وزیراعظم شہباز شریف نے عمران خان حکومت کی جانب سے میڈیا پر پابندیوں کے قانون پیکا کو مزید ڈریکونین بنانے کے لیےلائی گئی ترمیمی آرڈی ننس کو کالعدم قرار دے کر ملک میں پہلی مرتبہ صحافت کے حوالے سے ایک مثبت قدم اٹھایا ہے ورنہ برصغیر کی تاریخ صحافت اور صحافیوں کے لیے دارورسن کی آزمائشوں کے سوا کچھ نہیں۔آج تک ہر حکومت نے ’’حسبِ توفیق‘‘ میڈیا کو شکنجے میں کس کر اپنی مرضی کے تابع لانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سچ لکھنے کی پاداش میں صحافیوں نے قید وبند کی جو صعوبتیں برداشت کیں انہیں بیان کرنے کےلیے دفتر کے دفتر درکار ہیں، اس دلیرانہ جدوجہد پر ساری قوم ان کی جرأت وعظمت کو سلام پیش کرتی ہے۔ عجیب بات ہے کہ سیاسی جدوجہد میں میڈیا جب اپوزیشن میں ہوتے ہوئے جمہوریت کی بقاء کی جنگ میں سیاستدانوں کے ہم قدم ہوتا ہے تو وہ اسے ’’نجات دہندہ ‘‘سمجھتے ہیں۔لیکن جیسے ہی یہ سیاستدان اقتدار میں آتے ہیں تومیڈیا کے یہی لوگ انہیں بُرے لگنے لگتے ہیں، تحریکِ پاکستان کے دوران جب انگریز اور ہندومسلمانوں کو مسلسل دیوار سے لگانے کی کوشش کررہے تھے تو اس وقت بھی صحافیوںنے حق گوئی کا فرض ادا کیا۔تحریکِ آزادی کے پہلے شہید ِصحافت مولوی باقر دہلوی تھے جن کا روزنامہ اخبار 1836 میں شروع ہوا۔اس جدوجہد میںمولانا عبدالحلیم شرر کے ’’دلگزار‘‘اور ’’اتحاد‘‘، مولانا حسرت موہانی کے ’’اُردو معلی‘‘،مولانا ابو لکلام آزاد کے ’’ الہلال‘‘، مولانا محمد علی جوہر کے ’’کامریڈ ‘‘اور ’’ہمدرد‘‘اور مولانا ظفر علی خا ن کے ’’زمیندار ‘‘کا کردار عدیم المثال رہا۔ انگریزوں کا مسلمانوں کے اخبارات بند کرنا یاان پر بھاری جرمانے عائدکرنا معمول بن چکا تھا۔ ایسے میں عام مسلمان چندے جمع کرکے زرِضمانت کا بندوبست کرتے اور یوں مالکان جرمانے ادا کرکے اخبارات بحال کروایاکرتے تھے۔علامہ عنایت اللہ خان المشرقی، میر خلیل الرحمٰن،حمید نظامی، زیڈ اے سلہری، خواجہ حسن نظامی،تفضل حسین اور آغا شورش کاشمیری سمیت بہت سے صحافیوں کو فرنگی سامراج کی چیرہ دستیوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ انہیں جیلوں میں ڈالا گیا، برف کی سیلوں پرلٹایا گیا، کالاپانی کی سزائیںدی جاتی رہیں، جانی اور مالی نقصان سے دوچار کیا گیالیکن ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی، قیام پاکستان میں ان نابغۂ روزگار شخصیات کا نمایاں کردار رہا۔ قائد اعظمؒ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا،’’ پاکستان بننے کے بعد ریاست میں ایک آزاد اور بیباک پریس ہو گا‘‘۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں یہی طبقہ سب سے زیادہ مصائب وآلام میں گھرا رہا۔ 1951 میں پنڈی سازش کیس بنا کر ’’ پاکستان ٹائمز ‘‘کے ایڈیٹر فیض احمد فیض (جو ایک ترقی پسند سوچ کے حامل تھے )اور روزنامہ ’’امروز ‘‘کے ایڈیٹر ظہیر بابر کو غداری کے الزامات میں جیل میں ڈال دیا گیا۔ایوب خان کے دور میں پریس کو کنٹرول کرنے کےلیے ’’پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈی ننس 1963‘‘کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔ گورنرمغربی پاکستان نے نامور صحافی اور ناول نگار نسیم حجازی کے اخبار’’کوہستان‘‘ جو اپنے وقت کا ایک بڑا اخبار تھا، پر پابندی لگا دی۔ ایوب خان نے نیشنل پریس ٹرسٹ قائم کیا اور کئی موقر اخبارات پر قبضہ کرکے انہیں اس میں شامل کرلیا۔ ذوالفقار علی بھٹو سمیت آنے والے تمام حکمرانوں نے نیشنل پریس ٹرسٹ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ اورصحافت کی آزادی پر کاری ضرب لگائی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں حکومت کی مرضی و منشا کے بغیر کچھ بھی چھاپنے کی اجازت نہ تھی۔ اخبار کی تیارشدہ کاپی محکمہ اطلاعات کے دفتر میں منگوا کر اس میں سے ناپسندیدہ خبریں نکال دی جاتیں پھر ان کی جگہ خالی چھوڑنے کی اجازت نہ تھی۔ اس دور میں صحافیوں کو کوڑے مارے گئے، اخبارت کو بند کیا گیا اشتہارات کے ذریعے انھیں بلیک میل کیا گیا۔صحافی تنظیموں کے رہنماؤں کو جیلوں میں بند کیا گیا ان میں منہاج برنا، نثار عثمانی اور عبدالحمید چھاپرہ جیسے صحافی بھی شامل تھے۔ جمہوری اور سیاسی ادوار میں بھی صحافت پر پابندیاں، من پسند اخبارات کی سرپرستی اور مخالف اخبارات پر سختی برقرار رکھی گئی۔صحافیوں کا اغوا اور قتل معمول بن گیا۔ بڑے بڑے صحافیوں کو اخبارت سے نکلوایا گیا لیکن نامساعد حالات، کم آمدنی، اوردیگرمسائل کے باوجود یہ لوگ سچ لکھتے رہے۔ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے صحافی معاشرے کے نشیب وفراز کی عکاسی اور بہتر مستقبل کی رہنمائی کرتے ہیں۔یاد رکھئے قلم اور تلوار کی جنگ میں ہمیشہ جیت قلم کی ہوتی ہے اور یہی جمہوریت کی روح ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)