پاکستان کی چوتھی نسل جوان ہو رہی ہے، جو زیادہ عقل مند، باصلاحیت اور باشعور ہے اور یہ سب سوشل ،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی بدولت ہوا ہے ۔نوجوان نسل کو جمہوریت کے نام پر 75سال سے جاری سیاسی کھیل نے سخت مایوس کیا ہے۔ ہر نوجوان یہی سوال کرتاہے کہ ملک میں ’’بیلٹ بکس ‘‘کا تقدس کب بحال ہوگا؟ الیکشن کب شفاف، آزادانہ اور منصفانہ ہوں گے ؟ترقی یافتہ جمہوری ممالک نے بیلٹ کے تحفظ کو یقینی بنا کر بے پناہ ترقی کی ہے ۔ 1856ء میں آسٹریلیا1870ء میں نیوزی لینڈ ،1872ء میں برطانیہ،1884ء میں امریکہ اور 1913ء میں فرانس نے’’ بیلٹ‘‘ کی اہمیت کو سمجھ لیا اور اسے عوامی رائے کے اظہار کا طاقتور ذریعہ بنا لیا ۔ برصغیر پاک و ہندمیں برطانوی پارلیمنٹ کے پریشر پر ٹوٹی پھوٹی جمہوریت 1906ء میں شروع کی گئی ،اورلارڈ منٹو(جو اس وقت وائسرائے ہند تھے) اور لارڈ مورے( جو سیکرٹری آف اسٹیٹ برطانیہ برائے برصغیر تھے ) نے اس کی بنیاد ڈالی ۔پہلا الیکشن 1909ء میں کونسل آف انڈیا ایکٹ کے تحت ہوا جس میں زیادہ تر لوگ حکومت کی اپنی مرضی سے’’ سلیکٹ ‘‘ کئے گئے ۔1919ء میں قواعد میں ترمیم کی گئی اور طے پایا کہ ہر 3سال بعد الیکشن ہوگا ۔یہ سلسلہ 1934ء تک باقاعدگی سے چلتا رہا ۔اس وقت رائج انتخابی قواعد کے تحت صرف ان لوگوں کوووٹ کا حق دیا گیا تھا جوٹیکس گزار ، اعلیٰ تعلیم یافتہ،صاحب ِجائیداد اور صاحبِ حیثیت ہوں ۔ عام آدمی کو ووٹ دینے کی اجازت نہ تھی ۔ 1937ء میں جداگانہ طریقہ ء انتخابات اپنا یاگیا ووٹ کا حق خاص لوگوں کو ہی حاصل رہا ۔ 1946ء میں ہونے والے انتخابات کے بعدپاکستان وجود میں آیا ۔جب پاکستان میں جمہوریت آئی تو ہر حکومت نے اس کے ساتھ جو کھلواڑ کیا ،وہ ناقابل بیان حد تک افسوسناک ہے ۔1947سے 1970تک پاکستان میں قومی سطح پر کوئی الیکشن ’’ڈائریکٹ ‘‘ نہیں کروایا گیا۔صرف صوبائی اسمبلیوں کی سطح پر صوبہ پنجاب اور صوبہ سرحد میں 1951 ،سندھ میں 1953ء اور مشرقی پاکستان میں 1954ء میں الیکشن کرائے گئے ۔ 1970ء میں پہلا براہ راست الیکشن جنرل یحییٰ خان کی زیرنگرانی ہوا لیکن ان انتخابات کے نتیجے میں ملک دولخت ہو گیا ۔ اس کے بعد اور اس سے پہلے جتنے بھی انتخابات ہوئے سب غیر شفاف اور دھاندلی زدہ تھے ہارنے والوں نے ان کے نتائج کو قبول نہ کیا۔ گزشتہ 75سال میں حکمران بنیادی جمہوریت، اسلامی جمہوریت، عوامی جمہوریت،
شورائی جمہوریت ،کنٹرولڈ ڈیموکریسی اور حقیقی جمہوریت کے نام پر لوگوں کے جذبات سے کھیلتے رہے۔ 1970ء سے اب تک ملک میں گیارہ بار الیکشن ہو چکے ہیں ان تمام میں زیادہ تر ’’جھرلو‘‘ہی پھیرا جاتا رہا ۔ عوام آزادانہ اورغیر جانبدارانہ انتخابات کا مطالبہ کرتے رہے ۔لیکن جاگیر داروں ، ووڈیروں اور اشرافیہ نے ایسا نہ ہونے دیا۔ یہی طبقات ہر حکومت میں ’’کنگ میکرز‘‘کا کردار ادا کرتے رہے ۔ایک مخصوص سوچ رکھنے والے لوگوں کو اقتدار سونپا جاتا رہا ۔ برسراقتدار آنے والے ’’سلیکٹڈ‘‘ تھے تو کبھی ’’امپورٹڈ‘‘۔ مسند اقتدار پر بیٹھا شخص اپنی ساری مدت مخالفین کے نام نہاد احتساب میں گزار دیتا ہے اور ملک ترقی کی بجائے زوال پذیر ہوجاتا ہے ۔حصول اقتدار کیلئے مقتدر قوتوں کا آلہ کار بننے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی ۔کل تک غدار کہلانے والے اچانک محب وطن قرارپا تے ہیں اور محب وطن پر غدار کا لیبل لگا دیا جاتا ہے ۔ جس ملک میں ناخواندگی کی شرح 25فیصداوربے روزگاری کی شرح 70فیصدہو،70 فیصد آباد ی کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہ ہواور 95فیصد معاشی ابتری سے دوچار ہوں ،وہاں منصفانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات کیسے ہوسکتے ہیں؟ سابقہ حکومت نے’’ بائیو میٹرک الیکٹرانک ووٹنگ نظام ‘‘ کو اپنانے کی کوشش کی لیکن الیکشن کمیشن نے اسے فی الحال ناقابلِ عمل قرار دے دیاہے۔الیکشن کمیشن کے مطابق، الیکشن کیلئے مشینوں کی خریداری پر 30 ارب روپے کی لاگت آئے گی،جو خزانے پر بوجھ ہوگا اور عملے کو تربیت دینے کیلئے بھی کافی وقت درکار ہوگا۔دیکھا جائے تودنیا اس وقت ہر شعبے میں ڈیجیٹل سسٹم کواپنا رہی ہے ۔ عجب منطق ہے کہ جہاں شناختی کارڈ ،پاسپورٹ ، بنک اکاؤنٹ، کریڈیٹ کارڈز، زمینوں کی خرید و فروخت ،حتیٰ کہ ویکسی نیشن کے لیے بائیو میٹرک سسٹم کامیابی سے چل رہا ہے وہاں الیکشن کیلئے ڈیجیٹل سسٹم کو اپنا نا ممکن نہیں۔ہمیں ’’بیلٹ بکس ‘‘کو تحفظ دینا ہوگا ایسی اصلاحات کرنا ہوں گی جن سے الیکشن صاف ستھرے اور شفاف ہو سکیں۔ یاد رکھیں جو قومیں بیلٹ بکس کا تقدس پامال کرتی ہیں اور عوامی رائے کااحترام نہیں کرتیں وہ صرف تاریخ کی کتابوں میں ہی زندہ رہتی ہیں۔