• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس نے کہا’’ میں تقدیرکے سامنے کٹھ پتلی نہیں بننا چاہتا بلکہ اس کی گردن دباناچاہتا ہوں ‘‘ ۔میں خاموش رہا ۔ اس نے کہا’’عظیم منصوبے بے صبری سے برباد ہو رہےہیں ‘‘ میں خاموش رہا۔ اس نے کہا’’اندھیرا بھی روشنی کی ایک قسم ہے لیکن اس کا سایہ مختلف ہے‘‘ ۔میں خاموش رہا ۔ اس نے کہا’’کوئی ازلی دشمن نہیں ہوتا صرف ابدی مفادات ہوتے ہیں ‘‘ میں خاموش رہامگر میں کتنی دیر تک خاموش رہوں گا۔کبھی مجھے کہنا پڑ جائے گا کہ بڑے دیکھے ہیں تقدیر کی گردن دبانے والے ۔صبر کیاچیز ہے تم کیا جانو۔ جسے تم صبر سمجھتے ہو یہ تو قاتلوں کی منطق ہے۔اندھیرا ہزار روپ بدل کر بھی روشنی نہیں بن سکتا۔

مفادات دھوکے کے سوا کچھ اور نہیں ۔ یہ خدا ہی جانتا ہے کہ کون سی بات کس کےلئے بہتر ہے ۔ اس نے پھر کہا۔تم خاموش کیوں ہو۔ایسے وقت میں خاموشی گناہ ہے؟اور پھر میں بول پڑا۔’’ ابھی تمہاری تلاش میں کسی شے کی کمی ہے؟ ‘‘۔وہ بضد تھا کہ ہر بات کھول دی جائے ۔ہر معاملہ چراغ کے سامنے رکھا جائے۔جو دیکھ سکتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے ۔ پھر میں نے کہا ’’ میں بہت بڑے ہال میں کھڑا تھا۔محی الدین ابن عربی تقریر کررہے تھے ۔ انہوں نے جعفر بن یحییٰ کے اندر داخل ہوتے ہی کہا ” جعفر بن یحییٰ اب جب میں تمہارے اس سوال کا جواب دینے کے قابل ہوں جوتم نے آج سے تیس سال پہلے مجھ سے پوچھا تھا تو تم نے کہا تھا :تمہیں میری ضرورت نہیں ہے۔ تیس سال پہلے جعفر تمہیں میری ضرورت نہیں تھی،کیا اب بھی تمہیں میری ضرورت نہیں ہے؟ جس سبز جبہ پوش نے تیس سال پہلے تمہاری تلاش میں کسی کمی کا تذکرہ کیا تھا وہ کمی وقت اور جگہ کے تعین کی تھی جعفر بن یحییٰ میرے پاس آکر کھڑے ہو گئے تھے۔ جب ابن عربی کی تقریر ختم ہوئی تومیں نے جعفرسے پوچھا کہ شیخ الاکبر آپ سے مخاطب تھے تو جعفر نے کہاآج سے تیس سال پہلے جب اپنے وقت کے سب سے بڑے شیخ کی تلاش میں اسپین سے مکہ پہنچا تھاتو وہاںایک سبز جبہ پوش اجنبی مجھے ملا تھا۔اس نے میرے کچھ کہنے سے پہلے کہا ” تم وقت کے جس سب سے بڑے شیخ کی تلاش میں مشرق میں آئے ہو وہ زمانے کا استاد تو مغرب میں موجود ہے اور تمہاری تلاش میں ابھی ایک کمی ہے جہاں سے آئے ہووہاں واپس چلے جائو۔ وہ وہیں ہے۔ حاتم طائی کے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے ۔العربی کا بیٹا ہے اور اس کا نام محی الدین ہے “ میں نے جبہ پوش کی بات سن کر واپسی کا سفر اختیار کرلیا ۔ قبیلہ بنوطےسے محی الدین کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور اسے ڈھونڈ تے ڈھونڈتے ایک درسگاہ میں پہنچا ۔وہاں موجود ایک شخص سے محی الدین کا پوچھا تو اس نے ایک طالب علم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”وہ محی الدین ہے۔ “ وہ طالب علم درسگاہ کے ایک کمرے سے عجلت میں نکل رہا تھا ۔ اس کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی۔ میں نے اس نوجوان کو حیرت سے دیکھا اور روک کر پوچھا ” اس زمانے کا سب سے بڑا استاد کون ہے؟ “ تو محی الدین نے کہا ” مجھے اس سوال کا جواب دینے کیلئے کچھ وقت چاہئے ” میں نے اس سے پوچھا ” تم ہی قبیلے طےکے العربی کے بیٹے محی الدین ہو؟ “ تو اس نے کہا ”ہاں میں ہی ہوں۔ “ میں نے اس وقت کہا تھاتو پھرمجھے تمہاری ضرورت نہیں ہے ۔ اِس وقت انہوں نے میری اس بات کا جواب دیا ہے۔یقیناً اس وقت مجھے ان کی ضرورت ہے ‘‘۔

