ڈاکٹر نعمان نعیم
کائنات میں ارتقاء کا عمل جاری ہے، ہر صبح جب طلوع ہوتی ہے تو اپنے جلو میں ترقی کا ایک نیا پیغام لے کر آتی ہے اور ہر شب جب کائنات کی فضاء پر چھاتی ہے تو وہ کسی نئی حقیقت سے پردہ اُٹھانے کا مژدہ سناتی ہے ، ترقی کا یہ سفر جیسے زندگی کے دوسرے شعبوں میں جاری ہے ، اسی طرح ذرائع ابلاغ کے میدان میں بھی پوری قوت اور تیز گامی کے ساتھ جاری و ساری ہے ، بلکہ اس میدان میں ٹیکنالوجی کی ترقی دوسرے شعبہ ہائے زندگی کے مقابلے میں زیادہ تیز ہے ، ہم نے اپنے بچپن میں دیکھا کہ اس وقت ریڈیو اور ٹیپ ریکارڈ ہی بہت بڑی چیز تھی اور فون وٹیلی گرام کو حیرت و استعجاب کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ،لیکن آج اگر کوئی شخص ان ایجادات کو حیرت و رشک کی نظر سے دیکھے تو بچے بھی اس پر ہنسیں گے، چنانچہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے دُور دُور تک اپنی بات پہنچانے کو آسان کردیا اور اس کی رفتار ہوا کی رفتار سے بھی بڑھ گئی ، افسوس کہ مسلمان ان تمام مرحلوں میں مسلسل پسماندگی کا شکار رہے ، ہم ترقی کے قافلے کا سالار بننے کی بجائے اس قافلے میں شامل آخری فرد بھی نہ بن سکے اور گرد کارواں بننے ہی کو اپنے لئے بڑی نعمت سمجھا ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر عالمی اعتبار سے یہودی حاوی ہوگئے،اور میڈیا کے ہتھیار سے ہمارے ملی مفادات ، تہذیبی اقدار ، قومی وقار اور دینی افکار کا اس طرح قتل کیا گیا کہ شاید توپ اور ٹینک کے گولوں اور فائیٹر جہازوں کی طرف سے ہونے والی آگ کی برسات بھی ہمیں اس درجہ نقصان نہیں پہنچا پاتی۔
ادھر بیس سے پچیس سال کے درمیان ابلاغ کے ایسے ذرائع عام ہوئے ، جنہیں ’سوشل میڈیا ‘ کہا جاتا ہے ، اس کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ اس پر اب تک حکومت یا کسی خاص گروہ کی اجارہ داری نہیں ہے ، اس میں خاصا تنوع بھی ہے، جس میں واٹس اپ ، فیس بک ، یوٹیوب ، ٹیوٹر ، اسکائپ وغیرہ شامل ہیں، لیکن یہ ایک بہتا ہوا سمندر ہے ، جس میں ہیرے اور موتی بھی ڈالے جاسکتے ہیں اور خس و خاشاک بھی، اس میں صاف شفاف پانی بھی اُنڈیلا جاسکتا ہے اور گندہ بدبودار فُضلہ بھی، اس سے دینی ، اخلاقی اور تعلیمی نقطۂ نظر سے مفید چیزیں بھی پہنچائی جاسکتی ہیں اور انسانی و اخلاقی اقدار کو تباہ کرنے والی چیزیں بھی ، دوسری طرف اس کا اثر اتنا وسیع ہوچکا ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کا نفوذ اس درجے کا ہے کہ اسے نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا اور گزرنے والے ہر دن کے ساتھ اس کی اہمیت بڑھتی جاتی ہے، اس لئے اگرچہ بہت سے لوگوں نے خلوص اور بہتر جذبے کے ساتھ اسے روکنے کی کوشش کی، لیکن بالآخر انھیں اس کی سرکش موجوں کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہی پڑا، اس لئے اب ہمیں اس ذریعہ ابلاغ کے مثبت اور منفی اور مفید و نقصان دہ پہلوؤں کا تجزیہ کرنا چاہئے اور اس سلسلے میں تمام مسلمانوں اور خاص کر ملت کی نوجوان نسل کی رہنمائی کرنی چاہئے۔
