بھارتی حکمراں جماعت بی جے پی کے اعلیٰ عہدے داران کی جانب سے پیغمبر اسلام ﷺکی شان میں گستاخانہ بیانات نے مذہبی ہم آہنگی اور ہر مذہب کا احترام کرنے والوں کو شدید کرب و تکلیف کی کیفیت میں مبتلا کردیا ہے، سفارتی سطح پر بھارت کو مشرق وسطیٰ کے بہت قریب سمجھا جاتا ہے، تاہم آج پاکستان، سعودی عرب، یواے ای، عراق، ایران، ترکی، مصر، انڈونیشیا، قطر سمیت دیگر مسلمان اکثریتی ممالک بھارت سرکار کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، مڈل ایسٹ کے ممالک میں بھارتی تارکین وطن کے خلاف مقامی مہم اتنا زور پکڑ رہی ہےکہ میری معلومات کے مطابق وہاں مقیم کچھ بھارتی شہری اپنی شناخت چھپانے کیلئے اپنے آپ کو پاکستانی ظاہر کررہے ہیں،وہی متحدہ عرب امارات جہاں بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی کو اعلیٰ ایوارڈ سے نوازا گیا تھا او ر مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کےلئے ایک مندر بھی تعمیر کیا گیا تھا، عوام کی جانب سے اماراتی حکومت پر دباؤڈالا جا رہا ہے کہ بھارتی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے، اسی طرح سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک میں بسنے والے بھارتی تارکین وطن حکمراں بھارتی جماعت کی قابلِ مذمت پالیسیوں کی وجہ سے شدید تشویش اور تحفظات کا شکار ہیں، مسلمان ممالک میں تعینات بھارتی سفیر اور سفارتی عملہ عوامی تقریبات میں شرکت سے گریز کررہے ہیں ۔ بھارت کی موجودہ قیادت نے تعصب اور تنگدلی کے نفرت انگیز ایجنڈے کو پروان چڑھا کر نہ صرف سیکولر انڈیا کا لبادہ تار تار کردیا ہے بلکہ اقلیتی مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کولگام دینے میں بھی ناکام ثابت ہوئی ہے۔ پاکستان میں بسنے والی محب وطن ہندو برادری اللہ کے آخری نبی ﷺکورحمت العالمین مانتی ہے اور سمجھتی ہے کہ پیغمبر اسلام کی اعلیٰ تعلیمات تمام انسانوں کیلئے مشعل راہ ہیں۔اس وقت میرے ذہن میں کے سوامی سمیت ہندو دھرم کے ماننے والوں کے بہت سے ایسے نام آرہے ہیں جنہوں نے پیغمبر اسلام ﷺ سے اپنی بے پناہ عقیدت کا اظہار کیا، اردو زبان کی مشہور نعت ’’شاہِ مدینہ،یثرب کے والی، سارے نبی تیرے در کے سوالی‘‘آج بھی مقبولیت کے لحاظ سے نمبر ون ہے، یہ نعت ایک ہندو پرڈیوسرجے سی آنند کی طرف سے پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں نذرانہ عقیدت ہے، اسی طرح سیرت النبی کے موضوع پر ہندو مصنف سوامی لکشمن پرشادکی کتاب ’’عرب کا چاند" اردو ادب میں ایک شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔ ہندو دھرم دنیا کے دیگر تمام مذاہب کی طرح ایک امن پسند مذہب ہے اور برداشت ، رواداری اور تحمل کا درس دیتے ہوئے باقی تمام مذاہب کا احترام سکھاتاہے، ہندوُتوا کوئی مذہب یا مذہبی تعلیمات نہیں بلکہ برطانوی ہندوستان کے زمانے میں ہٹلر کے نازی جرمنی سے متاثرہوکر چند شدت پسندوں نے یہ نفرت انگیز تصور متعارف کرایا تھا، مذہب کی آڑ میں نفرتوں کا پرچار کرنے والے یہ مٹھی بھر عناصر دنیا کے ہر معاشرے میں موجود ہیں، تاہم بھارت میں سرکاری سرپرستی میں انتہا پسند عناصر ہندوُتوا کے فروغ میں اتنا آگے بڑھ چکے ہیں کہ بھارت کے اندر اور باہر بسنے والے ہند و خود بہت زیادہ خائف ہیں۔ دنیا کے امن پسند حلقے اس قسم کی شدت پسندی کے خلاف ایک ہیں تو پھر بھارت کی حکمراں جماعت کب تک مذہبی منافرت کو فروغ دیتی رہے گی ؟میرا اس حوالے سے بھارتی قیادت کو پیغام ہے کہ آپ اپنی شدت پسندانہ سوچ کومذہبی رنگ دے کر شدت پسند عناصر کی مدد سے قومی سطح پر نافذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ آپ کی سیاست کے ساتھ ساتھ انڈیا کی سیکولر ساکھ کو بھی لے ڈوبے گی، حالیہ واقعے نے دنیا بھر میں بھارت کے خلاف منفی ردعمل کو جنم دیا ہے، عالمی سطح پر بھارتی مصنوعات کا بائیکاٹ اور خلیجی ممالک سے بھارتی تارکین وطن کی بے دخلی آپ کی معیشت کو تباہ کر سکتی ہے۔میرےخیال میں دنیا کے تمام مذاہب قابل احترام ہیں اور مذہبی منافرت کو پروان چڑھانے والی ہر قسم کی بیان بازی کی روک تھام ضروری ہے، پیغمبر اسلام ﷺکی شان میں گستاخی نا قابل قبول ہے اورذمہ داران کو کڑی سزا دی جائے، تاہم کسی ایک فرد کی مذموم حرکت کو جواز بناتے ہوئے پوری کمیونٹی کو نشانہ نہ بنایا جائے۔ امید ہے مودی سرکار اپنے عہدے داران کی گستاخانہ گفتگو کے خلاف سخت ایکشن لے گی اور آئندہ کسی بھی اس قسم کے واقعات کو روک تھام کیلئے موثر پالیسی مرتب کرے گی ۔ موجودہ حالات کے تناظر میں عالمی برادری بالخصوص اقوام متحدہ کا فرض ہے کہ وہ مذہبی شدت پسندی کے رحجان کو روکنے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے،اس حوالے سے عالمی سطح پر ایسی پالیسیاں اور قوانین متعارف کرانے کی ضرورت ہے جن کے تحت اس طرح کی مذموم حرکت کرنے والے عناصر کو قانون کے شکنجے میں جکڑا جائے ا ور دوسروں کیلئے عبرت کی مثال بنایا جائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)