لاہور کی احتساب عدالت نے آشیانہ اور رمضان شوگر ملز ریفرنسز کی سماعت کے دوران وزیرِ اعظم میاں محمد شہباز شریف کی مستقل حاضری سے معافی کی درخواست منظور کر لی۔
لاہور کی احتساب عدالت نے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور دیگر کے خلاف آشیانہ اور رمضان شوگر ملز ریفرنسز کی سماعت کی۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے آشیانہ ریفرنس اور رمضان شوگر ملز کیس میں حاضری مکمل کرائی۔
نیب نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کی مستقل حاضری سے معافی کی درخواست کی مخالفت کر دی۔
نیب کے پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف کو مستقل حاضری سے معافی دینے کی ٹھوس وجوہات نہیں، ان کی جانب سے حاضری سے معافی کی درخواست میں میڈیکل سرٹیفکیٹ بھی نہیں دیا گیا۔
دورانِ سماعت عدالت میں وزیرِ اعظم شہباز شریف روسٹرم پر آگئے جہاں انہوں نے کچھ حقائق بیان کیے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت کے سامنے کچھ حقائق سامنے رکھنا چاہتا ہوں، میں نے کبھی بلا جواز حاضری سے معافی کی درخواست دائر نہیں کی، میں اس عدالت کے حکم پر فوری پیش ہوتا رہا ہوں، مجھے اللّٰہ تعالیٰ نے بڑی ذمے داری سے نوازا ہے، جب بھی عدالت نے طلب کیا اپنی پیشی یقینی بنائی۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ یہ میرا فرض بھی ہے اور ذمے داری بھی، اب میرے کندھوں پر بڑی بھاری قومی ذمے داری ہے، جس کی ادائیگی کے لیے حاضری سے مستقل استثنیٰ کی درخواست دی ہے، مجھے آئی ایم ایف کے وفد اور انٹرنیشنل وفود سے ملاقات بھی کرنی ہوتی ہے، مجھے قومی ذمے داریاں ادا کرنی ہیں، آپ میری حاضری سے معافی کی درخواست مسترد کریں گے تو پھر پیش ہو جاؤں گا، میں آپ کے حکم کا تابع ہوں۔
عدالت میں بیان دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بطور وزیرِ اعلیٰ پنجاب ہمیشہ عوامی فلاح و بہبود کو ترجیح دی، گنے کی قیمت مقرر کرتے وقت شوگر ملز کی بجائے کاشت کار کے مفادات کو مدِنظر رکھا، بیرونِ ملک تھا تو کورونا کے دنوں میں آخری فلائٹ پر وطن واپس آیا، اسی سال مجھے دوبارہ گرفتار کیا گیا، میں نیب کے عقوبت خانے میں رہا۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ مجھ پر 15 کروڑ روپے سے نالہ تعمیر کرانے کا الزام ہے، چنیوٹ میں نالے کی تعمیر مقامی رکنِ صوبائی اسمبلی کی درخواست پر کی گئی، اس نالے کی تعمیر کے لیے پنجاب کابینہ کی بھی منظوری لی گئی، ایسے کروڑوں روپے کے نالے میں نے پورے پنجاب میں بنوائے، ہمارے پاس ایک نہیں سینکڑوں درخواستیں آتی ہیں، کابینہ کی منظوری کے بغیر ہم کسی پروجیکٹ میں فنڈز نہیں لگاتے۔
اس موقع پر وزیرِ اعظم شہباز شریف نے فاضل جج کو ترقیاتی کاموں پر مبنی کتابچہ دے دیا اور کہا کہ میرے ترقیاتی کاموں کے حقائق آپ کے سامنے ہیں، مجھے 15 یا 18 کروڑ کی کرپشن کرنی ہوتی تو یہ کام نہ کرتا۔
نیب کے پراسیکیوٹر نے فاضل جج سے شکوہ کیا کہ جج صاحب! میرے پاس یہ کتابچہ نہیں ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے پراسیکیوٹر کو جواب دیا کہ بھائی! یہ آپ بھی لے لو اور پڑھ لو۔
شہباز شریف نے عدالت کے روبرو مزید کہا کہ 15-2014ء میں ایک صوبے نے گنے کی قیمتیں کم کر دیں، مجھے قیمتیں کم کرنے کا کہا گیا مگر میں نے گنے کی قیمتیں کم نہیں کیں، چیف سیکریٹری پنجاب نے سمری دی، اس سال چینی کی پیداوار بڑھی۔
فاضل جج نے شہباز شریف سے استفسار کیا کہ لگتا ہے کہ آپ نے یہ کتابچہ مجھ سے سارا آج ہی پڑھا لینا ہے؟
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے جواب دیا کہ ایسا نہیں میں صرف 2 منٹ میں دلائل مکمل کر رہا ہوں، گنے کے ایتھنول پر میں نے ٹیکس لگایا، میرے بیٹے کی شوگر مل بھی ہے جہاں ایتھنول پر ٹیکس عائد کیا، ہائی کورٹ کو بتایا کہ 2 ارب روپے سالانہ ٹیکس اکٹھا ہوتا ہے، ڈھائی ارب روپے کا اپنے بیٹے کی شوگر مل کو نقصان پہنچایا، میں نے خاندان کو ڈھائی ارب روپے کا نقصان پہنچایا، نیب نے 18 کروڑ روپے کا ریفرنس دائر کیا ہے۔
عدالت نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کو کمرۂ عدالت سے جانے کی اجازت دے دی۔
عدالت سے اجازت ملنے کے بعد وزیرِ اعظم شہباز شریف واپس روانہ ہو گئے۔