• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی مفکّر نے کہا ہے کہ ’’قومیں کم زوری سے نہیں، بلکہ اندرونی تضاد سے بکھرتی ہیں۔‘‘ یہ بات نو آبادیاتی نظام سے آزاد ہونے والے کم وبیش تمام ممالک پر لاگو ہوتی ہے، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ ہمارا اجتماعی شعور ہنوز ایک مثلث ہے، جس کے ایک طرف نوآبادیاتی نظام کے اثرات، دوسری طرف جدید دنیا کے ساتھ چلنے کی خواہش اور تیسری طرف ہماری روایات کھڑی ہیں۔ یہ تینوں قوتیں بالعموم ایک دوسرے کے متضاد ہیں اور آگے بڑھنے کی ہر خواہش عموماً اسی مثلث کے اندر الجھ کر دَم توڑ دیتی ہے۔ 

ہماری کوشش ہوتی ہے کہ دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھیں، لیکن اکثر پہلا قدم ہی افسر شاہی نظام میں الجھ کے رہ جاتا ہے، اگر وہاں سے چُھوٹ جائیں، تو روایات آڑے آجاتی ہیں۔ پھر خیال آتا ہے کہ ماضی بہت بہتر تھا، اُسی طرف لوٹ جانا چاہیے، لیکن اس خیال کی پاداش میں جدّت پسند قوتوں کے ساتھ کشمکش شروع ہوجاتی ہے اور ان تمام قوتوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کرنے والے الجھن میں مبتلا ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہی کچھ ہمارے یہاں تشکیل دی جانے والی تمام پالیسیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ 

ہر حکومت برسرِاقتدار آتے ہی کسی نئی پالیسی پر کام شروع کردیتی ہے اور پھر کئی سال کی تگ و دو کے بعد جب اس کے نفاذ کی کوششیں شروع ہوتی ہیں تو حکومت کا خاتمہ ہوجاتا ہے یا اُسے زبردستی گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ جس کے بعد پچھلی حکومت کے منصوبے لپیٹ کر ایک نئی پالیسی پر کام شروع کردیا جاتا ہے اور اس بات کی کسی کو قطعی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ عوام کیا چاہتے ہیں؟ اربابِ اختیار کی اصل خواہشات کیا ہیں؟

قومیں علم و عمل سے سیراب ہوکر پھلتی پُھولتی ہیں۔ ایک مربوط تعلیمی نظام کے بغیر ایک اچھی قوم پروان نہیں چڑھ سکتی، لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم سات دہائیاں گزرنے کے باوجود ایک ہمہ جہت تعلیمی نظام تشکیل نہیں دے سکے۔ لفظ ’’اقراء‘‘ سے شروع ہونے والی تہذیب کے تحت اپنے بچّوں کو ابتدائی تعلیم دینے کے لیے بھی ہم بین الاقوامی اداروں کی محتاج ہیں۔ 

اس سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ مغربی ممالک کے دیئے ہوئے فنڈز سے اسکول تو تعمیر ہوجاتے ہیں، لیکن اُن اسکولوں میں درس و تدریس کے لیے اساتذہ اور تعلیمی انفرااسٹرکچر پر کوئی توجّہ نہیں دی جاتی۔ نتیجتاً پہلے آہستہ آہستہ چار دیواری گرتی ہے، پھر فرنیچر اور پنکھوں کی باری آتی ہے اور بالآخر اسکول کے نام پر چند خالی کمرے ہی رہ جاتے ہیں، جہاں اہلِ علاقہ اپنے پالتو جانور باندھ لیتے ہیں۔

2018ء میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت آئی تو بڑے جوش و خروش کے ساتھ یک ساں قومی نصاب کا نعرہ لگایا گیا۔ یہ منصوبہ نَو منتخب وزیر اعظم عمران خان کے انقلابی منصوبوں میں سے ایک تھا، جسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی ذمّے داری وزیرِ تعلیم شفقت محمود کے کاندھوں پر ڈالی گئی۔ تاہم، دہائیوں سے جمود کا شکار سرکاری محکموں کو آمادہ بہ عمل کرنا کوئی آسان کام نہ تھا، لہٰذا ایک طویل عرصہ اسی کوشش میں صرف ہوا۔ فائل اِدھر اُدھر آتی جاتی رہی، پھر اس حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔

