• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی طیارے کا تصور کریں جو انتہائی طوفانی موسم میں اتر رہا ہو۔ شہباز شریف کا تصور کریں جو شیطانی منصوبے کے مضمرات کو سنبھالنے کی کوشش میں ہولیکن ’’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں ‘‘۔ سسلین مافیاو ہمنوا کے نرغے میں گھرے اور سازش کے تاثر اور اثر سے نکلنے کیلئے ہاتھ پائوں مارتے ہوئے پاکستان کا تصور کریں۔ وہ سازش جس نے اس کا راستہ تبدیل کرکے رکھ دیا۔

ان ناقابل تصور امکانات کے دور میں کچھ لوگ ملک کو مزید تکلیف دہ گھائو لگانے کا تہیہ کئے بیٹھے ہیں ،کیا ان منصوبہ سازوں کیلئے بہتا ہوا خون دیکھنا ایک تفریح ہے ؟ کیا ان کے منہ کو خون لگ گیا ہے ؟ صاحبان اقتدار و اختیار کی انا کی تنگ رسی اس ملک کا گلا گھونٹ کر چھوڑے گی ؟ خاص طور پر وہ افراد جن کے بیانیے پر ریاست کی بقا کا دراومدار سمجھا جاتا ہے ۔ کیا اس پھندے سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں بچا؟ کیا اس آکٹوپس کی زہریلی اورخطرناک گرفت ہر آن گہری اور تکلیف دہ ہوتی جارہی ہے ؟کیا تازہ ہوا کے کسی جھونکے کا کوئی گزر نہیں ؟ کیا زخموں کیلئے مرہم بننے والا گیت ہنوز خاموش ہے ؟ ایسا لگتا ہے کہ ہر طرف چھائی ہوئی تاریکی کی دبیز تہہ نے مسیحائی کے تمام راستے مسدود کردیے ہیں۔ وہ راستے جنھیں بحال اور کھلا رکھا جانا چاہئے تھا۔

سازش پر اتنا ابہام کیوں؟ اسے تواتر سے جھٹکنے کی کوشش کیوں کی جارہی ہے ؟ ابہام تو کوئی نہیں، لیکن چلیں وضاحت کی خاطر قدم بڑھاتے ہیں ۔ مراسلہ موصول ہونے کے بعد اس پر بحث کرنے کے لئے این ایس سی کا خصوصی اجلاس بلایا گیاجس میں اعلیٰ سول اور فوجی حکام نے شرکت کی ۔ اجلاس کے بعد جاری ہونے والا بیان اس طرح تھا :’’کمیٹی اس ابلاغ ( مراسلے) پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے غیر ملکی افسر ( ڈونلڈ لو) کی استعمال کی گئی زبان کو غیر سفارتی قرار دیتی ہے ۔ کمیٹی نتیجہ نکالتی ہے کہ یہ پیغام اس ملک ( امریکہ) کی طرف سے پاکستان کے داخلی معاملات میں کھلی مداخلت کے مترادف ہے جو کہ کسی بھی حالت میں قابل قبول نہیں ۔ ‘‘بیان میں مزید کہا گیا کہ ’’کمیٹی ( این ایس سی) نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان مذکورہ ملک کو سفارتی آداب اور طریق کار کے مطابق اسلام آباد اور اس ملک کے دارالحکومت میں سخت ’’ڈی مارش‘‘ کیا جائے گا۔یہ معاملہ یہیں ختم نہ ہوا۔ بائیس اپریل کو شہباز شریف کے بلائے گئے این ایس سی کے 38 ویں اجلاس میں مراسلے پر ایک مرتبہ پھر بات کی گئی ۔ اجلاس کے اختتام پر جاری کردہ بیان کے مطابق :’’پیغام ( مراسلے) کے مواد کا جائزہ لیتے ہوئے ایس ایس سی گزشتہ این ایس سی اجلاس میں کئےگئے فیصلوں کی تصدیق کرتی ہے ۔ ‘‘لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ اس نے کہہ دیا کہ کوئی سازش نہیں ہوئی ۔

