اگر پرانے بیجنگ کے کسی باسی سے پوچھا جائے کہ ’’قدیم بیجنگ کی ناقابلِ فراموش بات کیا ہے؟‘‘تو پتا ہے وہ کیاکہے گا،پہلے تو ہنسے گا اور پھر منہ، ہاتھ کے اشارے سے کہے گا ’’ہمارے کھانے۔‘‘ پھر چند لمحوں بعد مخاطب کی آنکھوں میں اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں کی ساری چمک انڈیلتے ہوئے بولے گا’’واہ، واہ!! جواب نہیں چینی کھانوں کا۔ ہمارے کھانوں میں کئی زمانوں کی تہذیب و ثقافت رَچی بسی ہے۔ وقت کے ساتھ اُن میں آنے والے بدلاؤ نے اُن کی ہیٔت اور ذائقے میں بھی چار چاند لگادئیے ہیں۔‘‘
آج سویرے ہی عمران ہمیں(مجھے اور سعدیہ کو) وانگ فوجنگ(تجارتی/ شاپنگ اسٹریٹ) ڈراپ کرگیا کہ اس کے مرکزی حصّے میں کتابوں کی بہت بڑی دُکان تھی اور ہمیں کچھ کتابیں دیکھنی تھیں۔ چار، پانچ فلور پر مشتمل کتابوں کی ایک دُکان میں داخل ہوئے، اُف…!! اتنی جدید کہ بندے کی آنکھیں پھٹی رہ جائیں۔ لیکن یہاں کتابوں کی اکثریت چینی زبان پر مشتمل تھی، بہت چھان پھٹک کے بعد انگریزی سیکشن ملا، تو احساس ہوا کہ یہ ادب تو نامانوس سا ہے۔
ہم تو ہم، سعدیہ تک کو سمجھ نہیں آرہا تھا، حالاں کہ وہ تو انگریزی ادب میں ماسٹرز اور ادب شناس ہے۔ خیر، وہاں سے نکلے اور قریب ہی واقع فوڈ مارکیٹ میں قائم ایک کافی بار چلے گئے کہ اب دو، ڈھائی گھنٹے کی ذہنی و جسمانی مشقّت کا نتیجہ صفر ہو، تو پھر ڈیپریشن بھی ہوتا ہے اور بھوک بھی لگتی ہے۔ کافی بار کے اندر کا ماحول بڑا پُررونق تھا۔ اونچی سی کرسی پر بیٹھ کر چند گھونٹ تو بھر لیے، پھر باہر نکلنے کو جی مچلنے لگا۔ صبح کے دس بج رہے تھے اور بازار کی رونقیں مسلسل بڑھتی جا رہی تھیں۔ ہمارے سامنے وانگ فوجنگ کی فوڈ اسٹریٹ تھی۔ سچّی بات ہے، دل نے کہا’’واہ! کیا بات ہے اس فوڈ اسٹریٹ کی۔‘‘
محرابی دروازوں کی آرایش و زیبائش دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ ہمارے ہاں جو نقش نگاری، رنگ ریزی ٹرکوں پر ہوتی ہے، وہاں بھی کچھ اسی نوع کی آرایشی پٹیاں بنی تھیں۔ اتنا تام جھام کہ بندہ حیرت سے دیکھتا ہی رہ جائے۔ بازار اندر ہی اندر محرابی دروازوں کے عقب میں پھیلے ہوئے تھے۔ دروازوں میں فیروزی اور کائی رنگ، جب کہ کھانے پینے کی دُکانوں میں سُرخ رنگ نمایاں تھا۔چوں کہ صبح تھی اس لیے صفائی سُتھرائی اور گلیوں کی دُھلائی کا کام زوروں پر تھا۔ ہم یہ سب دیکھتے، مشاہدہ کرتے آگے بڑھتے گئے۔ سووینیئرز کی دُکانوں میں رش تھا۔ خیر ہم نے پانچ پانچ یوان کے چینی آرٹ پر مبنی جیولری کے ڈبّے خریدے۔ بہت دُور تک آہنی نقاشی سے لتھڑی محرابوں کا سلسلہ چلتاچلا گیا۔ پھر ایک دیدہ زیب ریستوران کی سُرخ کارپیٹڈ سیڑھیاں چڑھ کر ہم نے چند تصویریں کھنچوائیں۔