اس کے متعدد اجلاس ہوئے۔ شروع میں منصوبہ یہ تھا کہ پورے ملک کے سرکاری و نجی اسکولوں اور دینی مدارس کے لیے ایک ہی نصاب تیار کیا جائے، جس میں سائنسی و غیر سائنسی علوم کا جدیدو جامع مواد شامل ہوگا۔ مذکورہ منصوبہ دو مراحل میں مکمل ہونا تھا، پہلا نصاب کی تیاری اور دوسرا اس کا نفاذ۔ تاہم، بعدازاں اس کا نتیجہ بھی ڈھاک کے تین پات کی صُورت نکلا۔

پاکستان میں بنیادی طور پر کئی اقسام کے تعلیمی نظام موجود ہیں۔ ایک نظام اشرافیہ اور اپَرمڈل کلاس کے اسکولوں کا ہے، جہاں عموماً پچیس ہزار روپے سے بھی زیادہ فیس لی جاتی ہے۔ بات گرچہ تلخ ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ ادارے بنیادی طور پر اشرافیہ کے تحفّظ کے نوآبادیاتی نظام ہی کا تسلسل ہیں۔ متموّل اور بااثر طبقے کی نئی پود میں احساسِ برتری اور خوئے حکمرانی اس تعلیمی نظام کے اضافی اثرات ہیں۔ 

اس کے بعد چھوٹے بڑے نجی تعلیمی اداروں کا اجارہ داری نظام ہے- اگرچہ ملک بھر میں سرکاری اسکولز موجود ہیں، مگر شومئی قسمت، سرکار کی غفلت کے سبب یہ عوام کی ترجیحات میں سب سے پیچھے نظر آتے ہیں۔ چوتھا نظام، دینی مدارس کا ہے، جہاں انتہائی قلیل آمدنی والے طبقے سے تعلق رکھنے والے تقریباً تیس لاکھ بچّے زیرِتعلیم ہیں، لیکن وطنِ عزیز کے طول و عرض میں پھیلے ان تین چار قسم کے نظاموں میں کوئی قدر مشترک نہیں۔ ہر نظام ہر معاملے میں ایک دوسرے سے اس قدر الگ ہے کہ ان اداروں سے پڑھ کر نکلنے والے نوجوانوں کے لیے زندگی کے اگلے مراحل میں ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت پیدا کرنا ازحد مشکل نظر آتا ہے۔ 

نتیجتاً مختلف طبقوں کے درمیان پائی جانے والی ذہنی، معاشرتی، معاشی اور طبقاتی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی ہے۔ اس خلیج کو پاٹنے کے لیے گزشتہ حکومت کا تشکیل کردہ یک ساں نصاب کا منصوبہ یقیناً قابلِ تعریف ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس منصوبے کا حشر بھی وہی ہوا، جو اس سے پیش تر منصوبوں کا ہوتا آیا ہے۔ علاوہ ازیں، مختلف طبقاتِ فکر یا متعلقین جب فیصلہ سازی کے عمل میں شامل ہوئے تو منصوبے کے بنیادی خدوخال ہی بدلنے لگے۔ 

مختلف طبقہ ہائے فکر سے نصاب کے متعلق رائے مانگی گئی، تو اس میں اتنا بُعد نظر آیا کہ ان تمام طبقات کو ایک صفحے پر لانا تقریباً ناممکن ہوگیا۔ ایک طبقے کے مطابق، اس نصاب میں مذہبی عُنصر حد سے زیادہ شامل کردیا گیا ہے، جب کہ دوسرے کے نزدیک، اس میں سیکولر تصوّرات اور لادینی عناصر کی بہتات ہے۔ نئے نصاب کی تیاری کے اگلے مراحل میں یہ عقدہ بھی کُھلا کہ 70 سال گزرنے کے بعد بھی ملک بھر کے ٹیکسٹ بُک بورڈز کے اندر نصاب سازی کی صلاحیت اگر مفقود نہیں، تو بے حد محدود ضرور ہے۔ علاوہ ازیں، مختلف طرز کے اسکولوں میں پایا جانے والا تنوّع بھی یک ساں نصاب کی تیاری میں رکاوٹ بنا۔ 

اشرافیہ کے اسکولوں میں پڑھائی جانے والی کتابیں سرکاری اسکولوں کے اساتذہ نہیں پڑھا سکتے۔ نجی اسکولوں کی جانب سے بجا طور پر اعتراض کیا گیا کہ حکومت اپنا معیارِ تعلیم بلند کرنے کی بجائے نجی اسکولوں کا معیار پست کرنا چاہتی ہے۔ ان تمام وجوہ کو دیکھتے ہوئے آخرکار اس کا حل یہ نکالا گیا کہ کچھ بنیادی نکات متعین کردیے جائیں اور تمام اداروں کو ان کے مطابق اپنا اپنا نصاب بنانے کی اجازت دے دی جائے۔ چناں چہ ان ہی نکات کے مطابق سرکار نے اپنی کچھ کتابیں تیار کرلیں اور نجی ادارے اپنا نصاب بنانے میں لگ گئے۔

