اُس صبح فضا میں بہت خنکی تھی۔ کبھی کبھی سردیوں کی صبحوں میں بھی ایک اُداسی سی گُھلی نظر آتی ہے۔ وہ صبح بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ ہوائوں میں سرّاٹے مارتے تیز بلھوں کی آمیزش تھی۔ مَیں عقبی جانب کے ٹیرس پر آئی، دھوپ بے چاری تو بے حد گھبرائی اور سراسیمگی کی سی حالت میں دِکھتی تھی، جیسے کہتی ہو ’’مَیں کیا کروں، یہ اتنے ظالم سرکش گھوڑوں کی طرح بھاگتے جھونکے بھلا میری کہاں سُنتے ہیں۔‘‘ مَیں جلدی سے کچن میں آگئی، جہاں ہماری نسرین ہنڈیا پکانے کی تیاری میں مصروف تھی اور ٹوکری میں بینگن پڑے تھے۔
مَیں حیرت سے بینگن دیکھنے لگی۔ ’’یہاں ہر چیز کا یہی حال ہے، مسلسل تحقیق اور تجربات نے خوش بو اور ذائقوں کا کچومر تو ضرور نکال دیا ہے، مگر لوگوں کی ضروریات احسن طریقے سے پوری کررہے ہیں۔ ہماری طرح نہیں کہ زرعی مُلک ہونے کے باوجود کبھی چینی درآمد کررہے ہیں، تو کبھی گندم۔‘‘بیٹی نے کہا۔ اتنے میں سعدیہ کے پاس عمران کی کال آگئی۔ ’’امّی! جلدی تیار ہوجائیں،آپ کا وقت دس بجے ہے۔‘‘ بیٹی نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ’’ارے، ابھی تو ڈیڑھ گھنٹہ پڑا ہے۔
اب یہ مت کہنا کہ چینی وقت کی پابند قوم ہے کہ مَیں خود بھی وقت کی بڑی پابند ہوں۔ تمہارے باپ سے مَیں نے کچھ سیکھا ہو یا نہیں، مگر ان کی پابندیِ وقت کی عادت تو جی جان سے اپنائی ہے۔‘‘ مَیں نے ہنستے ہوئے کہا۔’’دراصل ’’فارن لینگویج یونی وَرسٹی‘‘بیجنگ کی جنوبی سمت ہے، جو یہاں سے خاصی دُور ہے اور رَش کا حال تو آپ دیکھ ہی چُکی ہیں۔‘‘سعدیہ نے کہا۔ نسرین کو اپنے پسندیدہ مگ میں قہوہ اُنڈیلتے دیکھ کر مَیں نے کہا ’’نسرین میڈم! مَیں آج تمہاری ہم نام چینی پروفیسر سے ملنے جارہی ہوں۔‘‘ تو وہ بھی مُسکرانے لگی۔
اُردو سیکھنے والے اکثر چِینی طلبہ اپنے ناموں کے ساتھ اُردو نام بھی لگا لیتے ہیں
سعدیہ نے بتایاتھا کہ پروفیسر نسرین سے اس کی پہلی ملاقات پاکستانی سفارت خانے میں ہوئی تھی، جہاں مختلف شہروں سے پاکستانی بھی شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے۔ نسرین اُس وقت دھان پان سی خوب صُورت لڑکی تھی اور وہ چمکتے دمکتے پاکستانی لباس میں تتلی کی طرح نظر آرہی تھی۔ پاکستانی خواتین فقرے بازی میں تو خیر سے بڑی تیز طرّار ہوتی ہیں، ایسے میں کسی مَن چلی نے کہا’’اس سینک سلائی کو تو دیکھو۔‘‘ لیکن اس کے تو کہیں گمان میں بھی نہ ہو گا کہ وہ جسے نشانہ بنا رہی ہے، وہ اُردو جانتی تھی۔ پھر جب اس خُوب صُورت لڑکی نے اردو میں اظہارِ خیال کیا،تو بس اندازہ لگالیں کہ خواتین کس قدر شرم سار ہوئی ہوں گی۔