’’وانگ فوجنگ اسٹریٹ‘‘ تاریخی اہمیت کی حامل انتہائی مشہور اور مصروف جگہ ہے۔ اسے بیجنگ کی گوال منڈی بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ منگ اور کنگ سلطنتوں کے زمانوں سے قائم ہے، بس اب سرگرمیوں میں بدلاؤ آگیا ہے کہ تب یہاں شہزادیوں کی رہائش گاہیں تھیں اور یہ اشرافیہ کی کاروباری سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ پھر یہاں میٹھے پانی کا ایک کنواں بھی دریافت ہوا، جس نے علاقے کی اہمیت بڑھا دی۔ ہم نے دھیرے دھیرے چلتے ہوئے دل کش عمارتوں اور گھومتے پھرتے خریداری کرتے لوگوں کو دیکھا۔ سعدیہ ہمیں سینٹ جوزف چرچ بھی دکھانا چاہتی تھی، جو کہیں آگے جاکر تھا۔’’نہیں بھئی، بس اب چلو، جہاں کھانا کھلانا ہے کھلاؤ کہ بہت گھوم پھر لیے۔‘‘ پھر ہم یہاں کے مشہور مسلم ریستوران ’’ڈونگ لیشن‘‘ میں داخل ہوئے۔
یہ ریستوران ہوئی لوگ چلاتے ہیں۔ جیسے ہی ہمیں ٹیبل ملی اور ہم بیٹھے، ہم نے پاؤں، جوتوں سے نکال کر ذرا آرام دینے کے لیے موزوں جگہ پر ٹکائے۔ اتنے میں سعدیہ نے کہا ’’آپ ایک بار یہاں کی ’’ہاٹ پاٹ مٹن ڈِش‘‘ کھالیں تو لاہور کی مٹن کڑاہی بھول جائیں گی کہ ایک تو یہاں مٹن کا انتخاب بہت احتیاط سے کیا جاتا ہے، دوسرا اس کی کٹائی میں بھی بڑا سلیقہ، طریقہ نظر آتا ہے۔ایسی نفیس ہڈی والی بوٹیاں کہ بس بندے کی پلیٹ سج جاتی ہے۔گھلاوٹ کا وہ عالم کہ بوٹی کی شکل بھی قائم اور توڑنے میں بس ذرا سا چھونے کی دیر ہوتی ہے اور بوٹی وہ تو منہ میں رسیلی خوبانی کی طرح گُھلتی چلی جاتی ہے۔
مسالوں کا ذائقہ تو آتا ہے، مگر جلن ہوتی ہے، نہ تیزابیت۔‘‘ ’’چلو تو پھر یہ طے ہے کہ آج بیجنگ کی مٹن کڑاہی کھائیں گے۔‘‘ ہم نے کہا۔’’آج یہاں کا کھانا کھالیں، تو کسی دن ایک اور جگہ لے چلوں گی، جہاں کا باربی کیو بڑا مشہور ہے۔ پتا ہے، اس جگہ کی خاص بات یہ ہے کہ جس آگ پر وہاں باربی کیو بنتا ہے۔اس کی لکڑیاں بھی عام نہیں، خاص الخاص ہوتی ہیں۔ وہ لکڑیاں کھجور، صنوبر اور سرو کے پیڑوں کی ہوتی ہیں، جنہیں ایندھن کے طور پر جلایا جاتا ہے۔‘‘سعدیہ نے بتایا۔ ’’واہ بھئی، تمہیں تو یہاں کے ریستورانوں کے بارے میں بہت پتا ہے۔‘‘ ہم نے کہا۔’’بس لوگوں سے ملتے ملاتے، دعوتوں وغیرہ میں جانے سے پتا چل ہی جاتا ہے۔
