امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے20 نکاتی منصوبے کو غزہ میں جنگ بندی اور دو ریاستی حل کے ضمن میں ایک اہم سفارتی کوشش قرار دیا جا رہا ہے، تو دوسری طرف اس پر مختلف نوعیت کے تحفّظات بھی سامنے آئے ہیں۔ ایک حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اس منصوبے کا خیر مقدم عرب دنیا، مسلم ممالک اور یورپ نے کیا، جو کسی نہ کسی طریقے سے اِس بحران میں شامل ہیں۔ چاہے علاقائی طور پر یا تاریخی اور مذہبی حوالے سے۔
غزہ میں جنگ شروع ہوئے دو سال ہوگئے ہیں اور اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں 66ہزار سے زاید شہری شہید ہوچُکے، جب کہ لاکھوں زخمی اور بے گھر ہیں۔ گزشتہ ماہ ہونے والا اقوامِ متحدہ کا جنرل اسمبلی اجلاس اِس مرتبہ غزہ کی جنگ پر مرکوز رہا اور سائیڈ لائنز پر ہونے والی تمام ملاقاتوں کا فوکس بھی یہی رہا کہ کسی طرح یہ جنگ رکوائی جائے اور بے گناہ شہریوں کا قتلِ عام بند ہو۔ خاص طور پر، رہنماؤں کی کوشش رہی کہ دو ریاستی حل کی طرف بڑھا جائے، جس میں فلسطینیوں کے تحفّظ کی راہ نکل سکے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے پلان کا اعلان کرنے سے پہلے تمام اسٹیک ہولڈرز، علاقائی پلیئرز، خاص طور پر عرب دنیا کے اہم ممالک کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔ اِس سے قبل یورپ اور مغربی دنیا کے اہم ممالک نے، جن میں برطانیہ اور فرانس بھی شامل تھے، اسرائیل پر سفارتی دباؤ بڑھانے کے لیے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ گو کہ اِس اقدام کا کوئی فوری اثر تو نہیں ہوا، تاہم یہ اسرائیل کے لیے ایک علامتی پیغام ضرور ہے۔
صدر ٹرمپ کے غزہ منصوبے کو اسرائیل نے تسلیم کیا، جو اِس قسم کی اب تک کی تمام کوششوں کو مسترد کرتا آ رہا ہے۔ دوسری جانب، عرب اور مسلم دنیا کے اہم ممالک نے نہ صرف اس منصوبے کی حمایت کی، بلکہ اس میں فعال کردار ادا کرنے کی پیش کش بھی کی، جیسے غزہ میں جنگ بندی پر عمل درآمد کے لیے قائم کی جانے والی امن فوج میں شمولیت۔ البتہ، قطر اور پاکستان سمیت مسلم ممالک نے اِس منصوبے میں مزید ترامیم پر بھی زور دیا، خاص طور پر غزہ سے اسرائیل کی واپسی کے ٹائم فریم کا مطالبہ سامنے آیا۔
یورپ کے تمام رہنماؤں نے ٹرمپ پلان کو ایک اہم اور اچھی پیش رفت قرار دیا۔ جس قسم کی خون ریز جنگ غزہ میں دو سال سے جاری ہے، اس میں سب اِس امر پر متفّق ہیں کہ پہلا اہم قدم قتلِ عام کو رکوانا ہے اور اُس صُورتِ حال میں تبدیلی لانا ہے، جو قحط اور محاصرے کی بدترین شکل اختیار کرچکی ہے۔ اور بظاہر اِس بحران سے نکلنے کا کوئی حل بھی نظر نہیں آرہا۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ دنیا بَھر کے زیادہ تر ممالک مذمّتی بیانات دے رہے ہیں، لیکن ان کا اسرائیل پر ذرہ بھر اثر نہیں ہوا۔ چھوٹی بڑی طاقتیں دُکھ اور رنج کا اظہار تو بہت کرتی ہیں، لیکن عملی طور پر کوئی بھی اسرائیل کا ہاتھ روکنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے میں صدر ٹرمپ کا 20نکاتی پلان فی الحال غزہ کی جنگ بند کروانے کی واحد ٹھوس سفارتی کوشش ہے۔ اِسی لیے زیادہ تر ممالک نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اُن کا غزہ امن منصوبہ ممکنہ طور پر تاریخ کے عظیم منصوبوں میں سے ایک ہے اور یہ مشرقِ وسطیٰ میں دائمی امن لاسکتا ہے۔ اب یہ دعویٰ کس حد تک درست ہے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتاسکتا ہے، تاہم غزہ کی خوف ناک خون ریزی میں اِسے تمام تر تحفظّات کے باوجود، ایک اہم سفارتی پیش قدمی ضرور قرار دیا جاسکتا ہے۔ نیز، اِس منصوبے کی اہمیت اِس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ اِس کے متبادل کے طور پر اب تک کوئی دوسرا منصوبہ کسی عالمی یا علاقائی فورم پر کسی بڑی طاقت کی طرف سے نہیں آیا۔
یہ پلان ایک ایسی کوشش ہے، جو مرحلہ وار جنگ بندی اور امن کی راہ ہم وار کرسکتا ہے۔ اس منصوبے میں لڑائی روکنے، اسرائیل کے محدود انخلا کے ساتھ، حماس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ تمام یرغمالیوں کو رہا کرے، جس کے بدلے اسرائیل کی قید میں موجود سیکڑوں فلسطینی قیدی رہا کیے جائیں گے۔ اِس منصوبے کی ایک اہم شق غزہ میں عبوری حکومت کے قیام سے متعلق ہے، جو روز مرّہ امور کے ساتھ، بحالی کے معاملات دیکھے گی۔ یہ ایک ٹیکنوکریٹک حکومت ہوگی، جس کی نگرانی ایک بورڈ آف پیس کرے گا، جس کا ہیڈکوارٹر مصر میں ہوگا۔
پُرامن رہنے کا عہد کرنے والے حماس کے ارکان کو عام معافی دی جائے گی اور ایسا نہ کرنے والوں کو جلاوطن کیا جائے گا۔ غزہ سے مسلّح تنظیموں کا خاتمہ کیا جائے گا اور اُن سے ہر صُورت ہتھیار لیے جائیں گے۔ ٹڑرمپ منصوبے کے مطابق اِس طرح کے اقدامات سے فلسطینی ریاست کے قیام میں مدد ملے گی اور مرحلہ وار اُس جانب بڑھا جاسکے گا۔ مغربی کنارے میں قائم فلسطین اتھارٹی میں اصلاحات کی جائیں گی، جو آگے چل کر فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ٹھوس راستے ہم وار کرے گی۔
عرب ممالک، جو علاقے کے اہم ترین کھلاڑی اور اِس معاملے کے براہِ راست متاثرین بھی ہیں، ٹرمپ منصوبے کو اپنے لیے ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس کی کئی وجوہ ہیں۔اوّل تو یہ کہ وہ اپنے کسی بھی فورم پر، جیسے او آئی سی، عرب لیگ یا خلیج تعاون کاؤنسل، وغیرہ میں اب تک کوئی ایسا ٹھوس منصوبہ پیش نہیں کرسکے، جو غزہ میں جنگ بند کروا سکے۔ اِس پس منظر میں ٹرمپ امن منصوبہ اُن کے لیے کسی موقعے سے کم نہیں اور وہ اِس موقعے سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کے خواہش مند ہیں۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ ٹرمپ پلان میں فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق کوئی واضح روڈ میپ موجود نہیں، تاہم اُس منزل کی جانب شروعات کے طور پر کم ازکم کچھ اقدامات کا تو ذکر ہے، جو موجودہ صُورتِ حال میں کسی حد تک غنیمت ہے کہ اسرائیل کوئی بات سُننے پر آمادہ نہیں ۔ مسلم ممالک پر اُن کے عوام کی جانب سے تنقید ہو رہی ہے کہ وہ غزہ میں کسی قسم کا عملی کردار ادا کرنے سے قاصر رہے۔
غزہ میں اسرائیلی بربریت اپنی بدترین شکل میں جاری ہے، جب کہ مسلم دنیا سے ریلیوں، جلسوں، مذمّتی بیانات اور پُرجوش تقاریر کے سِوا کوئی چیز سامنے نہیں آئی۔ ٹرمپ پلان میں جس عبوری حکومت کا خاکہ پیش کیا گیا ہے اور جو مصر سے کام کرے گی، وہ غزہ کے عوام کو امن دینے کی جانب ایک اہم اور ٹھوس قدم ہوگا۔ یہ حکومت کھنڈر بنے شہر کی بحالی میں بھی کردار ادا کرے گی۔ مختلف اندازوں کے مطابق غزہ کی بحالی کے لیے پچاس ارب ڈالرز درکار ہوں گے۔
