جسم میں میل کچیل جمع ہونے کی جگہوں کو دھونا بغل کے بالوں کو صاف کرنا، زیرِ ناف بالوں کو صاف کرنا اور پانی کے ساتھ طہارت حاصل کرنا، اور ختنہ کرانا۔ (بخاری و مسلم)

طہارت و پاکیزگی کی فطری ضرورت و اہمیت کی بناء پر اسلام میں طہارت و نظافت کے روزانہ، ہفتہ وار، ماہانہ اور سالانہ احکام و ہدایات دی گئیں ہیں۔ اسلام انسان کے ظاہر کو بھی سنوارتا ہے اور باطن کو بھی اعلیٰ صفات سے آراستہ کرتا ہے۔

موجودہ دور میں مسلمانوں کی جہاں بہت سی کمزوریاں دنیا بھر میں مشہور ہیں، ان میں ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں صفائی پر توجہ نہیں دی جاتی ، جو لوگ دین اسلام سے ناآشنا ہوتے ہیں ،وہ عام طور پر یہی سمجھتے ہیں کہ اس دین میں صفائی ستھرائی کے بارے میں کوئی تعلیم نہیں ہے۔ اس سوچ کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے خود ان کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ ہماری شناخت بھی یہی ہو گئی ہے کہ ہمارے گلیاں محلے کچرے کوڑے اور گندگیوں سے اٹے پڑے ہیں۔ اس سے غیر مسلم اقوام کو یہی پیغام جاتا ہے کہ دین اسلام میں صفائی ستھرائی کے کوئی اصول و ضوابط نہیں ہیں اور غیروں کے ذہن و دماغ میں یہی بات گھر کرگئی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی حقیقی تصویر یہی ہے۔

جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے کہ دین اسلام میں صفائی ستھرائی کا کوئی نظم و نسق موجود نہیں ہے ، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ دین اسلام میں تو طہارت و نظافت کووہ حیثیت حاصل ہے کہ اس کے بغیر اسلام کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا کہ اللہ تو ان بندوں سے محبت کرتا ہے کہ جو بے انتہا پاک وصاف رہتے ہیں اور طہارت آدھا ایمان قرار دی گئی۔ اسلام کی طہارت و نظافت پسندی میں ظاہری و باطنی ،جسمانی وروحانی ، قلبی و ایمانی ، لباس و غذا سب طرح کی طہارت و نظافت کے ساتھ کھانے پینے کی اشیاء میں حلال و حرام کا امتیاز کرنے کی طہارت و نظافت بھی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام انسان کی و لادت سے وفات تک پاک صاف رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ انسان کی موت کے بعد بھی صفائی ستھرائی کے بعدہی میت کو دفن کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہی حقیقی و پاک صاف مسلمانوں کی اسلامی تصویر ہے۔

لیکن افسوس کہ ہم مسلمانوں نے صفائی ستھرائی کے اسلامی احکامات و تعلیمات کو بُھلا دیا ہے اور دیگر غیر مسلم قوموں نے اس اچھائی کوا پنا لیا ہے۔ اُن کے محلے ، اور علاقے، گاؤں اور شہر ، ریلوے اسٹیشن اور بس اسٹاپ غرض کہ ہر جگہ صفائی ستھرائی اور نظافت کی مثال اور علامت بن گئے ہیں اور گندگی ہماری پہچان بن گئی، حالانکہ طہارت و نظافت تو اسلام اور مسلمانوں کا طرۂ امتیاز، امت کا افتخاراور مسلمانوں کے متمدن اورمہذب ہونے کا شعار ہے، صفائی ستھرائی مسلم اقوام و ممالک کے ترقی یافتہ ہونے کی دلیل ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کا آفتاب طلوع ہونے سے پہلے پوری دنیا غلاظت کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ غیر مسلم اقوام کے جسم و روح اور قلب و دماغ غلاظت و گندگی کی آماجگاہ تھے اسلام آیا تو طہارت و پاکیزگی سے دنیا آشنا ہوئی اور یورپ کو یہ معلوم ہوا کہ نظافت کیا ہوتی ہے ۔

طہارت و نظافت جوکبھی مسلمانوں کا طرۂ امتیاز تھا افسوس کہ آج مسلمان اس سے بیگانہ و نا آشنا ہو گئے ہیں ، وضو اور غسل جیسے اعمال اور فرائض کا ہمارے نوجوانوں کی اکثریت کو علم ہی نہیں، نجاست و ناپاکی کو دور کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ ہمارے بچے نہیں جانتے۔ ایسے دیگر بہت سے اعمالِ طہارت جو ہمیں روز درپیش ہوتے ہیں ہماری نئی نسل ان کو ان کی خبر ہی نہیں ۔ یہ صورتحال مسلمانوں اور عالم اسلام کے لئے بہت ہی افسوس ناک ، صدمہ اور شرمندگی کا باعث ہے۔

دورِ حاضر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی نسل کے سامنے طہارت و نظافت کی عظمت کو اُجاگر کیا جائے۔ صفائی ستھرائی کی معاشرتی اور فطری اہمیت کو بیان کیا جائے ، اسلامی تہذیب و ثقافت کی محبت کا نقش ان کے دلوں میں بٹھایا جائے۔ کیوںکہ اس وقت ہمیں اسلام کی جو صحیح تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے وہ یہی ہے کہ ہم اپنی روح و جسم اور لباس کو پاک صاف رکھنے کے ساتھ اپنے گلی ، محلوں علاقوں ، شہروں اور ممالک کو بھی پاک صاف رکھنے کا اہتمام کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صفائی ستھرائی کا پابند اور طہارت و نظافت کا علمبردار بنائے۔(آمین)