• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ریتان پارک کا ایک خُوب صُورت منظر
ریتان پارک کا ایک خُوب صُورت منظر 

میری اور بہار کی آمد چِین میں کم و بیش ساتھ ساتھ ہی ہوئی تھی۔اِس جیالی قوم کی بہار اور اس سے جُڑا جشن ہم مسلمانوں کی عیدین کی طرح قمری شمسی کیلنڈر سے جڑا ہوتا ہے۔ اپریل کا آغاز تھا، جب ابھی گھاس نے ہرا کچورچولا اورٹنڈ منڈ درختوں نے سفید اور گلابی پھولوں کا پیرھن پہنا ہی تھا، مگر ابھی سُرخ اور نیلے پیلے پھولوں کی چادریں نہیں بچھی تھیں۔

سچّی بات ہے، میری تو یادوں میں ماسکو میں ملنے والی اُس بھارتی خاتون کے الفاظ کی گونج آج بھی باقی ہے کہ جس نے آنکھوں اور ہاتھوں کی تمثیلی حرکات سے کہا تھا ’’باپ رے باپ، چین میں توتاحدِّ نظر ہر سُو پھولوں کی چادریں ہی چادریں دکھائی دیتی ہیں۔‘‘ وہ یقیناً سچ ہی کہہ رہی ہوگی کہ شاید مَیں ہی یہاں ذرا جلدی آگئی تھی، جو مجھے ایسا کچھ نظر نہ آیا۔ لیکن عظیم چینی شاعروانگ انشی(Wang Anshi ) بہار سے متعلق اپنے جن جذبات کا اظہار کرتا ہے، اس کا بھی ایک اپنا ہی ایک رنگ ہے؎ بادِ بہار میں جتنا حُسن ہے، اتنا ہی کوجہ پن بھی ہے…یہ پھولوں کو کِھلاتی ضرور ہے، مگر انہیں اڑا کر بھی لے جاتی ہے۔روایتی چینی لونی سولر کیلنڈر(سورج اور چاند کی باہمی گردش پر مبنی) کی سائیکل بارہ سال پر محیط ہوتی ہے۔ اہم چینی تہوار، جیسے چینی سالِ نو، لالٹین تہوار وغیرہ اسی قمری حساب کتاب سے جُڑے ہیں، جن کے نام بھی جانوروں کے ناموں پر ہوتے ہیں۔

ہفتے کی صبح جب تمام گھر والے ابھی سو ہی رہے تھے، تو مَیں چُپکے سے باہر نکل آئی۔ ایک فرلانگ کے فاصلے پر ایک انتہائی خُوب صُورت پارک’’ریتان‘‘ تھا۔ شام کی دل کش مگر قدرے بے نام سی اُداسی گُھلی گھڑیوں میں تو اُسے دیکھ چُکی تھی،مگر صبح کی پُرنور ساعتوں میں دیکھنے کی متمنّی تھی۔فضا میں اوائل فروری جیسی خنکی تھی، مگر پارک میں چہل پہل تھی۔ آج کے ٹیڈی لڑکوں کی قامت جیسے بوٹوں پر سفید، گلابی ،سُرخ اور سفید پھول کتنے دل کش لگ رہے تھے۔ 