٭ سوشل میڈیا کے جو منفی اور نقصان دہ پہلو ہیں،وہ یہ ہیں :(۱) یہ جھوٹی خبریں پھیلانے کا ایک بڑا نیٹ ورک بن گیا ہے اور اکثر بہت سی باتیں کسی تحقیق کے بغیر اس میں ڈال دی جاتی ہیں، کیوںکہ اس پر حکومت یا کسی ذمہ دار ادارے کی گرفت نہیں ہے ،جب کہ اسلام نے ہمیں جھوٹ تو جھوٹ ، ہر سنی ہوئی بات نقل کردینے اور بلا تحقیق کسی بات کو آگے بڑھانے سے بھی منع کیا ہے ۔ (سورۂ حجرات : ۶)
(۲) عام جھوٹی خبروں کے علاوہ یہ لوگوں کی غیبت کرنے ، ان کی کوتاہیوں کو طشت ازبام کرنے ، یہاں تک کہ لوگوں پر بہتان تراشی اورتہمت اندازی کے لئے بھی وسیلہ بن گیا ہے اور انسان کی فطرت یہ ہے کہ جب کسی اچھے آدمی کے بارے میں کوئی بُری بات کہی جائے ، خواہ وہ بات کتنی ہی ناقابل اعتبار ہو تو لوگ اس پر آنکھ بند کرکے یقین کرلیتے ہیں ، جس کی کھلی مثال رسول اللہ ﷺکے زمانے میں اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ پر تہمت کا واقعہ ہے ، جو خود عہد نبوی میں پیش آیا اور بعض سادہ لوح مسلمان بھی منافقین کے اس سازشی پروپیگنڈے سے متاثر ہوگئے ۔(۳) عصر حاضر میں اس ذریعہ ابلاغ کو نفرت کی آگ لگانے اور تفرقہ پیدا کرنے کے لئے بھی بکثرت استعمال کیا جاتا ہے، فرقہ پرست عناصر تو یہ حرکت کرتے ہی ہیں ، لیکن خود مسلمانوں کے درمیان مسلکی اختلافات کو بڑھاوا دینے میں اس کا بڑا اہم رول رہا ہے ، اس میڈیا پر مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے انسانیت دشمن جذباتی مقررین کی تقریریں بھی موجود ہیں اور مسلمانوں کے مختلف مسالک کے درمیان مناظروں کی شرمناک محفلیں بھی ، جو بہت تیزی سے باہمی نفرت کو جنم دیتی اور فساد کی آگ بھڑکاتی ہیں ۔(۴) اس میڈیا کا دہشت گردی اور تشدد کے لئے بھی استعمال کیا جارہا ہے اور استعمال کرنے والوں میں مختلف مذاہب کے خود ساختہ نمائندے شامل ہیں ، جنھوں نے لوگوں کی نگاہوں میں دُھول جھونکنے کے لئے مذہب کا مقدس لباس پہن رکھا ہے ۔(۵) اس ذریعہ ابلاغ کا سب سے منفی پہلو ’ فحشاء ‘ کی اشاعت اور بے حیائی کی تبلیغ ہے ، جو چیز انسان کو اپنے خلوت کدہ میں گوارا نہیں ہوسکتی ، وہ یہاں ہر عام و خاص کے سامنے ہے ، یہ اخلاقی اقدار کے لئے تباہ کن اور شرم و حیاء کے لئے زہر ہلاہل سے کم نہیں ، اور افسوس کہ حکومتیں ایسی سائٹس کو روکنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتیں ، ورنہ سماج بے حیائی کے اس سیلاب بلاخیز سے بچ سکتا تھا۔