اس شہر میں بھی فاصلوں کا پھیلائو اپنے شہر جیسا ہی تھا۔ فرق تھا، تو صرف نظم و ضبط اور قاعدےکلیےکا۔ منزلِ مقصود پر پہنچے تو گاڑی کی پارکنگ مسئلہ بن گئی۔ اس موقعے پر ہمیں اورینٹل کالج، لاہور کا گردونواح یاد آگیا۔ مگر دل نے فوراً کہا’’نہیں، یہاں صورت زیادہ مخدوش ہے۔‘‘پارکنگ کے لیے جو خجّل خواری ہوئی، اس نے کشور کمار کا’’میرے محبوب آج رسوا تیری گلیوں میں محبّت ہوگی۔‘‘یاد دلادیا، پر شُکر کہ ہماری ’’چِینی‘‘ محبّت بہت زیادہ رسوا ہونے سے بچ گئی۔
ایک نفیس انسان نے بہت اندر جاتی ایک گلی میں رہ نمائی کرتے ہوئے پارکنگ کروائی، تو شُکر کا کلمہ کوئی دَس بار کہا اور یونی وَرسٹی پہنچے، جو بےحد خُوب صُورت،قدیم اور جدید رنگوں کے حسین امتزاج سے سجی تھی۔ درس گاہ چاہے غیر مُلکی ہو یا مدّتوں بعد اپنی ہی کسی جامعہ میں جانے کا اتفاق ہو، داخلے کے ساتھ والے مناظر مانوس سے لگے، جہاں بڑا نہیں،مناسب سی کشادگی والا ایک میدان تھا، جہاں طلبہ کھیل رہے تھے اور کونے میں ایک بڑھئی اپنا اڈّہ لگائے لکڑی کا کچھ کام کررہا تھا۔ دائیں بائیں مُڑتے بل کھاتے برآمدے اور راہ داریاں تھیں۔
عمران نے نسرین سے رابطہ کیا، تو اس نے کہا ’’آگے آجائیں، ہمارے طلبہ آپ کو لے جانے کے لیے کھڑے ہوں گے۔‘‘ اس بات پر ہمیں بیگم اختر ریاض الدّین یاد آگئیں، جب وہ آدھی رات کو ہوائی یونی وَرسٹی پہنچی تھیں، تو طلبہ نےپھولوں کے ہاروں کے ساتھ ان کا استقبال کیا تھا۔ خواہ مخواہ ہی ہمارے دل میں بھی یہ خیال آیا کہ یہاں بھی ایسا ہی کچھ ہوگا۔ لیکن پھر دماغ نے پھٹکارا’’یہ تم پٹری سے اتنی جلدی کیوں اُتر جاتی ہو، اوقات یاد رکھا کرو۔‘‘ ہم دونوں دائیں، بائیں مُڑتے جارہے تھے اور تھوڑی تبدیلی کے ساتھ گورنمنٹ کالج، لاہور جیسے مناظر تھے۔
اسی دوران سامنے کھڑے ایک نوعُمر لڑکے نے ’’عمر ‘‘کہہ کر اپنا تعارف کروایا۔’’عمر اور چینی لڑکا‘‘ ہم نے سوچا۔ لڑکے نے خود کو بی اے پارٹ وَن کا طالبِ علم بتایا۔ اس عظیم الشّان عمارت کے ایک چھوٹے سے شعبے کی تنگ سی راہ داریوں میں اسلامی ناموں والی چینی لڑکیوں اور لڑکوں کے ساتھ چلتے ہوئے اپنائیت سی محسوس ہو رہی تھی۔ ’’شبنم، شبانہ، عمر ،عثمان…آخر یہ معمّا کیا ہے؟‘‘ نسرین سے ملنے پر ہم نے سب سے پہلے یہی پوچھا، تو پتا چلا کہ اُردو پڑھنے والے چینی طلبہ اور اُردو زبان سے جُڑے دیگر لوگ ادب کے ان ناموں سے جب بہت متاثرہوتے ہیں، تو اپنے نام کے ساتھ اُردو کے ایک نام کا اضافہ کر لیتے ہیں ۔‘‘ نسرین کا چینی نام ZhouYuan، شبنم کا Yuan Yechang ہے۔
