پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جو سیاست دان اپنی ذات میں انجمن رہے ، ان میں نوابزاہ نصر اللہ خاں سرفہرست ہیں۔ وہ اپنی پوری جماعت ’’پاکستان جمہوری پارٹی ‘‘پر مکمل حاوی تھے بلکہ خود ہی جمہوری پارٹی تھے۔ فقط پارٹی ہی نہیں ، جب کبھی ملک میں سیاسی بحران بڑھتا ، اور کسی سیاست دان کی نہ سیاسی جماعت کی اتنی سکت ہوتی کہ وہ تنہا بحران کی صورت حال کے مطابق اڈریس کر سکے تو وہ نواب صاحب کے پاس آجاتے جو ان کے مائی باپ بن کر انہیں لے کر چلتے، اور ایسے چلتے کہ حکومت کا چلنا مشکل ہو جاتا۔ایسے میں ڈگمگاتی حکومت کے بھو نپیوں کے پاس یہ کہنے کے سوا کچھ نہ ہوتا کہ نواب صاحب تو ٹانگے کے کوچوان ہیں ۔ حالانکہ نوابزادہ کی بگّی اس شان سے شاہراہ جمہوریت پر رواں دواں ہوتی کہ عوام کی نگاہیں ان کی طرف لگ جاتیں اور وہ میڈیا کی آنکھوں کا تار ا بن جاتے۔ یاد آیا کہ اب شیخ رشید میڈیا کا چاند ہیں ۔ باغ وبہار شیخ صاحب ٹی وی اسکرین کو سجا دیتے ہیں اور وہ گندی سیاست پر اپنی چاندنی یو ں بکھیرتے کہ اس کا گند نظر آنے لگتا ہے اور سیاست دانوں کے ستائے لوگوں کی کچھ تسکین ہو جاتی ہے ۔ شیخ صاحب کا کمال یہ ہے کہ وہ دو تین مرتبہ وزیر اطلاعات رہنے کے باوجود آج بھی کسی چینل کی آنکھوں کا تارا ہیں تو کسی کا چاند۔ وگرنہ سابق وزراء اطلاعات کو وزارت کے اختتام پر انڈے ٹماٹر ہی ملتے ہیں اوروزارت کے بعد کونا کھدرا ۔ .
شیخ صاحب سیاسی چٹخارا پیدا کر نے کے ماہر ٹی وی اینکروں کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوپاتے ۔ کوئی چاہے شیخ صاحب کی بھد اڑائے یا ان سے سیاست دانوں کی اڑوائے ، وقفے وقفے سے انہیں بلا کر اسکرین کی رونق کو دوبالا کرنا ہی پڑتا ہے۔ نوابزادہ نصراللہ مرحوم اور شیخ رشید کی قدر مشتر ک یہ ہے کہ مرحوم بھی سیاسی بگّھی کے کوچوانتھے اور شیخ صاحب اپنے سیاسی ٹانگے کے ۔ دونوں اپنی اپنی ذات میں انجمن ۔ نواب صاحب کی انجمن اپنے رنگ اور وقت کی تھی اور شیخ صاحب ٹی وی برینڈ ،تاہم لال حویلی والے شیخ دو ہاتھ آگے نکلے ، یوں کہ بار بار الیکشن جیت کر اسمبلیوں کو رونق بخشتے رہے ۔ نواب صاحب سے ’’بڑے وہ ‘‘ سیاست داں اپنا کام تو نکلوا لیتے ، انہیں منتخب کر نے کا وقت آتا تو طوطا چشم بن جاتے ۔ اس کے باوجود ان کا جادو یہ تھا کی جب تک بڑے بڑے سیاست دان نواب صاحب کے دام میں نہ آتے ، انہیں محسوس ہوتا کہ ہم ابھی پورے سیاست دان نہیں بنے ۔ سو، جب جس کے حالات نے اجازت دی ، وہ نواب صاحب کے قریب ہوا اور فلاح پائی ۔ بڑے بڑے آمروں کے حواری ان کی صحبت میں آ کر جمہوریت پرست بن گئے ۔ اگر آج کے سینئر سیاست دانوں میں کوئی دو چار باتیں اچھی بھی ہیں تو یہ نواب صاحب کے شائستہ سیاسی ابلاغ ، متاثر کن رواداری اور پھر ان کی محفل کے سحر سے کچھ حاصل کمال ہے ۔جنہیں نوابزادہ نصر اللہ کی محفلیں نصیب نہ ہوئیں ، غور کریں ان میں بہت سی کمیاں رہ گئیں ۔ ایسوں کے اپنے بھی انہیں سیاست دان کم ’’کچھ اور‘‘ زیادہ سمجھتے ہیں ۔بابائے جمہوریت ، جمہوریت کے لیے بڑے بڑے دو نمبری سیاست دانوں کو بھی اپنے اتحاد میں سمیٹ لیتے۔ اس کے بر عکس اپنے ٹانگے پر سوار شیخ صاحب گھوڑے پر چابک لگانے کی بجائے دو نمبری جمہوریت کو بھی گالی گلوچ کرتے ہیں اور اسے چلانے والے سیاست دانوں کو بھی ۔ ابھی گزری جمعرات پر انہوں نے ایک ٹی وی چینل سے اپنے ہم عصر سیاست دانوں کو یہ کہہ کر ’’تحسین ‘‘ بخشی کہ ’’سیاسست دان بڑے چور ہیں‘‘ اور بولے کہ ’’دبئی میں ان کے ٹاور ، سعودی عرب میں فیکٹریاں، یور پ اور آسٹریلیامیں کاروبار ہیں ، انہیں عوام کا کوئی درد نہیں ‘‘۔ جب میڈیا یہ سب کچھ شائستہ صحافتی زبان میں عوام کے سامنے لاتا ہے تو سیاست دانوں کے بہت سے حواری غم زدہ ہو جاتے ہیں ، میڈیا اور بے باک ہو جائے تو اس پر الزام لگتا ہے کہ سیاست دانوںکی کردار کشی کر کے جمہوریت کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے ۔ اب یہ کچھ شیخ صاحب نے اپنی زبان میں کہا ہے تو سیاست دان چپ ہیں ۔ کہیں ایساتو نہیں کہ’’پیٹی بھائی پول کھول رہا ہے، اور اس کیخلاف بولنے سے خطرہ ہے کہ بھرے چوک میں اور گدلے کپڑے دھلنے لگیں گے ‘‘۔ سو ، سب سیاست دان دل جلے شیخ کی غزل گوئی پر یوں بن جاتے ہیں جیسے سنا ہی نہیں ۔ شیخ صاحب سیاست دانوں کے خلا ف بول رہے ہیں تو ٹھیک ہی ہوگا کہ وہ خود سیاست دان ہیں اور انہیں خوب سمجھتے ہیں۔
ہمیں نہیں پتہ کہ دوسرے سیاست دان انہیں کتنا سمجھتے ہیں ۔ ابھی تو شیخ رشید نے سیاست دانوں پر کڑوی تنقید کرتے ہوئے بہت لحاظ کیا ہے ۔ ہیں نہ سیاست داں۔وگرنہ این آر اواور وال سٹریٹ جرنل کی حالیہ رپورٹ کا مطالعہ کیا جائے تو کیا سیاست دان بس ’’بڑے وہ‘‘ہوتے ہیں جو شیخ صاحب نے انہیں کہا ہے یا ا ن کی فنکاری کا درجہ اس سے کہیں زیادہ بلند ہے ؟ بہر حال عوام کی جو حالت بنی ہوئی ہے ،اس میں شیخ صاحب کا سیاست دانوں کو اتنا سمجھ کر اتنا بیان کرنابھی غنیمت ہے۔ یاد آیا ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کچھ سمجھیں نہ سمجھیں انہوں نے شیخ رشید کو خوب جانا ۔ شیخ صاحب ، نواب صاحب مرحوم کی طرح کسی سے اتحاد کرتے ہیں نہ کوئی ان سے ۔ میاں صاحب نے انہیں اپنی بڑی مسلم لیگ میں جگہ نہیں دی ۔ ایسے میں عمران خان نے اپنے مشیروں کی ایک نہ سنی اور شیخ صاحب سے ان کی روایتی نشست پر تو اتحاد کر لیا ۔ انہیں جتوایا اور حکومت کی اپوزیشن پر لگا دیا ۔ اب ’’ظہرانہ مراکہ‘‘ اصلی او ر بڑی اپوزیشن توسیاسی رواداری کی ایسی اسیر ہوئی کہ حکومت کے خلاف کسک نہیں سکتی ، عوام روئیں دھوئیں یا ان سے رویا بھی نہ جائے۔ یا یوں سمجھ لیں کہ وہ ’’باری برینڈ جمہوریت‘‘ کی زلفوں میں الجھ گئی ۔