ہمارے سامنے جھیل تھی، سبز مائل پانی، یقیناً شفّاف نہیں تھا، مگر اُسے ہر رنگ اور ہر انداز میں حسین بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔چلتے چلتے خود ساختہ پہاڑی سلسلے بھی دکھائی دے رہے تھے۔ ہمارا جی چاہا بینچ پر بیٹھ جائیں کہ یہ خُوب صُورت مناظر آنکھوں کے رستے دل میں اتارنے کی ہُڑک تھی۔ رات ہی ہم نے قدیم چینی شاعری کے مختلف ادوار کھنگالے، تو پتا چلا کہ تانگ((Tangخاندان نے بہترین انداز میں شاعری کی سرپرستی کی، مینگ حورن(Meng Haoran)، ڈوفو(Du Fu)،لی بائی(Li Bai)،وانگ وی(Wang Wei )سب ایک سے ایک بڑھ کر ایک تھے۔ مینگ حورن کی دو نظمیں دیکھیے۔؎ آڑو کا درخت کتنا سرخ ہوگیا ہے…اس کے پھول بے مثال ہیں…چلو کنواری دوشیزہ کی شادی ہونے جارہی ہے…یہ وقت اور سایہ دار جگہ شادی کے لیے بہت موزوں ہیں…بہار کی اِس صبح میں ابھی بستر میں ہوں…جاگنا نہیں چاہتا جب تک کہ…پرندوں کی چہچہاہٹ نہ سنائی دے… رات بھر تیز ہوائوں اور بارش کی یلغار رہی…سوچتا ہوں کتنے خوب صُورت پھول گرے ہوں گے۔زمانہ گو صدیوں پرانا تھا،مگر انسانی جذبات و احساسات تو آج جیسے ہی تھے، ہم بینچ پر بیٹھے اپنے موبائل پر شاعری پڑھنے لگے۔ ڈوفوکہتا ہے؎ اچھی بارشوں کو موزوں وقت پر اپنی آمد کا پتا ہوتا ہے…یہ برسیں گی تب جب بہار آتی ہے…ہوا کے ساتھ کبھی یہ دبے پائوں آکر…ہر شئے کو خاموشی سے نمی سے بھر دیتی ہے۔

وانگ وی کی شاعری کائنات کے دل کش رنگوں، زندگی کی رعنائیوں، کنفیوشس اور بدھ مَت کے فکری اور روحانی تجربات میں گُندھی نظر آتی ہے کہ اس دَور کو شاعری کے اعتبار سے ایسے ہی تو سنہری دَور نہیں کہا گیا۔انہی سوچوں میں گُم ہمیں کافی کی طلب ہوئی، تو دیکھا پگوڈا اسٹائل کافی ریسٹورنٹ اس وقت بند تھا۔

جشنِ بہار کی دل کش تصویر
جشنِ بہار کی دل کش تصویر 

وہ مجھے دیکھ رہی تھی اور مَیں نے بھی اُسے گھورا۔ بہت دل کش اور حسین عورت تھی، جس کے ساتھ دس سال کا لڑکا بھی تھا۔چہرے مہرے سے مشرقی یورپ کے کسی مُلک کی لگ رہی تھی اور اس کا لباس تو خیر بالکل ہی مغربی تھا اور دوسری طرف ہم… دوپٹا،شلوار اور سب سے بڑھ کربرّصغیر کے مخصوص خدّوخال ہماری شناخت تھے۔ دفعتاً واک کرتے ہوئے جب وہ ہمارے قریب سے گزری، تو رُک کر ہم سے کچھ ادھورا سا سوال کیا’’آپ…؟؟‘‘ اب جملہ ہمیں مکمل کرنا تھا، سو ہم نے کیا۔ ’’پاکستانی ہوں۔‘‘یہ سُن کر جس انداز میں اس کے چہرے پر مُسکراہٹ پھیلی، ہم پلک جھپکتے سمجھ گئے کہ وہ ہماری ہم وطن ہے۔

ہم وطنی اور ہم زبانی بھی کیا چیز ہے،سارے فاصلے آنا فاناً مٹا دیتی ہے۔ ’’میرا نام ثمینہ محی الدّین ہےاور میرے شوہر پاکستانی بزنس مین ہیں۔ جینگو مین وائے( Jianguomen wai)میں رہتی ہوں۔‘‘ باتوں کا سلسلہ چل نکلا، تو پتا چلا کہ اس کا بچّہ پاکستان ایمبیسی کے اسکول میں پانچویں درجے میں پڑھ رہا ہے۔ کہنے لگی، جیسے ہمارا مُلک زوال پذیر اور لو گ احساسِ سود و زیاں سے عاری ہیں، ویسے ہی اسکول،سفارت خانہ اور سفارت کار بھی ہیں۔ چند لمحوں کی ہیلو ہائے ہی میں دردِ دل یوں پھٹ کر باہر آجانا،خاتون کے حسّاس اور وطن پرست ہونے کی دلیل تھی۔باتیں کرتے ہوئے میری نظر ذرا دُور خود ساختہ چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کے عقب میں کھڑے درختوں کی پھنگیوں پر پڑی۔ جہاں مسکین سی دھوپ مُسکرا رہی تھی۔

