• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی آئی کارکنوں کی گرفتاریوں، راستوں کی بندش کیس کا تحریری فیصلہ

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنوں کی گرفتاریوں اور راستوں کی بندش کے کیس میں سپریم کورٹ نے اسلام آباد بار کی درخواست نمٹانے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ عدالت نے عمران خان کے خلاف 25 مئی کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی سے متعلق اٹارنی جنرل کی درخواست مسترد کردی۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کو مایوسی ہوئی کہ عدالتی کوشش کا احترام نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے14 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا، جسٹس یحیٰی آفریدی نے فیصلے میں اختلافی نوٹ پیش کیا۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ میں اس بات سے آمادہ نہیں کہ عمران خان کے خلاف کارروائی کے لیے عدالت کے پاس مواد موجود نہیں ہے۔

جسٹس یحیٰی آفریدی  کے اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ عمران خان نے اپنے کارکنان کو ڈی چوک میں پہنچنے کا کہا، عمران خان نے 25 مئی کے عدالتی احکامات کو نہیں مانا۔

اکثریتی فیصلہ چیف جسٹس جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے تحریر کیا، اکثریتی فیصلے میں متعدد سوالات اٹھائے گئے۔

عدالت نے ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی آئی بی، سیکریٹری داخلہ، آئی جی اور چیف کمشنر اسلام آباد سے جواب طلب کرلیا۔

سپریم کورٹ نے سوال کیا کہ کتنے مظاہرین ریڈ زون میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے؟ ریڈ زون کی سیکیورٹی کے انتظامات کیا تھے؟

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ  عدالت کی کارروائی کا مقصد دونوں فریقوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا تھا، ایگزیکٹو حکام کی جانب سے سیکیورٹی انتظامات میں کیا نرمی کی گئی؟ کیا سیکیورٹی بیریئر کو توڑا گیا؟ کیا مظاہرین یا پارٹی ورکر جی نائن اور ایچ نائن گراؤنڈ میں گئے؟

فیصلے میں کہا گیا کہ عدالتی حکم نامہ موجود فریقوں کی موجودگی میں جاری کیا گیا، اس کیس میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے اعلیٰ اخلاقی اقدار میں کمی واقع ہوئی، سیاسی جماعتوں کے اقدام سے عوامی حقوق اور املاک کو نقصان پہنچا۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کو مایوسی ہوئی کہ عدالتی کوشش کا احترام نہیں کیا گیا، تمام ثبوتوں کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائے گا عدالتی حکم کی عدم عدولی ہوئی یا نہیں؟

سپریم کورٹ نے استفسار کیا کہ کیا حکومت کو دی گئی یقین دہائی کی خلاف ورزی کی گئی؟ کیا انتظامیہ اور پولیس نے کارکنوں کے خلاف کوئی ایکشن لیا؟

فیصلے میں کہا گیا کہ ایگزیکٹو، پی ٹی آئی قیادت اور دیگر سیاسی جماعتیں پر امن سیاسی سرگرمیوں کا ضابطہ اخلاق بنائیں گی، پر امن احتجاج آئینی حق ہے مگر یہ ریاست کی اجازت کے ساتھ ہوسکتا ہے۔

عدالت نے زخمی، گرفتار اور اسپتال میں داخل مظاہرین کی تفصیلات بھی طلب کرلیں۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ لانگ مارچ کی صورت حال ختم ہوگئی، سڑکیں کھل گئیں، پٹیشن غیر مؤثر ہوگئی۔

سپریم کورٹ نے اسلام آباد بار کی پٹیشن غیر موثر ہونے پر نمٹادی۔

قومی خبریں سے مزید