• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

پرانی انارکلی میں جین مندر ( جسےگرا دیا گیا تھا،اور پھر سے بنایا جا رہا ہے ) اس کے قریب سر گنگا رام کی تاریخی ذاتی کوٹھی ہے( جو انہوں نے اس وقت کے گورنر کے کہنے پر کامرس کی تعلیم کے لئے وقف کر دی تھی اور آج بھی بہت حد تک اصل حالت میں موجود ہے)۔جسٹس شادی لال کی کوٹھی بھی (جہاں اب لڑکیوں کا وکیشنل تعلیم کا ادارہ ہے)،یونیورسٹی کا گراؤنڈ اور آگے چوبرجی تک کا سارا علاقہ کبھی بہت کھلا اورسر سبزو شاداب تھا۔ جہاں کبھی تاریخی اسکول مدرستہ البنات اور کلیۃ البنات کی قدیم عمارتیں بھی ہوا کرتی تھیں۔ اس پر پھر بات کریں گے۔

پرانی انارکلی تھانہ دراصل ملکہ نور جہاں کے والد مرزا غیاث الدین کامحل تھا اور موجودہ آئی جی آفس شہنشاہ جہانگیر کی رہائش گاہ تھی، شہنشاہ جہانگیر جب نور جہاں سے ملنے جایا کرتا تھا تو اس آئی جی آفس کی اونچی راہداری میں ہاتھی پر سوار ہوکر جاتا تھا۔ کسے پتہ تھا کہ شہنشاہ جہانگیر کی رہائش گاہ کے قریب ہی اس کی محبوبہ انارکلی کا مقبرہ بنے گا اورکسے پتہ تھا کہ یہاں آئی جی کا دفتر بن جائے گا؟ پرانی انارکلی کے تھانے میں کبھی انگریز اپنے گھوڑے باندھا کرتے تھے۔پولیس میں گھوڑا الائونس آج بھی ملتا ہے یہ پاکستان یاشاید برصغیر کا قدیم ترین اور غالباً پہلا تھانہ ہے جو 1860 میں قائم ہوا اور اس تھانے میں پہلی ایف آئی آر فارسی زبان میں لکھی گئی تھی جو آج بھی موجود ہے ،یہ ایف آئی آر 1860 میں درج کی گئی تھی۔ پرانی انارکلی اور نئی انارکلی میں آج بھی کئی ایسے مکانات ہیں جن کی عمریں سو برس سے زیادہ ہیں اور ان کے لکڑی کے چبوترے اور بالکونیاں آج بھی موجود ہیں۔ کبھی یہاں گوروں کی چھاؤنی بھی تھی۔ نئی انارکلی میں کبھی گانے والیوں اور شاہی محلہ یعنی ریڈلائٹ ایریا بھی ہوا کرتاتھا۔

ذکر تو ہم نے مقبرہ انارکلی سے شروع کیا تھا اور پہنچ گئے پرانی اور نئی انارکلی کی طرف ۔آتے ہیں دوبارہ مقبرہ انارکلی کی طرف ،مقبرہ انارکلی میں لاہور کا پہلا چرچ اور پہلی صلیب تھی۔اس پہلے کلیساکا نام سینٹ جمیس چرچ تھا۔ ویسے تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لاہور کا پہلا چرچ ٹیلی گراف کی قدیم عمارت میں قائم کیا گیا تھا۔ ٹیلی گراف کی یہ قدیم عمارت آج بھی موجود ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنرل الارڈکی بیٹی میری شارلوٹ کی وفات کے بعد مقبرہ انارکلی پر چراغ بھی جلائے جاتے تھے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انار کلی کی باقیات کو دفتر الارڈصاحب (سیکریٹریٹ) کے کسی باغ میں دفن کردیا گیا تھا۔ خیر اس بات میں ہمیں کوئی حقیقت نظر نہیں آتی کیونکہ انارکلی کی قبر کا کتبہ انگریزوں اور سکھوں نے ایک دو مرتبہ وہاں سے اٹھویا ضرور مگر پھر دربارہ مقبرےکے اندر رکھ دیا۔البتہ سکھوں نے اس تاریخی مقبرے کو بہت نقصان پہنچایا ۔یہاں سے قیمتی پتھر اکھاڑ لئے گئے۔لاہور میں کسی مقبرے کے اندر اتنا بڑا دفتر نہیں یہ پورا مقبرہ تاریخی کتابوں قدیم اسلحہ،خوبصورت پینٹنگز اور نوادرات سے بھرا ہوا ہے۔ اور پھر اس میں محکمہ آثار قدیمہ کا عملہ بھی پوری تندہی سے اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ایک طرف انار کلی کی قبر اور دوسری طرف دفتر جہاں پر سیدہ شمیم جعفری( ڈپٹی ڈائریکٹر) بغیر کسی خوف و خطر کے اپنے فرائض ادا کر رہی ہیں۔اب کوئی رات کو مقبرے میں ڈیوٹی کرئے تو پتہ چلے۔

مہاراجہ رنجیت سنگھ نے جب شہزادہ کھڑک سنگھ کو ولی عہد بنایا تو انارکلی کے مقبرے کے ساتھ باغ میں بہت بڑا جشن کئی روز تک جاری رہا۔ کبھی یہاں بہت وسیع باغ تھا بلکہ ایک تاریخی درخت بھی تھا جس پر لکھا ہوا تھا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ یہاں آکر بیٹھا کرتے تھے۔ ہم نے یہ تاریخی درخت 1985 تک تو ضرور دیکھا ہے، اس کے بعد اس کا کچھ پتہ نہ چلا۔ جس طرح لاہور کے بوڑھ والا چوک کا تاریخی درخت 1990 کے بعد غائب کر دیا گیا۔

آج بھی لاہور ریلوے اسٹیشن کے قریب بوڑھ والا چوک مشہور ہے مگر درخت کا کہیں نام و نشان نہیں۔ لاہور کے مال روڈ پر ایچیسن کالج، کوئین میری کالج یونیورسٹی آف ویٹرنری سائنسز اور سندس داس پارک ( پریڈ گراونڈ) جسے اب زمان پارک بھی کہتے ہیں ،جس میں عمران خان اور ان کے کئی رشتہ داروں کے گھر ہیں واقع ہے۔ وہاں پر بے شمار ایسے درخت ہیں جن کی عمر سو برس سے زیادہ ہے۔پرانے سی آئی ڈی کے آفس ( رابڑنس کلب)میں 1872 کا درخت آج بھی ہے۔ جس پر اس کی تاریخ درج ہے اندرون لاہور میں بعض حویلیاں اور مزار ایسے بھی ہیں جہاں اتنے قدیم درخت ہیں کہ ان کی جڑیں اوپر سے دوبارہ زمین میں آ چکی ہیں۔

عزیز قارئین ، بات ہو رہی تھی مقبرہ انارکلی کی۔ انار کلی کا اصل نام نادرہ بیگم تھا کہتے ہیں کہ وہ بادشاہ کے محل کی سب سے خوبصورت کنیز تھی اور اس کےرقص کاانداز انتہائی منفرد اور شاندار تھا اکبر بادشاہ نے اس کے حسن اور رقص سے متاثر ہوکر اسے انار کلی کا خطاب دیا تھا۔

انار کلی کے مقبرے پر سنگ مرمر لگایا گیا تھا جسے سکھوں نے اکھاڑ لیا تھا۔ سکھوں نے لاہور میں اس مغل عہد کی عمارت سےنہ صرف سنگ مرمرکا قیمتی پتھر بلکہ نقاشی تک کےنمونےبھی اکھاڑ لیےتھے۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین