محکمۂ داخلہ پنجاب کے تحت 36اضلاع میں کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کے 38 نئے تھانے قائم کیے گئے ہیں۔ لاہور میں،`3جب کہ باقی تمام اضلاع میں ایک ایک تھانے کا قیام عمل میں آیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ نئے تھانوں کے قیام سے جرائم کی روک تھا، اور قیام امن میں مدد ملے گی۔ کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کو سنگین جرائم کی سرکوبی کے لیے جدید خطوط پر استوار کیا جارہا ہے۔ حکومتِ پنجاب قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہر ممکن مدد اور جدید آلات فراہم کر رہی ہے۔
پولیس کی کارکردگی میں بہتری ،امن و امان کا قیام اور عوامی اعتماد کی بحالی کے لیے ڈیپارٹمنٹ کا قیام بہت ہی احسن اقدام ہے۔ واضح رہے کہ سی سی ڈی کو ایف آئی آر کے اندراج، تحقیقات اور کارروائی کا اختیار حاصل ہے، نیز منظم جرائم، منشیات کے خاتمے، اغوا برائے تاوان، بھتّا خوری، ڈکیتی، قتل، زمینوں پر قبضے کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کے حوالے سے خصوصی اختیارات تفویض کردیئے گئے ہیں اور اپریل 2025ء سے قانونی حیثیت ملنے کے بعد سی سی ڈی نے باضابطہ کارروائیوں کا آغاز بھی کردیا ہے۔
یعنی سڑکوں اور بازاروں میں دندنانے اور شریف شہریوں کی زندگی کو عذاب بنانے والے ان غنڈوں کو یہ ڈیپارٹمنٹ بطریقِ احسن نکیل ڈال رہاہے۔ تاہم، ضرورت اس امر کی ہے کہ جرائم کی مجموعی صورتِ حال کا تحقیقی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے۔
جرائم صرف چوری، ڈکیتی اور قتل وغارت گری تک محدود نہیں، اور محض بدنامِ زمانہ جرم ہی جرائم میں ملوث نہیں ہیں یا ایسا بھی نہیں ہے کہ کچھ مخصوص شعبے ہیں جن میں جُرم وقوع پذیر ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے کوئی شعبہ ایسا نہیں بچا، جِس میں کسی نہ کسی حد تک جُرم نہ ہوتا ہو۔ کہیں زیادہ، کہیں کم، مگر جُرم نے ہر جگہ اپنے پاؤں جمالیے ہیں۔
مختلف قسم کے جرائم کی رفتار میں اضافے کی شرح کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1957ء میں ڈکیتی کی وارداتوں کی شرح33فی صد تھی، جو 1994ء میں بڑھ کر 50 فی صد اور 1999ء میں 80فی صد سے تجاوز کرگئی۔ اغوا کی وارداتوں میں 1982ء کے بعد تیزی سے اضافہ ہوا اور اغوا برائے تاوان، جرائم پیشہ افراد کے لیے آمدن کا ایک زبردست ذریعہ بن گیا۔ 1980ءکے بعد سے اب تک ملک میں بے گناہ انسانوں کا جتنا قتل عام ہوا ہے، ان سے متعلق سوچ کر ہی روح لرز جاتی ہے۔
قتل، ڈکیتی اور دیگر وارداتوں میں سال بہ سال اضافہ ہی ہورہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جرائم میں مسلسل اضافہ، امن و امان کی دگرگوں صورت حال کے حوالے سے بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اکثر خطرناک مجرم سنگین سے سنگین جرم کرنے کے باوجود آسانی سے رِہا ہوجاتے ہیں، جس سے مجرموں کے حوصلے بڑھتے ہیں، جب کہ شریف شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھتا ہے۔ سو، جرائم کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ محکمۂ پولیس میں اہم بنیادی اصلاحات کے ساتھ کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کو بھی تفتیش کے جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