ثمینہ کی نظریں بھی ہمارے تعاقب میں اٹھیں۔’’دیکھو، ایک ذرا سی پیلاہٹ نے منظر کی رعنائی کتنی بڑھا دی ہے۔‘‘ہم نے کہا۔چند لمحے وہ بھی اس سے محظوظ ہوتی رہی، پھر ہنس کر بولی’’ایک بہت دل چسپ اور مزے کا واقعہ سناتی ہوں۔دیکھیے کہ اس جفاکش اور محنتی قوم کے عوام ہمیں اور ہمارے حکم رانوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ شاید 2یا 3نومبر 2018ء کی بات ہے، جب عمران خان نے وزیر اعظم کی حیثیت سے پہلی بار چِین کا دَورہ کیا، تو اس دن میں کچھ سودا سلف کی خریداری کے لیے نکلی۔ میرے چینی ڈرائیور نے اپنے پتلے ہونٹوں اور تکونی آنکھوں میں شرارت نما پھیلے طنز سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا ’’مادام! کیا عمران خان پیسے مانگنے آیا ہے؟‘‘ 

چین میں قائم پاکستانی سفارت خانہ
چین میں قائم پاکستانی سفارت خانہ 

گاڑی کے ادھ کُھلے دروازے پر دھرا میرا ہاتھ اُس وقت ذرا سا لرزا۔سچّی بات ہے، میرا دل اُسے ایک زوردار اور کرارا سا تھپّڑ مارنے کو چاہا، مگر مَیں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور چہرے پر فی الفور پیدا ہونے والے غصّے کے اثرات زائل کرنے پڑے۔لیکن مَیں نے خود سے سوال کیا۔’’اس جملے میں چھلکتی حقیقت نما تلخی کا تجزیہ کروں، تو کیا یہ ایک پاکستانی کو اس کی اوقات یاد دلانے کی ایک معصومانہ یا عیارانہ کوشش تھی، جس کے پس منظر میں ایک ارب تیس لاکھ قوم میں سے ایک کروڑ کی تو سوچ ضرور جھلک رہی ہے۔ صورت یقیناً قہر درویش، برجانِ درویش والی تھی۔

تاہم، دھیمی سی مسکراہٹ (جس میں شرمندگی ،خجالت اور کچھ دکھ بھرے جذبات کے رنگ تھے) ہونٹوں پر سجائی اور گاڑی میں بیٹھتے ہوئے دھیرے سے بولی’’ارے نہیں، وہ تو تمہارے صدر، شی جن پنگ اور وزیر اعظم، لی کی کیانگ سے باہمی دل چسپی، اسٹریٹیجک تعاون اور کچھ اقتصادی مسائل کے حل،مشور ے اور مدد کے لیے آئے ہیں۔ مَیں نے اسے جواب تو دے دیا تھا، لیکن حقیقت تو یہ تھی کہ اس وقت میرا اپنا دل جیسے منوں وزنی پتّھر تلے آگیا تھا۔ دھاڑیں مارمار کر رونے کو جی چاہ رہا تھا، آنسو تو جیسے پلکوں پر دھرے تھے کہ بس ذرا سی ٹیس لگے اور یہ بہہ نکلیں۔‘‘

