• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’حجاب‘‘ مسلمان خواتین کی عصمت و عفت اور شرم و حیا کی علامت

ڈاکٹر عامر عبداللہ محمدی

’’حجاب‘‘ عربی اور ’’پردہ‘‘ فارسی زبان کا لفظ ہے۔ یہ دونوں الفاظ تقریباً ہم معنی ہیں۔ عورت کا غیر مرد، نامحرم اور اجنبی سے ستر چھپانا، اپنے آپ کو پوشیدہ (ڈھکا، لپٹا) رکھنا ”حجاب یا پردہ“ کہلاتا ہے۔ ویسے بھی عورت کا مطلب ہی ڈھکی ہوئی چیز ہے۔ حجاب کا لفظ قرآن کریم میں سات مرتبہ آیا ہے اور یہ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں موت کو بھی حجاب قرار دیا گیا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں پردہ اور حجاب جیسی کوئی چیز نہیں تھی۔ 

یہود و نصاریٰ، یونانی، ایرانی اور ہندی معاشرے کے افراد اپنی اپنی تہذیبوں اور تقاضوں کے علمبردار تھے۔ ان کے یہاں مذہباً پردے کا کوئی تصور یا قانون نہیں تھا، لیکن بعد از اسلام جوں جوں مسلمانوں کے تمدن اور معاشرت کی بنیاد پڑتی گئی، اس کے متعلق مناسب احکام نازل ہوتے گئے، حتٰی کہ شریعت مطہرہ نے مسلمانوں کے شرم و حیاء اور عزت وناموس کی پوری پوری حد بندی کر دی۔

حجاب (پردے) کا اولین حکم قرآن کریم کی یہ آیت کریمہ قرار پائی جس میں رب ذوالجلال نے اپنے پیارے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا:”اے نبیﷺ! اپنی بیبیوں اور صاحبزادیوں اور مسلمان عورتوں سے فرما دیجئے کہ وہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے اوپر ڈالے رہیں۔ یہ ان کے لئے موجب شناخت ہو گا تو انہیں کوئی ایذا نہ دے گا۔ اللہ تعالیٰ عزوجل بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔“اس آیتِ کریمہ سے یہ بات واضح ہے کہ مسلمان عورتیں اس آیت کے نزول سے قبل بھی چادر اوڑھا کرتی تھیں ،لیکن کسی اور طریق پر۔ 

آیت کریمہ نے چادر اوڑھنے کا ڈھنگ بتا کر اسے شرعی پردہ قرار دیا، بلکہ ان کے لئے چادر اوڑھنا لازمی قرار دے دیا۔زمانہ جاہلیت میں گوکہ پردے (حجاب) کا تصور نہ تھا ،لیکن وہ لباس ایسا پہنتی تھیں کہ ان کی پشت تو ڈھکی رہتی تھی ،لیکن سینہ کھلا رہتا تھا۔ یہ لباس بعینہ ایسا ہی ہوتا تھا، جیسا کہ آج کل مغرب کی ماڈرن عورتیں پہنتی ہیں۔ دین اسلام نے ان کے خلاف پردے (حجاب) کا تصور دیا کہ پشت اور سینہ سب ڈھکا رہے۔ 

اسلام اولین مذہب ہے کہ جس نے حجاب کا حکم دیا اور مسلمان اولین قوم ہے جس نے پردے کو رواج دیا۔ آیت کریمہ کا اصل مفہوم عورتوں اور معاشرے کو فتنے سے بچانا ہے نہ کہ اعضاء کی نمائش کر کے قعرِ جہنم کو بھرنا۔

حجاب عورت کے وقار اور عظمت کی علامت ہے۔ آج کے جدید دور میں عریانی، فحاشی اور بے حیائی کا رجحان ہے، ہر ناجائز چیز کو جائز ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس میں ایک مسئلہ عورت کے حجاب کا بھی ہے۔ جس نے حجاب کا حکم دیا اور مسلمان اولین قوم ہے جس نے حجاب یا پردےکو رائج کیا۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، اس نے زندگی کے ہر گوشے کے بارے میں ہماری رہنمائی کی ہے۔ اسلام نے مرد و عورت دونوں کے حقوق مقرر کئے ہیں۔ اسلام سے پہلے عورتوں کے حقوق پامال ہوتے تھے اور وہ معاشرے میں کمتر تصور کی جاتی تھیں۔ عورت کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا تھا، عورت کا غیر مرد، نامحرم اور اجنبی سے خود کو چھپانا حجاب یا پردہ کہلاتا ہے۔

اسلام نےعورت کو اس کے حقوق دلائے اور اس کی عصمت کی حفاظت کی،سن 2 ہجری میں جب پردے کا حکم نازل ہوا تو مسجد میں موجود عورتوں نے اپنے گھروں سے چادریں منگوائیں اور خود کو ان سے ڈھانپ لیا۔ قرآن و حدیث کے متعدد مقامات پر پردےکے احکام موجودہیں ، تقویٰ کا حجاب سب سے بہتر حجاب ہے آج ہم نے نئے معاشرے میں حجاب کی اصل پہچان کو کھو دیا ہے جو صرف جہالت کو بڑھاوا دیتا ہے۔ اس لئے ہمیں قرآن وحدیث کو سمجھ کر اصل حجاب کے مقصد کو پہچاننا چاہیے۔ ایک ماں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد چاہے بیٹا ہو یا بیٹی اسے سمجھائیں کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور محرم اور نامحرم کے فرق کو سمجھیں۔

اسلام سے قبل دنیا کی مختلف تہذیبوں اور معاشروں میں عورت بہت مظلوم اور معاشرتی و سماجی عزت و احترام سے محروم تھی۔ زمانہ جاہلیت کی تہذیبوں اور ثقافت میں عورت کو ثانوی حیثیت سے بھی کم تردرجہ دیا جاتا تھا۔ اسلام نے سب سے پہلے عورتوں کے تحفظ اور ان کے حقوق کا علم بلند کیا اور عورت کی عظمت و احترام اور اس کی صحیح حیثیت کا واضح تصور پیش کیا۔ 

اسلام دین فطرت ہے جو آرائش کا حکم دیتا ہے نمائش کا نہیں۔ قوموں کاعروج عورت کی حیاء اور مرد کی غیرت سے مشروط ہے۔ ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اور اسلام کا اخلاق حیاء ہے۔ حجاب حکم الٰہی ہے جو بدکاری اور بدنظری سے بچاتا ہے۔ باحجاب عورت کیلئے معاشی ترقی کی راہیں کھلی ہیں۔ حجاب اعلیٰ تعلیم اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں، حقیقت میں حجاب خاموش دعوتِ دین ہے، دل کا پردہ آنکھ میں حیاء اور نیت کی پاکیزگی کا عملی اظہار حجاب ہے۔حجاب عورت کوآزادی، تحفظ، شناخت عزت ووقار عطا کرتا ہے۔ 

حجاب اختیار کرکے حیاء و عظمت کی مضبوط ڈھال اپنے گرد قائم کی جاسکتی ہے۔ آج ساری دنیا میں عالمی یوم حجاب کو بڑے جوش و خروش سے منانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مسلمان خواتین امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے کردار کو مشعل راہ بنائیں، حجاب اپنی مقرر کردہ حدود کے ساتھ ایک شرعی حکم اور دینی ہدایت ہے۔ یہ اسلام کا عطا کردہ معیار عزت و عظمت ہے۔