جیسے یہیں کہیں فینگ شان کے نام سے ایک اور ریستوران ہے۔قریباً دو ہفتے قبل سفارت خانے کے ایک فنکشن میں مسٹر اینڈ مسز احمد سے ملاقات ہوئی تھی، یہ متمول پاکستانی بزنس کلاس جوڑا ہے،پرانے بیجنگ کا بھلا کون سا ایسا ریستوران ہے، جس کے بارے میں انہیں نہ پتا ہو۔ مسز احمد بتا رہی تھیں کہ ’’بس ایک دفعہ وہاں جاکر دیکھو، طبیعت خوش ہوجائے گی۔ ریستوران کا مالک شاہی گھرانے کا باورچی تھا۔ کھانوں کے رنگ،خُوش بو اور ذائقے پر اس نے اتنی توجّہ دی کہ ایک ایک پکوان خود کہتا ہے کہ ’’اصلاً ،نسلاً شاہی ہوں۔‘‘ پھر ریستوران کی سجاوٹ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔‘‘
سعدیہ نے تفصیلاً بتایا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قدیم شہر میں شاہی خاندان کے رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے بھی کھانوں کی تہذیب ارتقائی عمل کا حصّہ رہی۔ کچھ دن قبل ہم پرانے بیجنگ پر ایک تحریر پڑھ رہے تھے، تو چِین کے ایک مشہور مصنّف ، شاؤ کیان کی تحریر نے بہت متاثر کیا۔ جس نے کم و بیش دس سال کا عرصہ بیجنگ سے دُور چین کے مختلف شہروں میں گزارا تھا۔ اکثر تنہائی میں جب اُسے بیجنگ کی یاد ستاتی، تو وہ خود سے سوال کرتا ’’بیجنگ کی کیا کیا چیزیں یاد آتی ہیں؟‘‘ ’’سب سے زیادہ تو اسنیکس ہی تڑپاتے ہیں۔
سیاہ گندم سے بنا کیک بھی تو میری کم زوری ہےکہ جس کے تصوّر ہی سے منہ میں پانی آجاتا ہے۔ ڈونکی رولز بھی یاد آتے ہیں، مگر باجرے کے آٹے سے تیار شُدہ مادّہ، جو گرم پانی اور وہ بھی تانبے کی کیتلی میں اُبال کر تیار کیا جاتا ہے، بہت لذیذ ہوتا ہے۔ ‘‘اُس کی خود کلامی پڑھ کر ہم نے بھی یہ تراکیب ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی، مگر کام یاب نہ ہوئے۔ ’’باجرے کا آٹا بہت صحت بخش ہوتا ہے۔ یقیناً یہ کوئی اچھی ڈِش ہی ہوگی۔‘‘ ہم نے سوچا۔ کتاب میں آگے بہت سے دانش وروں، لکھاریوں، فن کاروں کی دل چُھو لینے والے جذبات سے لب ریز تحریریں تھیں، جو وطن سے دُور تو چلے گئے، لیکن اس کی یاد ہڑک بن کر اٹھتی تھی۔ انہیں پردیس میں اپنے پسندیدہ کھانے نہیں ملتے تھے اور وہ اسنیکس کو یاد کرتے تھے۔انہیں روسٹ ڈک، مٹن ہاٹ پاٹ، مٹر کے آٹے سے تیار کیک کی یاد تڑپاتی تھی، تو موسمِ سرما میں پھیری والے کی صدائیں سُننے کو کان ترس جاتے تھے، مگر سُن نہ پاتے تھے۔
