• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کمال کر دیا ہمارے وزیر اعظم نے،ایک طرف معاشی حالات کو دیکھ کر شادی سے مارکیٹوں تک یہ پابندیاں اور دوسری طرف اپنے چار معاونین کو مقرر کر دیا جنکی اہمیت یہ ہے کہ انکا عہدہ وزیر کے برابر ہو گا ۔مصنوعی معیشت کو سنبھالنے کا ارادہ کیا اور کے پی میں چند منتخب شہروں میں کنٹرول ریٹ پر آٹے کی فراہمی کا بندوبست کیا،تو دوسری طرف فلور ملوں نے آٹا بنانے سے معذرت کر لی ۔سب جانتے ہیں معیشت میں چمتکار نہیں چلتا ہے۔ آپ نے دو روپے کی روٹی چلانی چاہی مگر تاجر آپ سے زیادہ تیز ہیں۔ انہوں نے یہ منصوبہ فیل کرا دیا۔ آپ نے پیلی ٹیکسی چلائی۔ یار لوگوں نے اپنے باپ کی گاڑیاں سمجھ کر ہضم کر لیا۔ اب نوجوانوں پہ مشتمل ٹاسک فورس بنانے کا وہی سلسلہ جو پچھلی حکومت میں نوجوان اسکیم چلائی گئی ۔ دفاتر قائم ہوئے اور راتوں رات بند ہو گئے۔

اب نئے بجٹ میں لیپ ٹاپ دینے کا وعدہ ذرا ٹھہر جایئے۔ پہلے ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جا سکے۔ ابھی تو سندھ کے دیہات میں بچیوں کے پرائمری اسکولوں تک کا فقدان ہے۔ صرف تعلیم بالغاں کے لڑکیوں کے اسکول چل رہے ہیں۔ فنڈنگ ہوئی تو وہ آگے چلیں گے ورنہ وہ بھی بہت حیرت کی بات ہے کہ وزارت تعلیم کو گزشتہ سال میں جتنے فنڈز ملے تھے وہ بھی استعمال نہیں کئے جا سکے۔

75سال پہلے ان دیہات کی حالت جیسے سیالکوٹ میں تقسیم سے پہلے لڑکیوں کی تعلیم سب سے زیادہ تھی۔ اب بھی اگر سیالکوٹ کے ارد گرد کی تحصیلوں میں ترقی اور بہتری دیکھی جاتی ہے۔ اس میں سرکار کا کوئی ہاتھ نہیں۔ وہاں کے لوگوں نے فیکٹریوں میں بھی عورتوں کو ملازم رکھا ہوا ہے۔ا نہیں خود اپنے علاقے کی ترقی مقصود تھی اور اب تو وہ لوگ ائر لائن چلا رہے ہیں۔ کہنے کو تو فیصل آباد کبھی پاکستان کا مانچسٹر تھا،اب بھی ٹائون ہائوسنگ سوسائٹیز پھیل رہی ہیں مگر نہ انہوں نے ائرپورٹ بنایا اور ابھی تک ائیر لائن بھی نہیں بنائی ہے۔ کچھ لوگ اس موجودہ تضاد کو دیکھ کر اور نئے بجٹ میں ظاہر اور مصنوعی ترقی کے منصوبے دیکھ کر اور پھر خود وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے منہ سے نکلے فقروں کا مطلب سمجھتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں چین کا انداز معیشت اپنانا ہو گا ۔کھل کے یہ نہیں کہہ رہے کہ معیشت کو سوشلسٹ لائنوں پر استوار کرنا ہو گا۔ اب جبکہ روسی سفارت خانے نے بھی کہہ دیا کہ ہم سے مانگو تو ہم تیل، گندم، گیس، دینے کو تیار ہیں اور اسٹیل مل کو بھی ہمیں واپس دے دو ہم چلا کر دکھائیں گے۔ ہمارے ہاں جواب میں ڈالر کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے۔ 70سال میں امریکی غلامی میں کیا ملا۔ افغان مہاجرین اور دہشت گرد، اسکے باوجود ہمارے ریٹائرڈ جرنیل 192کے قریب تو کینیڈا ہی میں جا کر آباد ہو گئے ہیں۔ باقی جتنوں نے جزیرے خریدے ہیں وہ بھی سب جانتے ہیں۔ البتہ سوشلسٹ معیشت میں ہیلی کاپٹرز ٹانگے کی طرح استعمال نہیں کئے جاتے۔دو کمروں کے گھر چاہے جاپان جائو جنوبی کوریا یا چین، لوگ گھروں پر نہیں ریسٹورنٹ میں کھانے پر بلاتے ہیں۔ اس وقت تو یورپ اور امریکہ کے ڈیزائنر پرانے سیزن کے کنٹینروں کو نیا کر کے استعمال کر رہے ہیں۔ جبکہ ہمارے ملک میں ململ کے سوٹ 12 ہزار سےکم نہیں۔ اس وقت تو موسم کی درشتی اور پانی کی کمی کھیتوں کو خاک میں بدل رہی ہے۔ چھوٹے چھوٹے ملک جیسے مالدیپ سمندر کے اوپر چڑھ جانے کے باعث ختم ہو رہا ہے۔ سائنسدان کراچی ،ممبئی اور کلکتہ کے بارے میں مخدوش صورتحال کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں جنگل بھی جلائے جا رہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ تکنیک اور فنی ادارے،بے شک ہر فیکٹری کے گودام کے برابر جگہ ملنے پر کھولے جائیں۔لڑکے لڑکیوں کو ماہانہ تنخواہ دیکر نہیں،وظیفہ دیکر تربیت دی جائے۔ ہماری بے توجہی کے باعث ،دبئی اور سعودی عرب تک سے بے قصور بہت مزدور نکالے جا رہے ہیں۔ انڈیا اور بنگلہ دیش کے لوگ متبادل کے طور پر رکھے جا رہے ہیں ۔فالتو اور بے ضرورت منصوبے جیسے 75سال آزادی کا جشن ؟کونسی آزادی ،کس سے آزادی، ترقی نہ ہو تو ملک صومالیہ بن جاتے ہیں۔