اگلا مرحلہ تیار ہونے والے نصاب کے نفاذ کا تھا۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت چوں کہ تعلیمی نظام کا اختیار صوبوں کو دے دیا گیا ہے، لہٰذا اس ضمن میں سب سے پہلے صوبۂ سندھ سے ردّعمل سامنے آیا اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے مذکورہ نصاب صوبہ سندھ میں رائج کرنے سے انکار کردیا، لیکن اس سے بڑھ کر معاملہ انتظامی نااہلی کا ہے۔ پاکستان چوں کہ تیسری دنیا کے اُن ممالک سے تعلق رکھتا ہے، جو برطانوی نوآبادیات کے زیرِتسلّط رہے ہیں، تو ان ممالک کی یہ خصوصیات رہی ہیں کہ یہاں تہہ دَر تہہ طبقات نے جنم لیا، جن کی ظاہری و باطنی طور پر حکومتی سطح پر حوصلہ افزائی کی گئی۔ اُن طبقات میں یہ شعور بھی بیدار کیا گیا کہ انہیں ہر حالت میں اپنی حدود کو وسیع کرنا ہے اور ایک فاتح کی طرح ان حدود کی حفاظت کے لیے بیریئر قائم کرنے ہیں۔

ہمارے ملک میں، ان میں سے ایک طبقہ بیوروکریسی کے زمرے میں آتا ہے، چناں چہ جہاں بھی عوامی یا سیاسی سطح پر یک ساں تعلیمی نصاب کی کوشش کی جاتی ہے، بیوروکریسی قانونی اور انتظامی سطح پر اس کوشش کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ علاوہ ازیں، اسے طاقت فراہم کرنے والے وہ طبقات بھی ہیں، جن کے اپنے وسائل بیرونی ممالک میں موجود ہیں اور پاکستان کو وہ ایک فارم ہاؤس کے طور پر اپنی تفریحات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ 

برّصغیر کے ایک دانش وَر نے اسی طبقاتی تقسیم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’یہاں تمام والدین اپنے بچّوں کو ایک جوئے کی طرح لیتے ہیں اور انہیں یہ سوچ کر تعلیم دلواتے ہیں کہ کل انہیں اس انویسٹمنٹ کا منافع ملے گا۔‘‘ یہی وہ کاروباری سوچ ہے، جو تمام والدین میں جنم لے چکی ہے۔ اس نے پاکستان کے تعلیمی نظام کو علم کی ترویج کے بجائے زرِ نقد اکٹھا کرنے کا ذریعہ بنادیا ہے، لہٰذا جب تک یہ سوچ ہمارے مقتدر اور غیر مقتدر حلقوں میں باقی رہے گی، یک ساں نصاب کی ہر کوشش ناکام ثابت ہوگی۔

ان تمام مسائل کے مقابلے میں ہمیں ایک پختہ سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔ ہمارے سیاسی رہنماؤں میں یہ شعور پیدا ہونا بہت ضروری ہے کہ بحیثیت قوم ہمیں کم از کم تعلیم کے حوالے سے ایک ایسی ہمہ جہت پالیسی بنانے کی ضرورت ہے، جس پر تمام سیاسی جماعتیں متفّق ہوں، تاکہ اس میدان میں کی جانے والی کاوشیں تسلسل کے ساتھ جاری رہ سکیں۔ مزید برآں، اس پالیسی میں ایک جدید نصاب اور اساتذہ کی مہارت سازی کو بنیادی نکات کے طور پر شامل کیا جائے تاکہ تعلیمی سفر بہتری کی جانب گام زن ہوسکے۔ 

تاہم، موجوہ سیاسی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا، کیوں کہ تعلیم تو عام حالات میں بھی ہماری سیاسی ترجیحات کا حصّہ نہیں بن پاتی، تو ایسے غیریقینی حالات میں یقیناً اربابِ اختیار کی توجّہ دوسرے ’’اہم‘‘ معاملات کی طرف ہی ہوگی، تاہم امید کی جاسکتی ہے کہ جلد یا بدیر ہماری قیادت اپنی اصل ذمّے داریوں کا احساس کرکے اس سمت میں درست قدم اٹھائے گی، تاکہ ہماری قوم بھی آگے بڑھ کر مہذب قوموں کے ساتھ اپنا سفر شروع کرسکے۔

سنڈے میگزین سے مزید