یہ بیٹھے بیٹھے مجھے کن دنوں کی یاد آئی۔ 1982 کا برس تھا اور دسمبر کا مہینہ۔ قومی تاریخ میں رائیگانی کے عہدِ سوم کو پانچواں سال گزر رہا تھا۔ خالق نے سورہ المزمل کی آیت 17 میں گمراہ دلوں کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا تھا، ’’تم اس دن سے کیسے بچو گے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا‘‘۔ بے شک یہ اس روز قیامت کی طرف اشارہ تھا جو’ ’لوح ازل میں لکھا ہے‘‘۔ ہم فانی لوگ مگر اپنی دھرتی اور اس پر بسنے والوں کے لئے آسودگی کے خواب میں تھے۔ ہمارا آسمان تنگ تھا اور ہمارا حاکم غاصب تھا۔ آپ کے نیاز مند کی عمر کم تھی مگر خواب میں شریک تھا۔ یہ بچپن کے بڑھاپے میں بدلنے کی مقامی کہانی تھی۔ اس دسمبر کی کچھ خبریں حافظے میں محفوظ ہیں۔ 9 دسمبر کو واشنگٹن میں خود ساختہ صدر پاکستان نے اپنی حکومت کو ’آئینی‘ قرار دیا۔ 16دسمبر کو وفاقی شرعی عدالت نے مردوں اور عورتوں کو کوڑے لگانے کے ضابطوں کا اعلان کیا۔ 21دسمبر کو حفیظ جالندھری انتقال کر گئے۔ اور اب ایک ذاتی بات۔ 22دسمبر کی رات ابا جی (دادا ابو) کسی کام سے بستر سے اٹھے مگر چکرا کر گر گئے۔ اٹھا کر بستر پر لٹایا گیا تو قطعی بے حس و حرکت تھے۔ رات زیادہ گزر چکی تھی۔ معالج تک رسائی ممکن نہیں تھی۔ صبح ایک ڈاکٹر صاحب بلائے گئے جنہوں نے خالص طبی لہجے میں بتایا کہ فالج کا شدید حملہ ہوا ہے۔ 89برس کی عمر میں صحت یابی کا امکان نہیں۔ تیمار داروں پر یہ خبر بذات خود بجلی کی طرح گری۔ سب سے بڑے صاحبزادے خود ساٹھ کی دہائی میں تھے مگر دن رات باپ کے پاس ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ آپ کا نیاز مند پیاروں کے دکھ کی تاب نہیں رکھتا۔ طب کا شعبہ بھی اسی کمزوری کے ہاتھوں ترک کیا تھا۔ ایم آر ڈی کی تازہ خبریں جاننے گھر سے نکل گیا۔ واپس لوٹا تو دن کا دوسرا پہر تھا۔ دسمبر کی 24 تاریخ تھی اور کراچی میں پاک بھارت ٹیسٹ میچ کا دوسرا دن تھا۔ ابا جی کی آنکھیں بدستور بند تھیں مگر سینے پر کتھئی رنگ کے چرمی کور میں لپٹا ننھا سا ٹرانسسٹر رکھا تھا۔ ابا جی بستر مرگ پر ظہیر عباس کی بیٹنگ سے محظوظ ہو رہے تھے۔ ظہیر عباس نے 34 رنز پر دن کا آغاز کیا اور 186 رنز بنا کر آئوٹ ہوئے۔ لب مرگ جد امجد کے نیم وا ہونٹوں پر یہ آخری خفیف سی مسکراہٹ تھی جو درویش کی آنکھوں میں محفوظ ہے۔ یکم جنوری 1983 کی پھیکی دوپہر میں ابا جی رخصت ہو گئے۔ اس دن کے بعد سے ظہیر عباس میرے لئے بلے بازی کے جادو گر سے زیادہ ایک نیک دل فرشتے کی صورت اختیار کر گئے جو واماندہ دلوں میں خوشی کے بیج بوتا تھا۔ کرکٹ میں بہت سے بلے باز آئے جن کے اعداد و شمار ظہیر عباس سے بڑھ گئے لیکن کلائیوں کی نپی تلی حرکت سے لیگ اسٹمپ کے باہر وہ گلانس (Glance) پھر دیکھنے میں نہیں آئی جو وکٹ کیپر اور لیگ سائیڈ کی فیلڈ کے بیچوں بیچ نرت کرتی بائونڈری پار کر جاتی تھی۔ ظہیر عباس اس ملک میں اشرافیہ کرکٹ کی آخری نسل تھے۔ پچھلے دنوں ظہیر عباس کی ناسازی طبع کی خبر نے بہت دل گرفتہ کیا۔ بارے خیر گزری۔ بتایا جا رہا ہے کہ اب روبہ صحت ہیں۔ خدا اس شخص کو تادیر ہمارے درمیان زندہ رکھے۔