اس نے یہ واقعہ سنامگر اپنی بات پر بضد رہا ۔اس کے نزدیک اس کی تلاش میں وقت اور جگہ کی کمی نہیں ۔ وہ صحیح وقت پر صحیح جگہ پر کھڑا ہو کر صحیح بات کر رہا ہے ۔قدرت نے اس کےلئے روشنی کے گیت ہونٹوں پر سجا دئیے ہیں۔ دلوں میں خوشبو کے نغمے بکھیر دئیے ہیں ۔ میں نے اسے پھر کہا ۔ تمہیں ’’سجدہ شکر ‘‘ کی ضرورت ہے ۔اور انتظار کی ۔اس نے پھر کہا۔ انتظار۔

میں نے کہا ’’ انتظار تمہاری ضرورت ہے ۔تم دوہنر جانتے ہو مگر ان دونوں کی تکمیل کےلئے تیسرا ہنر ضروری ہوتا ہے۔ اسے انتظار کہتے ہیں ۔ گوتم بدھ نے اٹھارہ سال انتظار کیا تھا ۔ہر بڑے شخص کو انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ہاں میں جانتا ہوں کہ تم نے زندگی کو متلی کی حد تک چکھ کر دیکھ لیا ہے ۔ اب تمہارے پاس انتظار کےلئے وقت نہیں ۔مگر تمہیں انتظار کرنا ہے ۔اسی انتظار میں نامساعد حالات کے خلاف مسلسل جنگ جاری رہتی ۔تم نےصادقین کی وہ پینٹنگ دیکھی ہے جس میں ایک سربریدہ آدمی زمین پر لیٹا ہوا ہے اس کے ایک ہاتھ میں اپنا کٹا ہوا سر ہے جس پر پرندے نے گھونسلا بنا رکھا ہے اور انڈے دئیے ہوئے ہیں اور اس کے بازوئوں میں مکڑیوں نے جالے بُنے ہوئے ہیں تمہارے بازوئوں پر مکڑیوں کے جالے نہیں مگر سر میں کہیں کہیں موجود ہیں ۔ انہیں صاف کرنے کی ضرورت ہے اور انہیں انتظار ہی صاف کر سکتا ہے ۔روح کی خاموشیوں میں انتظار بھرے درد کا شور سن۔ اور انتظار جاری رکھ۔یہ چیختی، کرخت اور بے مفہوم آوازوں کا انبوہ تجھے انتظار سےنہیں روک سکتا۔ تُوایک کائناتی سچائی ہے ۔کڑوے کنوئوں میں شہد کی بوتلیں اُنڈیل اُنڈیل کر تھک مت ۔ان کے میٹھے ہونے کا انتظار جاری رکھ ۔ایک لاحاصلی کا حاصل بھی ہوتاہے۔مگر وہ صرف انتظار سے نکلتا ہے۔

اے میرے دوست ۔ انتظار، مسلسل انتظار کہ وقت خودتیری تلاش میں سرگرداں و حیراں پھر رہا ہے۔دردکے سناٹوں میں تیری طرح وہ بھی انتظار میں ہے ۔ تیرے انتظار میں ۔ سو انتظار جاری رکھ۔تیرےانتظار میں تیرے ساتھ تیرا زمانہ شریک ہے۔اپنے بے کراں انتظار کی وحدت کو محسوس کر ۔ اپنے ارد گرد پھیلتی ہوئی امیدوں کے درخت دیکھ وہ سب تیرے ساتھ انتظار میں ہیں ۔ انتظار جاری رکھ ۔

تازہ ترین