گزشتہ دنوں اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے اُس بیان کا بہت چرچا رہا کہ زمینی حملے سے غزہ کو فتح کرکے اسرائیل میں ضم کردیا جائے گا۔اب ٹرمپ پلان میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اسرائیل، غزہ پر قبضہ نہیں کرے گا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ٹرمپ، اسرائیل سے اپنی بات منوا کر اسے انتہائی قدم سے باز رکھنے میں کام یاب رہے، جو یقیناً علاقے اور دنیا کے لیے مزید پریشان کُن ہوتا۔
اِس پلان میں سیکیوریٹی کے نقطۂ نظر سے اسرائیل کا ایک محدود علاقے میں کردار کا ذکر ہے۔اِس حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ جیسے جیسے منصوبے پر سفارت کاری ہوگی، تو اِس شق پر بھی بات چیت ہوسکے گی۔ صدر ٹرمپ کی ایک کام یابی یہ بھی نظر آتی ہے کہ اُنہوں نے قطر کا ثالثی کردار بھی بحال کروادیا۔ ٹرمپ، نیتن یاہو ملاقات کے دوران اسرائیلی وزیرِ اعظم نے فون کرکے حملے پر معذرت کی اور یقین دلایا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔
قطر کے وزیرِ اعظم نے اسے قبول کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اُن کا مُلک حماس، اسرائیل مذاکرات میں اپنا کردار جاری رکھے گا۔ ایک طرح یہ امریکا کا قطر اور عرب ممالک کے لیے واضح پیغام تھا کہ امریکا اُن سے دوستی اور اُن کی سلامتی کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ اِس اقدام سے مشرقِ وسطیٰ میں امریکا کے سکڑتے کردار سے متعلق جو بحث شروع ہوئی تھی، اُس میں بھی کمی واقع ہوئی۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ امن منصوبے میں صاف کہا گیا ہے کہ غزہ کے معاملات میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ اِس تنظیم کے ارکان اپنے پاس کسی نوعیت کا کوئی اسلحہ رکھ سکیں گے اور نہ ہی انتظامی معاملات میں ان کا کوئی حصّہ ہوگا۔ دوسرے الفاظ میں امن معاہدے کے تحت وجود میں آنے والا غزہ، حماس کے بغیر ہوگا۔ ویسے بھی دو سال کے دوران غزہ جس تباہی سے گزرا ، اُس تناظر میں حماس بھی عوامی طور پر خاصی دباؤ میں ہے، کیوں کہ بہرحال وہاں کے عوام نہایت سخت دن گزارنے پر مجبور ہیں۔
انفرااسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوچُکا ہے اور بدترین اسرائیلی محاصرے کے سبب پورے علاقے میں غذائی قحط کے مناظر ہیں۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے حماس کو جواب کے لیے چار دن دئیے گئے تھے، مگر یہ سطور تحریر کرتے وقت تک حماس کی جانب سے کوئی باقاعدہ جواب سامنے نہیں آیا، جب کہ علاقے میں امریکا اور اسرائیل کی فوجی نقل و حرکت میں اضافہ بھی نوٹ کیا گیا، تو عین ممکن ہے کہ اِن سطور کی اشاعت تک مشرقِ وسطیٰ میں کوئی نئی صُورتِ حال جنم لے چُکی ہو، مگر یہ واضح رہے کہ ہمارا یہ مضمون، صدرٹرمپ کے منصوبے کے نکات کے تجزیے تک محدود ہے۔