نسرین، شعبے کی سربراہ تھی، لیکن اس کا کمرابے حد چھوٹا تھا۔ اس کا کمرا دیکھ کر مجھے اپنے پروفیسرز کے عالی شان کمرے یاد آگئے، توسربراہ کی تو بات ہی چھوڑیے۔ نسرین پاکستان کا دو بار چکّر لگا چُکی ہے، یقیناً اس نے وہاں بہت کچھ دیکھا ہوگا، پر شاید کچھ ’’سیکھا‘‘ نہیں۔ باتیں جاری تھیں کہ قہوے کا دَور چل پڑا۔ پھر ہم نے شعبہ دیکھا، ایم اے کے پہلے سال میں ابھی صرف بارہ ہی طلبہ تھے،ان کی گلابی اردو سے محظوظ ہوئے۔سب ہی کو پاکستان جانے،اُردو پڑھنے اور بولنے میں خاصی دل چسپی تھی۔میرے اِس سوال پرکہ ’’ اردو کا انتخاب کیوں کیا؟‘‘
عورتوں کی کم تعداد کے سبب مَردوں کے لیے شادی آسان امر نہیں
جواب ملا کہ ’’یہ ہمارے گہرے دوست مُلک کی زبان ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ایسے وہاں ہمارے لیے ملازمتوں کے مواقع پیدا ہو جائیں گے۔‘‘اب مَیں کیا کہتی کہ بس خفیف سی ہنسی ہونٹوں پر بکھیر کر رہ گئی۔ ’’مَیں بولوں، کہ نہ بولوں‘‘ جیسی کش مکش نے اُدھم مچادیا۔ جل کر اندر نے کہا ’’جا کم بخت، تُجھے اگر پردہ رکھنا نہیں منظور، تو کھول دے سارے پول۔ کُھل کربتا کہ ہم تو احساسِ کم تری کی ماری قوم ہیں۔ چلو، نوکریوں کامسئلہ تو رہا ایک طرف، ہمارے تو سماجی رویّے بھی نرے غلامانہ ہیں۔ رشتہ کرنا ہے،لڑکی یا لڑکا اُردو میں ایم اے ہے، توگھر کا ان پڑھ سربراہ بھی ناک چڑھا کر کہے گا، ’’اے ہے، نرے نالائق، ان کا مستقبل کیا ہے، دفع دُور کرو، ہمیں نہیں کرنا یہ رشتہ۔‘‘
دل چاہا کہ ان چینی بچّوں سے کہوں کہ ’’میرے بچّو! تمہاری محبّت کی مَیں احسان مند ہوں۔ تم چینی ہو، تمہاری حکومت تمہارے لیے فکرمند ہے، سمجھو تمہاری نوکری تو پکّی۔‘‘ پھر ہم نے اردو لائبریری دیکھنے کی خواہش کی، چاہتی تھی دیکھوں تو سہی کون کون سے مصنّف یہاں موجود ہیں۔ تین منزلہ لائبریری کی وسعتیں اور جدّتیں دونوں نے حیران کردیا۔ تیسری منزل پر اُردو کا ایک حصّہ تھا۔ اب شیلف میں عجیب و غریب سے نام براجمان تھے۔ میری نالائقی کہہ لیں کہ مَیں تو سب ہی سے ناواقف تھی۔ہاں،مرزا حامد بیگ کو دیکھ کر ضرور خوشی ہوئی۔
مستنصر کیوں نہیں ہیں یہاں؟ چلو شُکر، حمید شاہد اور ڈاکٹر رشید امجد سوغات کے طور پر نظر آئے۔ جب نیچے آئے، ایک روکھے پھیکے قطعے سے آگے ایک بڑی انوکھی وضع کی عمارت نے متوجّہ کیا، پتا چلا کہ یہ متّحدہ عرب امارات کا تحفہ، مشرقی زبانوں کی عظیم الشّان لائبریری ہے۔’’اے کاش! ایسا کوئی تحفہ ہمیں بھی عنایت ہوتا۔‘‘دل نے کہا۔’’اری او احمق! دینے والے بھی تو یہ دیکھتے ہیں کہ لینے والے قدرشناس ہیں یا بس ایسے ہی دو نمبریے۔‘‘دل نے پھر پھٹکارا۔
ہم تینوں(مَیں، نسرین اور شبنم) اب اس ویران سے میدان میں آکر بیٹھ گئے، جہاں خشک اور بے ترتیب سی گھاس کے قطعوں میں بینچ دھرے تھے۔ دھوپ نے سوتیلی ماں جیسی سرد مہری کا چولا، جسے ہم نے صبح محسوس کیا تھا، اُتار کر سگی ماں کی ممتا جیسا نگھا دو شالہ اوڑھ لیا تھا۔ ایک اجنبی ماحول علم کی خُوش بو میں بسا ہوا چہار سمت مہک رہا تھا۔ ایسے میں نسرین اور شبنم سے گفتگو کا جو سلسلہ شروع ہوا، اس میں کچھ حصّہ چینی ثقافت سے شناسائی کا تھا، تو کچھ ذہن میں چُبھتے ہوئے سوالات کہ ’’ گزشتہ کچھ ماہ سے چینی لڑکوں کی پاکستانی لڑکیوں سے شادی اور پھر اِن لڑکیوں کو چِین لے جاکر بیچنے والا شور شرابا کیا ہے؟‘‘
