• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کا PTI منحرف اراکین کو تیاری کر کے آنے کا حکم

فائل فوٹو
فائل فوٹو

سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے پنجاب اسمبلی کے منحرف اراکین کو پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے کے نکتے پر تیاری کر کے آنے کا حکم دے دیا۔

پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کی الیکشن کمیشن کے خلاف اپیلوں پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی، چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران منحرف اراکین کے وکیل نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے کوئی ہدایات جاری نہیں کی تھیں، پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ کے امیدوار پرویز الہٰی نے انتخاب کے روز اجلاس سے بائیکاٹ کیا تھا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی کے ممبر ہوتے ہوئے آپ نے مسلم لیگ ن کو ووٹ دیے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جب آپ کی جماعت نے اجلاس سے بائیکاٹ کیا تو آپ نے شرکت کیوں کی؟ سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے کی تشریح میں انحراف کو پہلے ہی کینسر قرار دے چکی ہے، انحراف چھوٹی بات نہیں، یہ انسان کے ضمیر کا معاملہ ہے۔

پنجاب میں پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں سے ڈی سیٹ ہونے والی عظمیٰ کاردار نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ مجھے پی ٹی آئی نے پارٹی سے نکالا، میرا کیس انحراف سے ہٹ کر ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مخصوص نشستیں سیاسی جماعت کی اسمبلی میں ٹوٹل نشستوں کے تناسب سے ہوتی ہیں، دیکھنا ہوگا کہ جب آپ کو پی ٹی آئی نے پارٹی سے ہی نکال دیا تو آپ ممبر کیسے تھیں؟

عظمیٰ کاردار نے کہا کہ میں نے پی ٹی آئی کے لیے خون پسینہ لگا کر محنت کی، آج بھی پارٹی کی رکن ہوں، پارٹی کی اندرونی سازشوں کی وجہ سے مجھے پارٹی سے بے دخل کیا گیا، پھر بھی رکن اسمبلی رہی، مجھے آرٹیکل 63 اے نے تحفظ دیا کہ مجھ پر انحراف ثابت نہیں ہوا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے عظمیٰ کاردار سے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کو نہیں معلوم تھا کہ آپ کو پارٹی سے نکال دیا گیا ہے؟ جس پر انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے سامنے تمام دستاویزات موجود تھے۔

چیف جسٹس پاکستان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سپریم کورٹ واضح کر چکی کہ منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہیں ہو گا، سیاسی جماعتوں کا بنیادی حق ہے کہ اس کا رکن اس سے وفاداری کرے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے برطانوی وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کا حوالہ دیتے ہوئے عظمیٰ کاردار سے سوال کیا کہ کیا آپ کو معلوم ہے بورس جانسن کو شکست کہاں ہوئی؟ ان کے خلاف کوئی تحریک عدم اعتماد نہیں آئی تھی، بورس جانسن کے خلاف تحریک عدم اعتماد پارلیمانی پارٹی میں ہی ختم ہو گئی تھی۔

عظمیٰ کاردار نے کہا کہ پی ٹی آئی میں کسی کی ہمت نہیں کہ پارٹی لیڈر کے خلاف بات کر سکے، ایک سال کہتے رہے عثمان بزدار کو سپورٹ کرنا ہے جب بات نہیں بنی تو دوسری طرف چلے گئے۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا ہے کہ جماعت کا سربراہ اور پارلیمانی پارٹی لیڈر الگ الگ ہوتے ہیں، جماعت کے سربراہ نہیں پارلیمانی پارٹی کے لیڈر کی ہدایت پر عمل کرنا ہوتا ہے، منحرف اراکین کا معاملہ کیس ٹو کیس دیکھیں گے۔

منحرف اراکین کے وکیل نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی لیڈر کو آزادانہ فیصلے لینے ہوتے ہیں، جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سامنے پارٹی سربراہ کی ڈکٹیٹر شپ کا معاملہ بھی ہے۔

منحرف اراکین کے وکیل کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر پنجاب میں خواتین کی پانچ مخصوص نشستوں پر نوٹیفکیشن جاری ہو گیا تو ہمارا کیس غیر مؤثر ہو جائے گا۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیس اہم نوعیت کا ہے، تمام نکات پر تیاری کر کے آئیں، عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔ 

قومی خبریں سے مزید