• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مہنگائی پر مہنگائی اور قرضوں پر قرضہ، یہ ہم پاکستانیوں کا مقدر ہےیا حکمرانوں کے غلط اور وقتی فیصلوں کا کڑوا پھل، جس کو کھانے پر یہ قوم مجبور ہے۔ اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضے لینے کاسلسلہ بہت پرانا ہے اور ہر حکمران یہ سمجھتا ہے کہ آئی ایم ایف وہ آکسیجن سلنڈر ہے جس کے ذریعے مصنوعی تنفس پر اس قوم کو وقتی طورپر زندہ رکھا جا سکتا ہے۔75سال گزر گئے لیکن اس عرصہ میں سوائے چند ایک سال کے عوام نے کبھی سکھ کا سانس نہیں لیا۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کا ایسا کوئی قوم دوست بندہ حکمران نہیں آیا جو اس بدنصیب قوم کو بیرونی و اندرونی قرضوں سے نجات دلائے اور مہنگائی پر قابو پا کر اس ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکے۔ جو بھی حکمران برسرِاقتدار آیا، اس نے اپنے اقدامات کے ذریعے سابقہ حکمرانوں کو بخشوایا۔ اور عوام یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اس سے توبہتر سابق حکمران ہی تھے۔ حکمرانوں نے دال روٹی کے ایسے چکر میں پھنسا کے رکھا کہ قوم کو یہ سوچنے کی مہلت ہی نہیں ملی کہ حکمران ان کے ٹائیفائیڈ کا علاج سردرد کی گولی سے کرتے ہیں جس کے نتیجے میں سیاست اور اقتدار پر ہمیشہ مالدار اور سرمایہ دار طبقہ قابض ہو جاتا ہے جو کروڑوں لگا کر اربوں اور اربوں لگا کر کھربوںروپے بنانے کے لیے آتے ہیں۔ سیاست اور اقتدار ملک و قوم کی خدمت اور ترقی و خوشحالی کے لیے نہیں بلکہ ان دونوں ناموں اور عہدوں کو تجارت کی نیت سے استعمال کرنے کے لیے حاصل کرتے ہیں۔

دراصل یہ لوگ اس نظام کی کمزوری اور ناکامی سے فائدہ اٹھا کر ٹھیکیداری کرتے ہیں۔ یہ لوگ ٹھیکہ تو پانچ سال کا لیتے ہیں۔لیکن کبھی کبھی اس ٹھیکے میں گھپلے کرنے اور کبھی نااہلی کی وجہ سے ان کا ٹھیکہ مدت مقررہ سے پہلے ہی منسوخ کر دیا جاتا ہے۔ لیکن آج تک کسی حکمران نے ان باتوں کا اعتراف نہیں کیا ۔ پھر یہ بھی دیکھا اور سنا گیا کہ اقتدار سے بے دخل ہونے والا کہتا رہا کہ مجھے کیوں نکالا۔اور یہ نیا نعرہ تو ابھی چل رہا ہے کہ میرےخلاف بیرونی طاقتوں نے سازش کی۔ یہ سب اس ملک اور قوم کے ساتھ ظلم اور مذاق کے علاوہ کیا ہے؟میں نے مندرجہ بالا جملوں میں نظام کی کمزوری اور ناکامی کا ذکر کیا ہے۔ اس بارے میں تھوڑی وضاحت پیش خدمت ہے۔ جمہوریت اور جمہوری نظام جو کہ ناکام ہو چکا ہے،اس قوم کو بے وقوف و محکوم بنانے کا نعرہ ہی نہیںبلکہ یہ وہ خوش شکل جال ہے جس کے ذریعے پوری قوم کو اس جال میں پھنسانے کے لیے استعمال کیا جا رہاہے۔ اس نظام کی خوبیاں ایسے بیان کی جاتی ہیں جیسے کہ بس اس بار اس نظام کی بدولت برسر اقتدار آ کر اس ملک کو مثلِ جنت بنا دیا جائے گا۔ عوام کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں رہے گا جس کو حل نہیں کیا جائے گا۔ لیکن ہمیشہ نتیجہ اس کے برعکس نکلتا ہے۔ اس ملک میں ایسے علاقے آج بھی موجود ہیں جہاں انسان اور جانور ایک ہی جوہڑ سے پانی پینے پر مجبور ہیں۔ آج بھی غریب کا بچہ تعلیم تو کیا جوتوں سے بھی محروم ہے۔ آج بھی ہسپتالوں میں علاج کی عدم دستیابی سے وفات پانے والوں کو سرکاری ایمبولینس نہ ملنے کی وجہ سے میت کو گدھا گاڑ ی پر رکھ کر گھر لے جایا جاتا ہے۔ آج بھی عام پاکستانی حصولِ انصاف کیلئے عدالتوں اور کچہریوں میں ٹھوکریں کھاتا ہے جبکہ امیروں، سیاست دانوں اور حکمرانوں کے مقدمات قابلِ ترجیح ہیں۔ یعنی آج بھی وہی جنگل والا قانون جس کی لاٹھی اس کی بھینس چل رہا ہے۔ آج بھی سرکاری اسکول اساتذہ، فرنیچر، پینے کے پانی اور واش روم سے محروم ہیں بلکہ اکثر تو مویشیوں کے باڑے بنا دیئے گئے ہیں۔کئی سرکاری اسکول تو چار دیواری سے آزاد ہیں۔ سفارشی اساتذہ کی بھرتیوں کی وجہ سے تعلیمی نظام انتہائی ناقص ہے۔ غریب ہی اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کراتے ہیں۔ امیر تو اس کو ہتک سمجھتے ہیں۔ ان مسائل پر توجہ اس لئے نہیں دی جاتی کہ انوسٹرز اور دیہاڑیاں لگانےوالے یہ سمجھتے ہیں کہ پتہ نہیں یہ ٹھیکہ اپنی مدت تک پہنچتا بھی ہے یا نہیں اور اگر پہنچ بھی جائے تو پانچ سال ملک و قوم کے حالات سدھارنے پر کیوں ضائع کئے جائیں۔ اپنے اور اپنے عزیزوں ،قریبی ساتھیوں کے حالات سدھارنے کو ترجیح دینا عقلمندی ہے۔ پھر جب الیکشن آتے ہیں تو یہ عوام بھی پھر گرمی ہو یا سردی قطاروں میں کھڑے ہو کر اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کے لیے تیار ہوتے ہیں جس کے سبب بیمار تو کیا ہونا بیماری میں مزید اضافہ ہوا ہوتا ہے۔ اور اقتدار کے خواہشمند اس بات کو جانتے ہوئے نئے بیانیے کے ساتھ ان کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔حکمران جو بھی ہو آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط کی پروا نہیں کرتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ نہ تو ان پر ان شرائط اور مہنگائی کا کوئی اثر پڑتا ہے نہ انہوں نے یہ قرضے واپس کرنے ہیں، یہ تو عوام جانیں۔ اس لئے تو آئی ایم ایف ہو یا کسی بیرونی ملک اور ادارے سے قرضہ لینا ہو، ملنے کی صورت میں نہایت ڈھٹائی کے ساتھ قوم کو ’’خوشخبری ‘‘ سناتے اور اس کو اپنی فتح سمجھتے ہوئےبڑی کامیابی گردانتے ہیں۔ٹیکس اور سپر ٹیکس ہو یا کوئی بھی ٹیکس ہو اس کی ادائیگی نہ تو کوئی کارخانے دار کرتا ہے نہ بڑے چھوٹے تاجر کرتے ہیں۔ یہ ہر صورت عام آدمی نے ہی مہنگائی کی صورت میں ادا کرنا ہوتا ہے۔جب تک زراعت پر اور ڈیزل میں خصوصی رعایت نہیں دی جائے گی۔ منڈیوں سے آڑھتی اور مڈل مین کا کردار ختم نہیں کیا جائےگا۔ کسانوں کو آسان شرائط اور کم شرح منافع پر قرضے نہیں دیئے جائیں گے۔زرعی زمینوں پرہائوسنگ سوسائٹیز بنانا بند نہیں کیا جائے گا۔ زراعت کی ترقی سیاسی بیانات تک ہی محدود رہے گی اور ملک کی ترقی خواب رہے گی جبکہ بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کرنا بھی مشکل ہوگا۔

تازہ ترین