اِن تحریروں کو پڑھتے ہوئے ہم خود بھی بڑے جذباتی سے ہوکر ماضی میں کھو گئے تھے۔ ایک مرتبہ ہم لوگ کسی کانفرنس کے سلسلے میں بھارت گئے ہوئے تھے۔چار، پانچ دن تو بھاجی، پنیر وغیرہ ہی پر گزارہ کیا۔ چھٹے دن ہماری ایک خُوب صُورت شاعرہ، نثرنگار، کالم نگار ساتھی، عمرانہ مشتاق کو گوشت کی ایک پلیٹ نظر آئی۔ تو اس نے زور سے کہا ’’ہائے مَیں مرجاواں، بوٹی…‘‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ چاہے کہیں بھی چلے جائیں، اپنا وطن اور اس کے پکوانوں کی یاد ہر پل ساتھ رہتی ہے۔ پھر اس میٹھی سی یاد نے ہمیں کِھلکھلا کر ہنسنے پر مجبور کردیا۔ سعدیہ نے اپنی ماں کو یوں اکیلے ہنستے دیکھا، تو حیران ہو کر جھٹ پوچھا ’’کیا ہوا؟‘‘تو اُسے بھی یہ قصّہ سنایا اور پھر ہم دونوں ماں بیٹی، بہت دیر تک اس بات پر ہنستے رہے۔
خیر، کھانے اور شاپنگ سے فارغ ہوئے تو دن کا ایک بج رہا تھا، گھر واپسی کا تو مُوڈ ہی نہیں تھا۔ دفعتاً ہمیں یاد آیا کہ سعدیہ کو بہائی پارک دوبارہ دیکھنے اور مجھے دکھانے کا بہت اشتیاق تھا۔ اُس نے کشتی کی سیر کا بھی بڑے رومانی انداز میں ذکر کیا تھا۔ اس نے بتایا کہ ’’کشتی میں بیٹھ کر بس یوں لگتا ہے، جیسے سری نگر کی ڈل جھیل کے شکارے میں ہوں۔‘‘ یہ سب بتاتے ہوئے اس کی آنکھوں کی چمک سے ہمیں یہ تو اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ جگہ واقعی قابلِ دید ہے۔ سو، جھٹ بولے ’’ارے تو پھر ہم بہائی پارک کی سیر سے فارغ ہوکر کسی قریبی جگہ کا بھی چکر لگا آئیں گے۔‘‘ہم نے مسرّت بھرا چٹخارا بھرا۔’’کہاں پھر رہی ہیں آپ؟
یہ آپ کا شالامار باغ نہیں ہے کہ جس کے تیسرے تختے تک بندہ بیس منٹ میں پہنچ جاتا ہے۔ارے میری پیاری امّاں! نہ تو اس کی جھیل کی وسعتوں کی کوئی انتہا ہے، اور نہ ہی محل باڑیوں کی۔یہ کنگ سلطنت کے شاہی محلاّت کا حصّہ تھا اور شاہی باغ کہلاتا تھا۔ بیجنگ کے اس قدیم ترین اور خوب صُورت ترین باغ کا آج بھی جواب نہیں۔‘‘ ’’اب جب ساری باتیں بتا کر ہمارا تجسّس بڑھا ہی دیا ہے، تو وہاں جانے میں کیاحرج ہے، چلو چلتے ہیں۔‘‘ یوں ہم دونوں ماں، بیٹی نے پارک تک پیدل چلنے کا ارادہ کیا کہ وہ زیادہ دُور نہ تھا۔ ساتھ ساتھ سعدیہ کی باتیں بھی چلتی جارہی تھیں۔ ’’یہ کبھی بادشاہوں کا باغ تھا اور آج عوام کا ہے،سیّاحوں کا ہے، رشتے کروانے والیوں، محبّت کرنے والے جوڑوں کا ہے۔اِس پارک کے ساتھ کیسی کیسی دل چسپ کہانیاں جُڑی ہیں۔
