• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز پاکستان کا موجودہ کرپٹ اور فرسودہ نظام ہی تمام مسائل کی بنیادی جڑ ہے۔ چوروں، لٹیروں اور کرپٹ افرا د سے نجات حاصل کئے بغیر محبِ وطن قیادت میسر نہیں آسکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ چوروں، لٹیروں اورکرپٹ افراد کی جگہ اسمبلیوں میں نہیں بلکہ جیلیں ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف نے مل کر ملک و قوم کو اس نہج تک پہنچادیا ہے کہ آج مسائل کے انبار لگ گئے ہیں۔ ملک کے بائیس کروڑ عوام کو اس وقت نہ کوئی امپورٹڈ حکومت چاہیے اور نہ ہی سلیکٹڈ حکمران چاہئیں، انہیں صرف اور صرف محبِ وطن قیادت کی ضرورت ہے جو ان کے مسائل کوہنگامی بنیادوں پرحل کرسکے۔موجودہ بحرانوں سے نکلنے کا واحدحل صرف نئے انتخابات ہیں۔پاکستان کو 1973ء کے آئین کے مطابق آگے بڑھنا ہے۔ ملکی حالات دن بدن گھمبیر ہو تے جا رہے ہیں۔ داخلی انتشار اور افراتفری سے ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی سازش ہورہی ہے۔ کچھ عناصر اپنے سیاسی مفادات کی خاطر قومی مفادات کو بھی داؤ پر لگانا چاہتے ہیں۔ ان کی روک تھام کو یقینی بناتے ہوئے اب منفی سیاست کا خاتمہ نا گزیر ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی آزادی، خود مختاری اور سلامتی سب کچھ داؤ پر لگ چکا ہے۔تمام اپوزیشن جماعتیں آپس کی چپقلش کی بجائے عوامی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کام کریں۔ 1973کے آئین نے تمام اداروں کی آئینی و قانونی حدود کا تعین کردیا ہے۔ ایک دوسرے کی حدود و قیود کا احترام ہونا چاہئے۔ حیرت کی بات ہے کہ اب توتبدیلی کا نعرہ لگانے والے اپنی ہی حکومت کے خلاف سازش کرنے والوں کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔قوم کو خودداری، جرأت،بہادری اور غلامی سے نجات کا درس دینے والے امریکہ کے پائوں پڑ چکے ہیں اوراسی امریکی ڈونلڈ لو سے معافیاں مانگ رہے ہیں۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان کو پتہ چل چکا ہے کہ امریکہ سے تعلقات خراب کرکے ان کو اقتدار کبھی نہیں ملے گا، اس لیے تحریک انصاف اب امریکہ کی چاپلوسی کر رہی ہے۔یہ کیسی منافقانہ سیاست ہے؟ امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان میں حکمرانوں کی عاقبت نا اندیش پالیسیوں کی بدولت اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی بے روزگاری کی شرح میں 16فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے۔پنجاب میں 100یونٹ والوں کے لیے بجلی کی مفت فراہمی محض دکھاوے اور ضمنی انتخابات سے قبل عوام کے لیے لالی پاپ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آج کل عام گھرانے کا بجلی کا بل بھی 200 یونٹس سے کم نہیں ہے۔ حکومت اگر عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف فراہم کرنا چاہتی ہے تو مہنگائی کو ختم اور کم از کم 200یونٹ استعمال کرنے پر مفت بجلی کی فراہمی کا اعلان کرے۔ پٹرول کے بعد بجلی کی قیمتوں میں مرحلہ وارفی یونٹ اضافے کی منظوری بھی پریشان کن ہے۔ ملک میں پہلے ہی مہنگائی کا طوفان برپا ہے۔ اس قسم کے غیر دانشمندانہ فیصلوں سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جس ملک کی معاشی پالیسیاں غیر ملکی ادارے بنائیں اس کی خود مختاری اور سلامتی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ حکمرانوں نے ملکی ادارے گروی رکھ کر آئی ایم ایف سے ادھارمانگنے کی شرمناک پالیسیاں اختیار کر رکھی ہیں۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں 10ڈالر فی بیرل کمی ہوئی مگر پاکستان میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جب کہ غیر ملکی معاشی ماہرین 2023تک 45ڈالر فی بیرل تک قیمت گرنے کی پیشگوئیاں کررہے ہیں۔ہمارے ارباب اقتدار کے لیے افسوس کامقام یہ ہے کہ یکم جولائی سے اب تک پنجاب بھر میں ٹیکسٹائل ملز کی گیس بند ہونے کے باعث 400سے زائد ملز بند ہوچکی ہیں، جس سے کپڑے کی صنعت کو برآمدت میں ایک ارب ڈالر کی کمی کا خدشہ ہے۔ ایسے دکھائی دیتا ہے کہ حکمران آئی ایم ایف سے پوچھے بغیر ایک پالیسی نہیں بناسکتے۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران جس طرح بے رحمانہ انداز میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو بڑھایا گیا ہے، اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ مہنگائی نے تیرہ سالہ ریکارڈ توڑ ڈالا ہے۔ اشیائے خورونوش کی قیمتیں 30فیصد تک اور بجلی 52فیصد تک مہنگی ہوچکی ہے۔ ٹرانسپورٹروں نے کرایوں میں 62فیصد تک اضافہ کردیا ہے جبکہ 70فیصد ٹرانسپورٹ بند ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت کوئی ایک سیکٹر بھی ایسا نہیں جس کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیا جائے۔سوال یہ ہے کہ آئندہ ضمنی وعام انتخابات میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف اپنی خراب ترین کارکردگی کی وجہ سے عوام کے سامنے کیسے جا پائیں گے؟ عوام تو ان سے مہنگائی، غربت اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے بارے میں ضرور سوال کریں گے۔ ماضی قریب میں اقتدار میں رہنے والی پارٹیوں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کواس کا جواب دینا پڑے گا۔

تازہ ترین