٭ ان منفی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس کے بہت سے مثبت اور مفید پہلو بھی ہیں اور اس کا صحیح استعمال کرکے اسلامی اور انسانی نقطۂ نظر سے بہت سےاچھے کام کئے جاسکتے ہیں ، جن کا تذکرہ مناسب ہوگا :(۱) بچوں ، نوجوانوں ، عورتوں ، بوڑھوں اور عام مسلمانوں میں ان کی ضرورت کے لحاظ سے دین کی تعلیم واشاعت اور اخلاقی تربیت کے لئے اسے آسانی کے ساتھ بہت مؤثر طریقے پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔(۲) اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہیں اور زیادہ تر اسی راستے سے کی جاتی ہیں ، اسی میڈیا سے ان کا مؤثر طورپر رد کیا جاسکتا ہے ۔(۳) تعلیم کے لئے اب یہ ایک مؤثر ذریعہ بن چکا ہے اور جیسے ایک طالب علم کلاس روم میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتا ہے ، یا اپنے ٹیوٹر کے سامنے بیٹھ کر کلاس روم کی کمی کو پورا کرتا ہے، اسی طرح وہ اس ذریعہ ابلاغ سے بھی علم حاصل کرسکتا اور اپنی صلاحیت کو پروان چڑھاسکتا ہے ، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی کو دور دراز دیہات میں بیٹھے ہوئے طالب علم کے لئے بھی اس کے ذریعے مشرق و مغرب کے ماہر ترین اساتذہ سے کسب ِفیض کرنا ممکن ہے ، ایسے تعلیمی مفادات کے لئے اس ذریعہ ابلاغ سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔(۴) صحت و علاج کے شعبے میں بھی اس سے مدد لی جاسکتی ہے ، بلکہ لی جارہی ہے ، اس کے ذریعے ماہر ترین معالجین سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ، یہاں تک کہ ملک میں ایک ڈاکٹر آپریشن کرتے ہوئے دنیا کے کسی بھی ملک و براعظم میں بیٹھے ڈاکٹر کے مشورے سے مستفید ہوسکتا ہے ۔(۵) موجودہ صورت حال یہ ہے کہ پرنٹ میڈیا نیز نیشنل اور انٹر نیشنل الیکٹرانک میڈیا جھوٹی خبریں بنانے اور پھیلانے ، نیز سچی خبروں کو دبانے اور چھُپانے میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے میں لگا ہوا ہے اور نہایت مہارت کے ساتھ مظلوم کو ظالم اور ظالم کو مظلوم بناکر پیش کررہا ہے ، ان حالات میں سوشل میڈیا کے ذریعے سچائی کو پیش کرنے اور جھوٹ کی قلعی کھولنے کی اہم خدمت انجام دی جاسکتی ہے ، چنانچہ عالمی وملکی سطح پر کئی واقعات ایسے ہیں، جن میں سوشل میڈیا کی حقیقت بیانی نے ظالموں اور دروغ گویوں کو شرمندہ کیا۔
٭ موجودہ تناظر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ سوشل میڈیا کا اچھے مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے اور اس کی مضرتوں سے نئی نسل کو بچایا جائے ، کیوںکہ جن چیزوں میں نفع اور نقصان دونوں پہلو ہوں ، اور اس ذریعے کو بالکل ختم کردینا ممکن نہ ہو تو اسلامی نقطۂ نظر سے اس کے لئے یہی حکم ہے کہ اسے مفید طریقے پر استعمال کیا جائے اور نقصان دہ پہلوؤں سے بچا جائے ، جس چاقو سے کسی جانور کو حلال طریقے پر ذبح کیا جاسکتا ہے اور کسی بیمار کو نشتر لگایا جاسکتا ہے ، وہی چاقو کسی بے قصور کے سینے میں پیوست بھی کیا جاسکتا ہے ، تو ہمارے لئے یہی راستہ ہے کہ ہم چاقو کے صحیح استعمال کی تربیت کریں۔