پاکستان ، چِین کی شادی بیاہ کی رسومات میں حیران کُن ہم آہنگی پائی جاتی ہے
جب پڑھی، لکھی مقامی خواتین میسّر آئیں، تو مَیں نے پوچھ ہی لیا ۔’’میرا تو اپنا ایک عزیز پاکستانی دلہن بیاہ کر لایا ہے اور دونوں ہی بہت خوش ہیں۔‘‘شبنم نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ ’’دراصل چِین شادی کے حوالے سے مَردوں کے لیے بہت زیادہ منہگا ہے۔ ظاہر ہے جب عورتیں مَردوں کی نسبت کم ہوں گی، تو ان کی اہمیت تو بڑھ ہی جائے گی۔‘‘ نسرین نے کُھل کر پس منظر کی وضاحت کی۔ اتنے میں عمر اور عثمان کینٹین سے ڈسپوزایبل گلاسز میں کافی لے آئے۔’’اللہ کیسا پیارا ہے، دل میں جھانک کر جان لیتا ہے کہ اس کا بندہ اس وقت کِس چیز کا طلب گار ہے؟‘‘ انتہائی رغبت اور مسرّت سے ہم نے گلاسز دیکھے اور سوچا۔نسرین نے چھوٹا سا سِپ لیا اورمیرے اوپر چینی ثقافت و تہذیب کے دل کش پہلو کھولے،’’چینی قوم کی صدیوں پرانی تاریخ ،اس کے شادی کے مکتب سے جڑنے کی گواہ ہے۔
ہاں، اتنا ضرور ہے کہ وقت کے چلتے ہوئے پہیوں میں روایات کی تغیر پذیری کا عمل بھی ساتھ ساتھ جاری و ساری رہا۔ تاہم، کچھ خاص قسم کی روایات کل بھی اس سماج کا حصّہ تھیں اور آج بھی ہیں۔گوشہروں میں اب صورتِ حال خاصی مختلف ہے،انٹرنیٹ،میرج بیورو ٹائپ کے لوگ اِس میدان میں کُودے ہوئے ہیں،لَو میرج کا بھی خاصا رحجان ہے ۔ تاہم، دُور اُفتادہ جگہوں پر پرانے طور طریقے جدّت کے تڑکوںکے ساتھ اب بھی رائج ہیں۔‘‘ ’’واہ نسرین! یہ توہم پاکستانی شادی نامہ سُن رہے ہیں۔‘‘ ہم نے کہا۔’’بھئی ،اتنے پیار کرنے والےہم سائے ہیں، کلچر میں بہت سی چیزیں مشترک تو ہوں گی۔‘‘دونوں لڑکیوں نے یک زبان ہوکر کہا، تو ہم نے سوچایہ خوب صُورت ہی نہیں، ذہین بھی ہیں۔’’ ہاں اور سُنیے، ہمارے یہاں منگنی کی رسم پر لڑکی کی قیمت اور لڑکی والوں کے لیے تحائف اہم ہوتےہیں۔
دلہن کی قیمت کی ادائی اسی وقت ہوجاتی ہے۔پھر تحائف کس نوعیت کے ہوں گے،اکثر و بیش تر تو اپنی حیثیت کے مطابق ہی ہوتے ہیں۔مثلاً پھل، چائے، ناریل،مٹھائی،نفیس قِسم کے کھانے اور اب پرفیوم اور ڈیکوریشن پیسز بھی شامل ہوگئے ہیں۔‘‘نسرین نے مُسکراتے ہوئے کہا۔’’اُف نسرین! شُکر کرو یہ تحائف پھلوں، بسکٹس اور کیکس ہی تک محدود ہیں کہ ہمارے ہاں تو صورتِ حال خاصی گمبھیر ہے۔‘‘اضطراری سی کیفیت میں گفتگو کاٹتے ہوئے مَیں بے اختیار ہی بول پڑی۔’’ فکر نہ کریں، تبدیلی کی ہوائیں اب یہاں بھی بڑی تیزی سےچل پڑی ہیں۔ منگنی کی رسم دھوم دھڑکّے سے منائی جانے لگی ہے،اس پر جو خرچ ہوتا ہے، اُس کا بوجھ بھی لڑکے والوں ہی پرپڑتا ہے اور ہاں، شہری علاقوں میں تو اپارٹمنٹ ،گاڑی بھی مطالبات میں شامل ہوگئی ہے۔یوں بھی اب چِین میں لوگوں کے پاس بڑا پیسا آگیا ہے، تواُن میں اِس کے اظہار کی خواہش بھی زوروں پر رہتی ہے۔ ‘‘