گو کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی پوری دنیا مذمّت کرتی ہے، لیکن اقوامِ متحدہ کے حالیہ اجلاس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ دنیا کے پاس ایسا کوئی عملی طریقہ موجود نہیں، جس سے وہ یہ جارحیت رکوا سکے، جب کہ اِس وقت بنیادی بات یہی ہے کہ غزہ کے شہریوں کو کسی طرح قتلِ عام اور قحط سے نجات دلوائی جائے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ تمام تر ہم دردی، بیانات اور قرار دادوں کے باوجود، غزہ کے بے بس و مجبور شہریوں کے لیے کچھ نہیں کیا جاسکا۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ فلسطینی، ٹرمپ امن منصوبے کے بارے میں کیا مؤقف رکھتے ہیں، اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ اقوامِ متحدہ کا ایسے الجھے ہوئے مسائل میں یہ طریقۂ کار رہا ہے کہ وہ متاثرہ علاقے میں امن فورس کے ذریعے لڑائی بند کرواتی ہے، پھر مقامی افراد پر مشتمل ایک عبوری حکومت قائم کی جاتی ہے، جو انتخابات کروا کے نئی قیادت کو اختیارات سونپ دیتی ہے۔
یہ ایک طرح سے آزاد اور خود مختار ریاست کو عملی طور پر دنیا میں مقام دلانے کا روڈ میپ ہوتا ہے۔مگر یہاں مشکل یہ ہے کہ کوئی باقاعدہ ریاست موجود نہیں ہے۔ گویا پہلے مغربی کنارے اور غزہ کو ملا کر ریاست بنانی ہوگی، جیسے پہلے تھی۔اب اس عمل میں جب تک فلسطینیوں کی لیڈر شپ تسلیم شدہ نہ ہو، اُس وقت تک کوئی بھی پلان لے آئے، اُس پر تنقید ہوتی رہے گی اور طرح طرح کے مسائل کھڑے ہوتے رہیں گے۔ اِس لیے اگر غزہ میں عبوری ٹیکنوکریٹک حکومت قائم ہو بھی جاتی ہے، تو اس کا بنیادی کام بحالی اور الیکشن ہی ہونا چاہیے، کیوں کہ کسی بڑے فیصلے کے لیے فلسطینیوں کی واضح اور مستند لیڈرشپ کا ہونا بے حد ضروری ہے۔
صدر ٹرمپ کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اُنہوں نے غزہ کے معاملے پر واقعی سفارتی کوششیں کیں۔ عرب، اسرائیل اور یورپ کو ایک پیج پر لائے، جس میں پلان پیش کرنے کی حد تک تو وہ کام یاب ہیں کہ تقریباً پوری دنیا نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔ ٹرمپ پلان پر تنقید بھی ہو رہی ہے اور ہونی بھی چاہیے کہ اِس میں کئی سقم موجود ہیں، جنہیں دور کیے بغیر امن کا قیام خواب ہی رہے گا، لیکن یہ امر بھی پیشِ نظر رہے کہ اِس کے علاوہ کون سا منصوبہ غزہ کے عوام کو بدترین حالات سے نکالنے کے لیے موجود ہے؟
یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کی جاسکتی کہ پوری دنیا میں اسرائیل کی پُشت پناہی بھی امریکا اور خود صدر ٹرمپ کر رہے ہیں، لیکن دوسری طرف ٹرمپ ایک ایسا پلان لے کر آئے ہیں، جو وسیع اور طویل مشاورتی عمل سے گزرا ہے۔اس میں علاقائی اور عالمی پلیئرز کے ساتھ، بنیادی فریق بھی شامل ہیں۔یہ کہنا کہ اُس نے خیر مقدم کیا اور اُس نے مسترد کردیا، اِس سے کیا کوئی دوسرا حل نکل سکتا ہے؟
اگر ٹرمپ پلان پر سفارتی کوششیں جاری نہیں رہتیں، تو پھر غزہ کی لڑائی، وہاں کا قتلِ عام اور قحط کیا احتجاجی ریلیوں سے ختم ہوجائے گا؟اور اگر ایسا نہیں ہوتا، تو غزہ کے عوام پر کیا گزرے گی، اِس کا بھی احساس کرنا چاہیے۔ یقیناً ٹرمپ پلان، فلسطینی ریاست کے قیام یعنی دو ریاستی حل کو فوری تقویت نہیں پہنچائے گا، لیکن کم ازکم اُس کی جانب بڑھنے کے راستے کھولنے میں ضرور مدد کر سکتا ہے۔
اِسی لیے دنیا کے بیش تر ممالک اس کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ مسلم ممالک اور یورپ کو فلسطین کی متحدہ قیادت اُبھارنے کے مواقع پیدا کرنے چاہئیں، تب ہی پھر فلسطینیوں کے لیے اپنی خواہشات کے مطابق آگے بڑھنا ممکن ہوگا۔ بہرحال، فلسطین کو کیسا ہونا چاہیے اور وہ کس طرح رہنا چاہتے ہیں، اِس کا فیصلہ فلسطینیوں کو خود کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