کچھ ماضی کی،کچھ حال کی۔‘‘ سعدیہ بےتکان بولے چلی جارہی تھی۔ ’’چلو پہلے ماضی کیا کہتا ہے وہ سُن لیتے ہیں۔‘‘ ہم نے کہا۔ ’’ایک دفعہ کا ذکر ہے، جادو کے تین پہاڑ (پنگالی، ینگزو اور فینگ زینگ) تھے، بہائی جھیل کے مشرق میں واقع تھے۔ کہتے ہیں، یہ پہاڑ پریوں، دیوتاؤں کے قبضے میں تھے۔ بادشاہ وقت کو اِن پہاڑوں پر ایک ایسی بوٹی کا پتا چلا، جو انسان کی ابدی زندگی کا باعث بن سکتی تھی۔ایسی باتیں بادشاہوں کو تو پھر ہمیشہ ہی جنون میں مبتلا کردیتی ہیں، تو شہنشاہ نے ابدی زندگی کی خواہش میں ان پہاڑوں کا چپّا چپّا چھان مارا۔ اس نے لوگوں کو اِن پہاڑوں پر بھیج بھیج کر پاگل کردیا۔
جب کچھ نہ ملا، تو یہاں تین بڑے تالاب بنوائےاور ان میں تین پہاڑیاں نصب کروادیں۔ بُوٹی اور آبِ حیات تو نہیں ملا، البتہ ایک حیرت انگیز،شان دار اور منفرد قسم کا پارک وجود میں آگیا۔ پارک بھی ایسا، جہاں مختلف محلات، ٹیمپلز ہوں، جہاں پگوڈا نما بلندوبالا اسٹوپا تخلیق کیا گیا ہو، جو پارک کے ہر حصّے سے کسی قطبی تارے کی مانند دکھائی دیتا ہو۔ یہاں پانیوں کے دہانوں پر بنے اِن پگوڈا نما عمارتوں میں لوگوں کا کچھ دیر کے لیے اترنا،سیرسپاٹا کرنا اور پھر کشتی سے کسی اور پرجااترنا، بہت پُرلطف لگتا تھا۔171ایکٹر پر پھیلا یہ پارک، آدھا تو پانی سے بھرا ہوا ہے، تو درمیان میں جزیرہ سا بن گیا ہے۔
سفید پگوڈا اس کا ایک امتیازی نشان ہے۔اس کا سب سے خُوب صُورت حصّہ سرکلر سٹی والا تھا۔ بیجنگ کی مرکزی جگہ میں قائم یہ پارک اور اس کایہ مرکزی حصّہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ شان دار ہال، جس میں کبھی بادشاہ بیٹھتا تھا اور فطرت سے لطف اندوز ہوتا تھا، آج عوام اور ماٹھے لوگ بیٹھتے ہیں۔ ہم اس کے قیمتی پتھر اور اس پر بکھرے پیلے، سبز رنگوں کے امتزاج کی دل کشی دیکھ کر حیران رہ گئے۔ کبھی فطرت کے حُسن سے آنکھ مچولی کھیلتے، تو کبھی انسانی ہاتھوں کی کاری گری پر رشک کرتے۔ پارک بنا تو قریباً گیارہویں صدی میں تھا۔
تاہم، بعد میں آنے والوں نے بھی اسے خوب سجایا، سنوارا۔ پارک میلوں پر پھیلا ہوا تھا۔ چھوٹی موٹی جھیلوں سے نہیں، بےحدود، خُوب صُورت جھیل سے گِھرا ہوا۔ جس میں چلتی کشتیاں اپنی جانب توجّہ مبذول کروا رہی تھیں۔ پھر ہم کشتی میں بیٹھ گئے، اس تک جانے کا رستہ بے حد خُوب صُورت تھا ۔سنگِ مرمر کے نصف قوسی کنگورے دار پُل پر تاحدِ نظر بکھرے ٹھنڈی ہوائوں سے ہلکورے کھاتے پانیوں پر رقصاں سورج کی کرنوں کو مسرت بھری آنکھوں سے دیکھنا اور کچھ دیر کے لیے سنگی دیوار کی قربت سے جڑ کر اِس کائناتی حُسن کو دیکھنا بہت مسحور کُن تجربہ تھا۔ (جاری ہے)