اوپر کہیں اشرافیہ کا لفظ آیا ہے۔ اشرافیہ کا تعلق جاہ و منصب یا دولت سے نہیں۔ کردار، اقدار اور وضع داری سے ہے۔ مولوی عبدالحق کا ’نام دیو مالی‘ تو ہم سب جانتے ہیں۔ ہم نے اہلِ دولت اور صاحبانِ منصب کو ارذل نمونے میں دیکھا اور دیکھ رہے ہیں۔ ناموں کی فہرست سازی کیا کی جائے؟ آخری مغل بادشاہ کو بھی ایسوں ہی سے واسطہ رہا ہو گا جو لکھا، اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغدار میں۔ ان دنوں سیاست کے ایوانوں میں جو خاک اڑ رہی ہے، اس کے ذرے کوچۂ صحافت سے گزرتے ہوئے عدلیہ کی غلام گردشوں کو غبار آلود کر رہے ہیں۔ ہم ایسوں کو کیا تعجب ہو گا۔ صحافت اس ملک میں سول اینڈ ملٹری گزٹ پر پابندی سے 1949ء ہی میں ڈوب گئی تھی۔ عدل کی دیوی کا مجسمہ نادیدہ دبائو سے 10 مئی 1955ء کو زمیں بوس ہو گیا جب جسٹس منیر نے دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کو جائز قرار دیا۔ تدریس کی کچھ توقیر بچ رہی تھی لیکن گورنر مغربی پاکستان موسیٰ خان نے پروفیسر حمید احمد خان کو پنجاب یونیورسٹی کی وائس چانسلر شپ سے مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور برصغیر کی عظیم تعلیمی درس گاہوں میں سے ایک تھا۔ درویش علم کے اس معبد میں ایک گم نام طالب علم رہا ہے۔ آپ کے نیازمند کو یہاں شرف باریابی ہوا تو فضائوں میں پروفیسر سراج، خواجہ منظور حسین اور ڈاکٹر نذیر احمد کی خوشبو ابھی باقی تھی لیکن چاپلوسی کی ثقافت سر نکال رہی تھی۔ تاہم استاذی آر اے خان صاحب، مرزا اطہر بیگ اور صابر لودھی جیسے اساتذہ ابھی باقی تھے۔ مجموعی فضا میں علم پر مصلحت کا رنگ غالب تھا۔ کئی دہائیوں بعد مادرِ علمی میں جانے کا موقع ملا تو تاریخ کی روشوں پر صاحبانِ علم کے نقش قدم مدھم پڑ رہے تھے۔ اب خبر آئی ہے کہ اس درس گاہ میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو خطبہ خصوصی کیلئے مدعو کیا گیا ہے۔ 2016سے2019 کے پرآشوب دور میں منصف اعلیٰ رہنے والے ثاقب نثار نے عدالت عظمیٰ میں ناانصافی کے نئے معیارات قائم کئے۔ قانون کو موم کی ناک بنایا۔ ذاتی عناد میں ملک کے بہترین ادارے تباہ کئے۔ شرفا کی پگڑیاں اچھالیں۔ صاحبانِ علم کو بے عزت کیا۔ انتخابی عمل کو داغدار کیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور (جسے میں یونیورسٹی کہنا پسند نہیں کرتا) کو زیب نہیں دیتا کہ ایسے متنازع شخص کو طالب علموں کے سامنے مثالی کردار بنا کر پیش کیا جائے۔ خواجہ درد نے ہمارا ہی درد بیان کیا تھا، اے کمال افسوس ہے، تجھ پر کمال افسوس ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائے دیں00923004647998)