نسرین نے بتایا ۔سچّی بات ہےیہ باتیں سُن کر ایسا لگ رہا تھا جیسے اپنا ماحول ہو۔ بس کچھ حصّوں میں کردار ایک جیسے تھے اور کچھ میں اُلٹ۔ شبنم نے کچھ مزید اضافہ کرتے ہوئے بتایا۔’’اب برائیڈ پرائسز میں گھر، گاڑی اور پیسے سب شامل ہوگئے ہیں۔52 فی صدفی صد چینی عورتیں گھر کو شادی کا اہم عنصر خیال کرتی ہیں۔بیجنگ میں گھر کی اوسط قیمت آپ شاید جانتی نہ ہوں،تقریباً 37اور چالیس ہزارآر ایم بی(چینی کرنسی)فی مربع میٹرہوتی ہے ۔اب آپ خود ہی ایک مرد کی مشکلات کا اندازہ لگا لیں۔‘‘’’ارے بھئی، نسرین اور شبنم یہ سارے گھر سے گھر تک کے مناظر تو میرے جانے پہچانے ہی ہیں۔ اب ذرا بیاہ کا احوال بھی سُنا دو۔‘‘
ہم نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’چِین میں ’’سوِل افیئرز بیورو‘‘ سے شادی کا قانونی نکاح نامہ حاصل کرنابہت اہم ہے۔یہ سُرخ رنگ کے بروشر ٹائپ کاغذات ہوتے ہیں اور ہاں، رجسٹریشن کے بعد ہی شادی کی اگلی تقاریب کا انعقاد ہوسکتا ہے۔ شادی کا جوڑا بالعموم سُرخ رنگ کا ہوتا ہے۔ویسے آج کل مغرب کی نقالی میں سفید کا رواج بھی عام ہوگیا ہے۔تاہم، روایتی پسندیدگی سُرخ رنگ کے حق میں جاتی ہے کہ چینی اِسے خیر و برکت کا رنگ سمجھتے ہیں۔ شادی کے کارڈز، دلہن کے تحائف ، عروسی کمرے کی زیبائشی چیزوں، مثلاً کُشن کورز، دیواروں پر سجی تصاویر میں ڈریگن اور فونکس کینڈل کا ہونا لازمی ہے۔ شادی ہال میں پہلے زمین اور جنّت کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے، پھر دولھا کے والدین کو کہ انہوں نے بیٹا جنا اور اس کی پرورش کی اور آخر میں دولھا، دلہن ایک دوسرے کو تعظیم پیش کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ کے لیے ایک محبت بھرا رشتہ قائم کرنے جارہے ہیں۔‘‘ نسرین نے اپنی بات مکمل کی۔
قریباً ڈھائی گھنٹے کی اِس نشست میں گرچہ لطف تو آیا، مگر اس پائے کا ہرگز نہیں کہ جہاں حیرتوں کا جہاں وا ہوتا۔ تھوڑی بہت ماڑی، موٹی جمع تفریق کے علاوہ سب کچھ تو اپنا اپنا ہی تھا۔ اتنا فرق تو اپنے شہروں کے سو، دو سو مِیل کے فاصلوں پر بھی ہوتا ہے۔ حُجلہ عروسی کی سجاوٹ،ماں کے گھر دوسرے تیسرے دن واپسی یا ہنی مون والا معاملہ بھی ملتا جُلتا ہی ہے۔ویسے ایک بات تو ماننی پڑے گی کہ پاک، چِین دوستی زندہ باد کہ شادی جیسے اہم معاملات تک میں ناقابلِ یقین ہم آہنگی ہے۔ (جاری ہے)