پاکستان کا حال بتا رہا ہے کہ ( اللہ بخشے ) نوابز ادہ نصر اللہ خاں جس شاہراہ جمہوریت پر بڑے بڑے سیاست دانوں کو اپنی بگّی میں سوارکیے جمہوریت کی منزل کی طرف گامزن تھے ، وہ شاہراہ جمہوریت تھی نہ شیخ صاحب فقط طعنے طشنے اور سیاسی دشنام طرازی سے اپنے ٹانگے کا رخ جس طرف کیے ہوئے ہیں ، وہ کوئی جمہوریت کی راہ ہے ۔ اصل کام اب عوام نے خود کرنا ہے ۔ اگر ان کے کچھ طبقوں میں اتنا شعور اور سکت ہے کہ وہ منظم ہو کر آئین کا مکمل نفاذ کرادیں اور قانون کا تمام طبقات پر یکساں اطلاق تو ہم جمہوریت کے تانگوںپر نہیں جمہوریت کی صحیح راہ پر بھی چل پڑیں گے اور اس کی تیز رفتار گاڑی پر بھی ،سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کو آئین کے مکمل نفاذ اور قانون کے یکساں اطلاق کی اہمیت کا احساس ہے ، اور وہ یہ جانتے ہیں کہ ہماری اس ناگزیر قومی ضرورت کا ہمارے بچوں کے محفوظ ، پر امن اور آگے بڑھتے رہنے والے مستقبل سے کیا تعلق ہے وہ ایک جگہ جمع ہوں ۔ شہر شہر تنظیم کریں ۔ آئین وقانون کے نفاذ کے سوال اٹھائیں اور اس کی خلاف ورزی پر سب مل کر شور اور انگلیاں بھی ۔ وکلاء کے تعاون سے عدالتوں کا رخ کریں ۔ عوام کو بالآخر حکومت مخالف اور کسی کی حامی نہیں ، آئین و قانون کی بالادستی کے لیے ایک تحریک چلانا ہی ہو گی ۔چل گئی تو نتیجہ خیز اس لیے ہوگی کہ میڈیا اور عدلیہ ان کے ساتھ چلیں ہی چلیں ۔ فوج بھی آئینی دائرے میں رہے ہی رہے ۔ ایک سوال یہ ہے کہ پہلا قدم کون اٹھائے؟ گمان ہے کہ وکلا ء اور اساتذہ کی تنظیمیں اور ملکی وسائل سے چلنے والی انسانی حقوق کے تحفظ کے فورم ، آپس میں رابطہ ضابطہ کر کے کوئی کم سے کم لیکن انتہائی بنیادی متفقہ اوراہم قومی ایجنڈا تشکیل دے لیں ، ٹارگٹ بنائیں اور ٹائم فریم طے کریں ، پھر منظم ابلاغی سر گرمیوں اور بذریعہ عدلیہ قانونی جدو جہد کا آغا ز کریں ۔ وگرنہ سیاست دانوں کی موجودہ لاٹ اپنے طور پرکبھی امیروں سے ٹیکس لے گی نہ زرعی اصلاحات ۔ تمام حالات سازگار ہونے کے باوجود ای گورننس رائج کی جائے گی نہ احتساب کا عمل تواتر اور مکمل غیر جانبداری سے ہوگا ۔ عدلیہ کے حکم سے بننے والے منتخب بلدیاتی ادارے سیاسی جماعتوں اور ان کی حکومتوں کے انتظامی چنگل سے نہیں نکل سکیں گے ۔ انتخابی دھاندلیوں کا رونا دھوناختم ہو گا نہ نیم دلانہ احتساب کا عمل نتیجہ خیز ہو گا ۔ سیاست دانوں کے جھوٹے وعدوں ، حواریوں کے تعریف و توصیف اور عوامی بہتری کے دکھاوے کے علامتی حکومتی اقدامات سے عوام کو کچھ بھلا نہ ہو گا ۔ نظام چمن یونہی چلتا رہے گا کہ اس کا پھل ایک طبقے کی آنے والے نسلوں کے لیے بھی محفوظ کیا جائے اور عوام کے بچے آوارہ جانوروں کی طرح گلیوں میں خوشی اور کوڑے کے ڈھیروں پر خوراک کی تلا ش یا حرکاروں کے ذرائع منافع کے لیے نیندیں اجاڑ اجاڑ کر نیم فاقہ کشی میں پسینہ بہاتے اورظلم سہتے رہیں ۔ ایسا نہ ہو کہ یہ چمن خاکم بد ہن مکمل اجڑ جائے ، اجاڑنے والے اڑ جائیں اور ہم رل جائیں۔ وما علینا الا البلاغ۔