اس وقت پیوٹن خود کو سکندر اعظم سمجھ رہے ہیں اور یوکرین کی آبادیوں کو ویرانوں میں بدل رہے ہیں۔ باقی دنیا ،انڈیا کو بھی ہندوتوا کے گیروے رنگ میں ڈھلتا دیکھ کر چپ ہے۔ ہم پاکستانی پڑھے لکھے دانشور ،آگے آئیں، مت سوچیں کہ جو انتخابات لڑ کر آتے ہیں۔ہمیں ایسی جمہوریت نہیں چاہئے۔ جہاں منظر یہ ہو کہ ایک طرف پاکستان کے وزیر اعظم پیش ہو رہے ہوں،دوسری طرف پنجاب کے وزیر اعلیٰ۔بہت چور چور کھیل لیا۔ اب جبکہ کسان کو بھی کچھ نہیں مل رہا اور پڑھے لکھے ناقدری کا شکار ہیں۔ لیپ ٹاپ چلانا سکھائیں، مفت نہیں ۔تربیت یافتہ نوجوانوں کولیپ ٹاپ کے ذریعے روزی کمانا سکھائیں، یہ نوجوان 46فیصد ہیں۔

حالیہ بجٹ کو خوشگوار کہنے والے ،پنشنروں کی بھی فریاد سن لیں۔ آپ نے بھی بڑھتی عمر کا سہارا سیونگ میں بہبود کے نام سے شروع کیا تھا۔ میری طرح بڑی عمر کے لوگ اسکے ذریعہ اپنی ذرا سی پنشن میں ملا کر، ہفتہ گزارتے رہے ہیں۔اب اپنے بڑھاپے کا مذاق اڑانے کا سامان کر دیا ہے جبکہ عمران بار بار یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ یہ پینشنرز بوجھ ہیں مگر کیا کریں۔ آپ نےکہا چلو ایک ہاتھ سے ان سے لیتے اور دوسرے سے دے دیتے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب !آپ اور آپ کے بھائی کی عمر بھی چھائوں تلاش کرنے پہ پہنچ چکی ہے۔ یقین کیا کہ آپ نے کچھ بے جا نہیں کمایا۔ مگر بڑھاپا تو کمایا کچھ افسر بتا رہے تھے کہ آپ میں شدید کام کرنے کی دھن ہے مگر اب ساتھ نہیں دے رہی ہے۔

ہمارے آصف زرداری بڑی عقلمندی کی بات بتا رہے تھے کہ جب تک اس ملک کا کاشتکار خوش حال نہیں ہو گا۔ ملک خوشحال نہیں ہو گا۔ تو پھر جہاں کچھ انقلابی اقدامات کئے ہیں لگے ہاتھوں، اصلی زرعی اصلاحات بھی کر ہی ڈالیں۔آپ بھی تو بڑے زمیندار ہیں اور سب کے دلوں کا حال جانتے ہیں۔ یہ بھی جانتے ہیں کہ جس ملک میں بیج بھی درآمد کئے جائیں۔ دالیں اپنی نہ ہوں،بڑے سیاست دان ،ٹیکس دینے کی عادت سے عاری ہوں۔ غریب کاشت کار کرائے پر ٹریکٹر اور مہنگا ڈیزل لیکر دوسرے کی زمین میں بٹائی کا حصہ وصول کریں اور پھر ہر طرح کا مافیا بھی حکومت کرنے والوں میں شامل ہو تو منہ سے نکلے ہوئے الفاظ بے معنی ہو جاتے ہیں۔

اس وقت عالمی سطح پر خوراک کی کمی کے پیش نظر فوڈ بینک بنائے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر اور ماہرین نفسیات گوشت کے متبادل کم قیمت اجناس اور اشیاء خریدنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ہمارے میڈیا کو بھی دیسی کم قیمت اشیااستعمال کرنے کی ترغیب دینی پڑے گی۔ آپ نے عمران کی طرح کٹا پالو، مرغی کی پیداوار بڑھائو، کا نعرہ نئے بجٹ میں دیا ہے، کچھ کام کی باتیں بھی ہو جائیں۔

تازہ ترین