اس پہلو سے سوشل میڈیا میں جن باتوں سے نئی نسل کو بچانے کی ضرورت ہے، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں چند اہم نکات یہ ہیں :(۱) چھوٹے بچوں کو جہاں تک ممکن ہو ، اس سے دُور رکھا جائے ، تاکہ ان کی پہنچ ایسی تصویروں تک نہ ہوجائے ، جو ان کے ذہن کو پراگندہ کردے ، یا قتل و ظلم کے مناظر دیکھ کر ان میں مجرمانہ سوچ پیدا ہو ۔(۲) طلبہ و طالبات اور نوجوانوں کو تعلیمی اور تعمیری مقاصد کے لئے ایک مختصر وقت ان ذرائع سے استفادہ کے لئے مخصوص کرلینا چاہئے، کیوںکہ اس کا بہت زیادہ استعمال انسان کو وقت ضائع کرنے کا عادی بنادیتا ہے اور پیغامات کی تسلسل کی وجہ سے وہ بعض اچھی چیزوں کو بھی اتنی دیر تک دیکھنے کا خوگر ہوجاتا ہے کہ اصل کام سے اس کی توجہ ہٹ جاتی ہے ، یہ بھی ایک طرح کا لہو و لعب ہے جس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ صحت کے نقطۂ نظر سے بھی نہایت نقصان دہ ہے ۔(۳) جو عمل عام حالات میں جائز نہیں ہے ، وہ ان ذرائع کے ذریعے بھی جائز نہیں ہے ، جیسے : جھوٹ ، بہتان تراشی ، لوگوں کی کوتاہیوں کو طشت ازبام کرنا ، مذاق اُڑانا ، سب و شتم کے الفاظ لکھنا یا کہنا ، یہ سب کبیرہ گناہ ہیں اور ان سے بچنا شرعی فریضہ ہے ۔(۴) ایسی خبریں لکھنا یا ان کو آگے بڑھانا جن سے اختلاف بڑھ سکتا ہے ، جائز نہیں ہے ، اگرچہ کہ وہ سچائی پر مبنی ہوں، اس لئے کہ جو سچ مسلمانوں کے دلوں کو پارہ پارہ کرتا ہو اور انسان اور انسان کے درمیان نفرت کے بیج بوتا ہو ، اس سے وہ جھوٹ بہتر ہے ، جو ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے اور اختلاف کو اتحاد سے بدلنے کا کردار ادا کرسکے ۔(۵) ایسی چیزیں دیکھنا ، دِکھانا ، لکھنا اور پڑھنا ، سب کا سب حرام ہے ، جو فحشاء اور بے حیائی کے دائرہ کار میں آتا ہو ، خواہ وہ تصویر کی شکل میں ہو یا آواز کی ، تحریر کی شکل میں ہو یا کارٹون کی ، شعر کی شکل میں ہو یا لطیفے کی، ان سے اپنی حفاظت کرنا اس دور میں نوجوانوں کے لئے بہت بڑا جہاد اور ایک عظیم عبادت ہے ۔(۶) سوشل میڈیا پر اسلام ، پیغمبر اسلام ﷺ، اسلامی شعائر ،مسلمانوں کی تاریخ اور مقدس مقامات وشخصیات کے بارے میں ایسی نازیبا باتیں بھی آجاتی ہیں ، جو بجا طورپر نوجوان تو کیا ہر مسلمان کے خون کو گرمادینے اور دل کو کھولادینے کے لئے کافی ہیں ، لیکن اس کے باوجود ہمیں صبر ، سنجیدگی اورمتانت سے کام لینا چاہئے اور ایسے جذباتی ردعمل کا اظہار نہیں کرنا چاہئے ، جو نفرت کو بڑھانے والا ہو ، اگر ناشائستہ باتوں پر اس طرح کے کمنٹس کئے گئے تو جو لوگ اسلام ، امن اور انسانیت کے دشمن ہیں ، ان کا مقصد پورا ہوجائے گا ، اس کی بجائے علم کی روشنی میں مدلل اور سنجیدہ طریقہ پر ان کا جواب دینا اور ان کی بات پر ردعمل ظاہر کرنا چاہئے، کیوںکہ جذبات و اشتعال سے وہ لوگ کام لیتے ہیں، جن کے پاس دلیل کی قوت نہیں ہوتی ، جن کے پاس دلیل کا ہتھیار موجود ہو، انہیں تحمل و برداشت کا دامن چھوڑنے کی ضرورت نہیں ۔