ثمینہ کو بھی جیسے اپنے پھپھولے پھوڑنے کا موقع مل گیا تھا کہ بے چاری بولے ہی جارہی تھی۔ ذرا دیروقفے کے بعد وہ پھر بولی۔ ’’انیسویں،بیسویں اور اکیسویں گریڈ کے پاکستانی ڈپلومیٹ اردگرد کے قریبی پوش علاقوں میں رہتے ہیں، جن کے ایک لگژری فلیٹ کا کرایہ قریباً پانچ، چھے لاکھ پاکستانی روپے بنتا ہے۔چِین میں ورٹیکل ڈیزائن پر عمارتیں بنائی جاتی ہیں، صرف دو کنال کے رقبے پر تیس منزلہ عمارت پورے سفارت خانے کے عملے کو سمیٹ سکتی تھی،کرائے کی مد میں کروڑوں روپے کا خرچہ بچایا جاسکتا تھا، مگر بات نیک نیتی اور قوم کا پیسا بچانے کی سوچ کی ہے، تو کوئی ایسا کیوں کرے؟

ایسا دل و دماغ کہاں سے لایا جائے، جو اِن پہلوئوں سے سوچے، یہاں تو جو آتا ہے اپنا ہی فائدہ سوچتا عمل کرتا ہے۔‘‘وہ دل سوز لہجے میں بولے چلے جا رہی تھی۔ ’’اور ان ڈپلومیٹس کی بیویاں کون سی کچھ کم ہوتی ہیں، انہیں تو شاپنگ کرنے ،گھر سجانے ،ڈنر پارٹیز کرنے اور شو بازیوں کے سوا کوئی کام ہی نہیں۔ ایسا ہابڑہ ہے ہماری اِن عورتوں کو کہ ابھی بچیاں بالشت بھر کی ہیں اور اُن کے جہیز کے لیے شنگھائی کی رضائیاں، ڈنر سیٹس وغیرہ بھی خرید لیتی ہیں۔ جب ان لوگوں کا تبادلہ ہوتا ہے، تو یہاں سے کنٹینرز میں سامان لے کر جانا پڑتا ہے۔مجھے یہ سب اس لیے معلوم ہے کہ ایسی پارٹیز میں میرا بہت آنا جانا ہے۔جی تو بہت چاہتا ہے کہ کہوں کہ ’’آخر آپ لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ ہمیں ان کے ساتھ دوستی اور افہام و تفہیم کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمارے ڈپلومیٹس کی پارٹیز میں متعلقہ شعبوں کے چینی لوگوں کی موجودگی اہم ہے۔ یہ ملنا جلنا ،یہ تعلقات، یہ رابطے سفارت کاری کے اہم گُر ہیں، جس کی بدولت ہم دُہرے مقاصد حاصل کرسکتے ہیں۔ان کی فنی مہارت اور کاروباری گُروں سے اپنی بزنس کلاس کی تربیت اور ان کے لیے مراعات حاصل کرنے کے ساتھ اُن کی تہذیب سے واقفیت اور اپنی ثقافت سے انہیں روشناس کروانے کا سنہری موقع حاصل کرسکتے ہیں۔‘‘ یقین کریں، ہمارے اکثر ڈپلومیٹس اوّل تو چینی زبان ڈھنگ سے بول ہی نہیں پاتے، جو بولتے ہیں وہ بھی دال دلیے کی حد تک۔‘‘ 

اب نزلہ ہائی پروفائل افسران کی بیویوں پر گرنے لگا۔ ’’ان میں سے اکثر خواتین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، جو اعزازی طور پر اسکول میں پڑھا سکتی ہیں، لیکن ایسا نہیں کرتیں۔ پانچویں کلاس میں پڑھنے والے بچّے کی انگریزی اور سوشل اسڈیز کی ٹیچر کا تلفّظ درست نہیں ۔او لیول میں پڑھنے والے بچّوں کے آئے دن استاد بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی اس اسکول کا معیار بین الاقوامی طرز کا تھا کہ اس میں یورپی ممالک کے بچّے بھی پڑھتے تھے۔ 1960ء میں اس کا افتتاح چواین لائی نے پاک، چین دوستی کے تحت کیا تھا۔ لیکن اب اس کا معیار گرتا ہی چلا جا رہا ہے۔‘‘ وہ بولے جا رہی تھی اورمَیں سانس روکے بیٹھی سُن رہی تھی کہ سوائے کفِ افسوس ملنے کے اور ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔ (جاری ہے)