جب این ایس سی کے 38ویں اجلاس نے 37ویں اجلاس کے فیصلوں کی تصدیق کی ، گویا تسلیم کیا کہ ’’ یہ پیغام اس ملک ( امریکہ ) کی طرف سے پاکستان کے داخلی معاملات میں کھلی مداخلت کے مترادف ہے جو کہ کسی بھی حالت میں قابل قبول نہیں ۔ ‘‘تو گویا اس نے امریکہ کو ڈی مارش کرنے کے فیصلے کی بھی حمایت کی تھی۔ اگر کوئی سازش نہیں ہوئی تو پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کسے کہا تھا؟ اور متعلقہ ملک کو سخت لہجے میں ’’ڈی مارش ‘‘ کرنے کا جواز کیا تھا؟ اس سب کی کیا ضرورت تھی؟ کیا این ایس سی کی دو میٹنگیں نتائج اخذ کرنے اور پھر ان کی تصدیق کرنے میں غلطی کا ارتکاب کرگئیں؟ یاکیا اب ہم اس اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا این ایس سی کے اجلاسوں میں مناسب نوٹس لیا گیا تھا؟نیز ، جب یہ کہا گیا کہ مداخلت ہوئی تھی (این ایس سی کے دونوں اجلاسوں میں اس کا اعتراف کیا گیا تھا) تو پھر یہ کیوں کہا کہ کوئی سازش نہیں ہوئی ؟ میں یہاں ایک سادہ سا سوال اٹھاتا ہوں:مداخلت کیسے ہوتی ہے؟ کیا اس سے پہلے کچھ بحث، کچھ منصوبہ بندی، کوئی حکمت عملی وضع نہیں کی جاتی اور کیاطے شدہ منصوبے کے مطابق آگے بڑھنے کیلئے نقطے نہیں ملائے جاتے ؟ یا پھر مداخلت کوئی بلائے ناگہانی ہوتی ہے؟ اچانک آسمان ٹوٹ پڑتا ہے اور پھرذمہ داردکھائی دینے والے ملک کو ڈی مارش کردیا جاتا ہے؟

آئیے معاملے کو صحیح تناظر میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ہمیشہ سازش ہوتی ہے جو پہلے رچائی جاتی ہے جو کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا باعث بنتی ہے، یا کسی دوسرے مقصد کے حصول کیلئے ہوتی ہے جس کا ابتدائی منصوبہ بندی کے حصے کے طور پر تصور کیا جاتا ہے۔ بغیر کسی منصوبے یا سازش کے کوئی مداخلت نہیں ہو سکتی۔ اس صورت میں ’’پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟‘‘ اب لڑائی کس بات کی ؟ اگر سازش کی اصطلاح استعمال کرنے سے کسی کی انا کو چرکا لگتا ہے، یا کسی کے پر جلتے ہیں تو چلیں ملک کے داخلی معاملات میں کھلی مداخلت ہی مان لیتے ہیں ۔ کیا یہ کم قابل مذمت ہے ؟ محض لفظ ’’سازش‘‘ کو حذف کردینے سے صورت حال کی سنگینی کسی طور کم نہیں ہوتی۔ این ایسی سی کے دو کامیاب اجلاسوں کے ذریعے پاکستان کے اندرونی معاملات میں ’’صاف مداخلت‘‘ کے طور پر تسلیم کیا گیا۔

ہم ایک ایسے رومان کے پیچھے سرگرداں ہیں جو اگر کبھی تھا ، توبھی کب کا مر چکا۔ اب تو اس کی تعفن زدہ لاش قوم کے مرض میں اضافہ کررہی ہے ۔ ماضی سے سیکھیں اور غلطیاں دہرانے سے گریز کریں ۔ کوئی بھی ریاست مضبوط، قابل اعتماد اور جوابدہ اداروں کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر ادارے آئینی طے شدہ حدود کی خلاف ورزی کرنا شروع کر دیں، تو ریاست کمزور ہو کر ڈگمگانے لگے گی۔ اس وقت پاکستان کو ایسی ہی صورت حال کاسامنا ہے۔ معاملات درست ہونے کے تمام دعوے جھوٹے اور من گھڑت ہیں۔ اس کا آئین بستر مرگ پر ہے، اس کی جمہوریت جاں بہ لب ہے۔ ریاست کو فوری اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہم تلخ حقائق کا سامنا کرنے کے بجائے ایک بار پھر من گھڑت بیانیے کی حمایت کر رہے ہیں۔ ماضی میں بھی ہم ناکام ہوئے، اس بار بھی نتائج مختلف ہونے کا امکان نہیں ۔ رفتہ رفتہ ریاست کی ٹوٹ پھوٹ کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں۔ ہیجان خیز صورت حال ذہنی خلجان کا باعث بن رہی ہے۔

تازہ ترین