• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوریت میں سیاست جارحانہ انداز میں نہیں کی جاتی کیونکہ اگر کسی ایک پارٹی کی طرف سے سیاست جارحانہ انداز میں کی جائے تو پھر اس کی آخری حد انتہائی وحشت ناک ہوسکتی ہے، عین ممکن ہے کہ آخر میں خانہ جنگی ہوجائے ۔یہ بات اس وجہ سے کرنی پڑرہی ہے کہ اس وقت ہمارے ملک کا نقشہ اس نہج پر بدلتا ہوا نظر آرہا ہے‘ پاکستان میں ماضی میں بھی سیاسی جماعتوں کے درمیان یا حکومت اور مخالف سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی ہوتی رہی ہے مگر اس محاذ آرائی نے جارحانہ انداز اختیار نہیں کیا تھا‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک دوسرے کے خلاف جلسوں اور جلوسوں کا اہتمام کیا جاتا تھا مگر ان جلسوں جلوسوں کی ایک حد ہوتی تھی‘ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جب تحریک انصاف گزشتہ انتخابات میں اکثریتی پارٹی کے طور پر منتخب ہوئی اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ملک کے سربراہ بنے تو سب سے پہلے مخالفوں کے خلاف دشنام طرازی کی سیاست شروع کی گئی۔ ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا مگر انہوں نے اپنے مخالف سیاسی رہنمائو?ں کو چور اور ڈاکو کہہ کر ان سیاستدانوں کی علی الاعلان بے عزتی کرنا شروع کردی‘ پہلے تو وہ ملک کے اندر سیاسی بیانوں میں اپنے سیاسی مخالفوں کو ان گندے القاب سے نوازتے رہے مگر بعد میں جب بیرونی دوروں پر جانے لگے تو وہاں بھی اپنے ملک کے سیاسی مخالفوں کو چور اور ڈاکو کہہ کر ان کی مذمت کرتے تھے‘ مثال کے طور پر جب وہ سعودی عرب کے دورے پر گئے تو وہاں سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کے اجلاس میںان کا سارا زور اپنے ملک کے سیسی مخالفوں کو چور اور ڈاکو کہنے پر تھا‘ بعد میں وہ امریکہ کے دورے پر گئے تو وہاں بھی انہوں نے یہی کیا۔ کوئی کسی کو چور ڈاکو کیسے کہہ سکتا ہے جب تک عدلیہ کی طرف سے کسی پر کیس چلانے کے بعد کوئی سیاستدان چور اور ڈاکو ثابت نہ ہوجائے۔ اس کے بعد تحریکِ عدم اعتماد کے نتیجےمیں عمران خان اور ان کی پارٹی کو حکومت سے علیحدہ ہونا پڑا اور ملک کی تقریباً 11 پارٹیوں کی وفاقی حکومت قائم ہوئی‘ اس کے بعد نہ فقط ان کی جارحیت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا بلکہ اسکا دائرہ مختلف قومی اداروں تک بھی وسیع ہوگیا۔ پاکستان کے عوام نے یہ نظارہ پنجاب حکومت کے خلاف پیش کی گئی عدم اعتماد کی تحریک پر پنجاب اسمبلی میں بغور دیکھا یہاں باہر سے غنڈوں کو بلوایا گیا جنہوں نے مخالف ایم پی ایز سے ہاتھا پائی کی اور سر عام ڈپٹی اسپیکر کو بالوں سے پکڑ کر ان کی مار کٹائی بھی کی ‘ بعد میں پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں بھی یہی کچھ کرنے پر تلی ہوئی تھی مگر قومی اسمبلی کے اسپیکر

اور ڈپٹی اسپیکر جن کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا وہ اسمبلی کا اجلاس ہی کرنے نہیں دے رہے تھے‘ آخر کار صورتحال کو سنبھالنے کے لئے سپریم کورٹ کو آگے آنا پڑا اور سپریم کورٹ کے احکامات پر اجلاس رات کو 12 بجے بلایا گیا جس میں نئے وزیر اعظم کا انتخاب ہوا اور شہباز شریف ملک کے نئے وزیر اعظم منتخب ہوئے‘ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو عمران خان نے بے حد ناپسند کیا اور عدلیہ مخالف بیانات دئیے،انہوں نے ایک نئی حکمت عملی تیار کی کہ وہ 25 مئی کو کے پی سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کی قیادت کریں گے جس میں 20 لاکھ مظاہرین شامل ہوں گے۔ اس مرحلے پر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے سپریم کورٹ میں درخواست داخل کی کہ وہ 25 مئی کو لانگ مارچ کی قیادت کررہے ہیں اوران کی پارٹی اسلام آباد کے علاقے ایچ نائن کے پاس جلسہ کرنا چاہتی ہے‘ انہوں نے یقین دلایا کہ ان کا یہ لانگ مارچ اور جلسہ پرامن ہوگا لہٰذا انہیں اسلام آباد تک لانگ مارچ اور ایچ نائن کے نزدیک جلسہ کرنے کی اجازت دی جائے‘ سپریم کورٹ نے کہا کہ لانگ مارچ اور جلسہ پرامن ہوگا تو اس جگہ پر جلسہ کرسکتے ہیں‘ اس کے بعد عمران خان صاحب خود جاکر کے پی میں بیٹھ گئے او 20 لاکھ کے لانگ مارچ کی تیاری کرنے لگے‘ کے پی کا وزیر اعلیٰ اور حکومت مکمل طور پر ان کے ساتھ تھی۔ مگر بعد میں وہ جو جلوس لیکر اسلام آباد آئے تو ان کا مجمع چند ہزار مظاہرین تک محدود بتایا گیا تاہم، ساتھ ہی ان کی پارٹی کے رہنما?ئوں اور کارکنوں نے ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی جلوس نکالے اور مظاہرے کئے‘ اس کے نتیجے میں کچھ جگہوں پر اگر پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پولیس اور عام لوگوں پر تشدد کیا تو کچھ مقامات پر پی ٹی آئی کے کارکنوں پر بھی تشدد کیا گیا اور انہیںگرفتار بھی کیا گیا۔ بہرحال پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے اس مرحلے پر ڈی چوک میں جلسے کا اعلان کردیا جو کارکن ڈی چوک پہنچے ان کی کچھ جگہوں پر پولیس سے جھڑپیں بھی ہوئیں مگر پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ایک عجیب و غریب حرکت کی انہوں نے اس علاقے کے درختوں کو آگ لگا دی‘ یہ آگ ملک کے ٹی وی چینلوں پر دکھائی جارہی تھی۔ علاوہ ازیں یہ بھی کم دلچسپ بات نہیں ہے کہ اسلام آباد آتے ہوئے مختلف مقامات پر لوگوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کے کارکنوں کے پاس اسلحہ ہے‘ ساتھ ہی کے پی کے وزیر اعلیٰ نے دھمکی آمیز بیان بھی دیا۔اس کے علاوہ عمران خان نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کچھ انتہائی خطرناک باتیں کیں۔اب عمران خان پھر کے پی میں ہیں اور اسلام آباد کے لئے ایک اور بڑے لانگ مارچ کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ اس سلسلے میں کے پی کے وزیر اعلیٰ کا ایک بار پھر دھمکی آمیز بیان جاری ہوا ہے جس میں انہوں نے کہا ہےکہ اب ہم پوری تیاری کے ساتھ اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کریں گے،دیکھتے ہیں کون ہمیں روکتا ہے؟

تازہ ترین