(۷) نہایت قابل توجہ بات یہ ہے کہ نوجوانوں کو ایسی سائٹس سے دُور رہنا چاہئے ، جن کا تعلق دہشت گرد تنظیموں وغیرہ سے ہو، ان کے قریب بھی جانے سے بچنا چاہئے، کیوںکہ یہ چیز غلط راستے پر لے جاتی ہے ، یا کم سے کم شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے، اس لئے نوجوانوں کو تہمت کے ان مواقع سے دُور رہنا چاہئے اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے ، جو انہیں غلط راستہ پر ڈال دے ، یا ان کے بارے میں شکوک و شبہات کا راستہ کھول دے، حقیقت یہ ہے کہ اسلام کسی بھی قسم کی اقدامی یا جوابی دہشت گردی کو پسند نہیں کرتا ، کیوںکہ اس میں بے قصور لوگوں کی موت ہوجاتی ہے ، اسلام تو امن و انسانیت ، عفو و درگذر اور محبت و بھائی چارہ کا پیغامبر ہے ،نہ کہ نفرت اور ظلم کا ۔لہٰذا ذرائع ابلاغ کے استعمال خواہ اس کا تعلق پرنٹ میڈیا سے ہو یا الیکڑانک میڈیا سے، اسی طرح سوشل میڈیا کے استعمال میں اس کے مثبت اور تعمیری پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔اس سلسلے میں قرآن و سنت ،اسوۂ رسول ﷺ ،سیرت طیبہ اور تعلیماتِ نبوی ؐسے رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔
اسلامی تعلیمات کا تقاضا یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کے تمام مؤثر ذرائع کو دین مبین کی دعوت و تبلیغ ،اسلام ،پیغمبر اسلامﷺ ،اسلامی شعائر اور اسلامی افکار و نظریات کےدفاع کے لیے استعمال کیا جائے۔ ایک ایسے وقت جب دنیا گلوبل ولیج کی شکل اختیار کرچکی ہےاور ذرائع ابلاغ کے مؤثر ذرائع دنیا بھر میں پیغام رسانی کے لیے عام ہوچکے ہیں، ان کے مثبت استعمال کے ذریعے دنیا بھر میں اور اقوام عالم میں اسلام کے بارے میں بے بنیاد شکوک و شبہات ،مغربی دنیا اور غیر مسلم حلقوں کے اٹھائے گئے بے بنیاد اعتراضات و شبہات کے مثبت اور مدلل انداز میں جوابات دیے جائیں اور دنیا پر یہ ثابت کیا جائے کہ اسلام دین برحق، دین انسانیت اور فطرت کے عین مطابق مذہب ہے۔
یہ امن و سلامتی کا داعی اور رواداری کا علم بردار ہے، جس کا دہشت گردی، انتہاپسندی سے کوئی تعلق نہیں، اس طرح اسلامو فوبیا اور مغرب کی طرف سے اٹھائے گئے بے بنیاد پروپیگنڈے کا ازالہ بھی کیا جاسکتا ہے اور ابلاغ کے ان ذرائع کو اسلام کی عالم گیر ترویج و اشاعت کا ایک بھرپور اور مؤثر ذریعہ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ جس کی عصرحاضر اور موجودہ حالات میں اشد ضرورت ہے۔