• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نہ جانے کیوں، مَن اندر اکیلے گھومنے پھرنے کی ایک تشنگی سی تھی۔ اُس صبح ہم نے سعدیہ کے ہاتھ پکڑ لیے کہ ’’میرا پنجرا کھول دے ،مجھے آزاد کردے، قلانچیں بھرنے دے ۔ میرے اندر کی بے چینی و اضطراب کو تسکین پانے دے۔‘‘صدقے جائوں اپنی نورِ چشم کے، جوبے چاری ہمارا منہ دیکھ رہی تھی۔شاید سوچ رہی ہو گی کہ ’’میری ماں پاگل ہوگئی ہے ۔ جب تک اسے اجازت نہیں دوں گی، جان سولی ہی پر اٹکی رہے گی۔‘‘اور ماں کو دیکھو، جو اپنے طور پر جزبز ہورہی تھی۔’’ ارے بھئی، بے شک ہم بوڑھے ہوگئے ہیں۔مانا کہ اجنبی مُلک ہے ، تو کیا ہوا، یہ سب ہمارے لیے کچھ نیا ہے کیا؟‘‘ ہم نے سعدیہ کو پریشان دیکھ کرپوچھا۔ ’’ہم تھین آن من اسکوائر (Tiananmen Square) اکیلے گھومنا چاہتے ہیں،وہاں موجود بچّوں کی قبریں بھی دیکھنی ہیں۔ 

ذہن میں بے شمار سوال کلبلا رہے ہیں، جن کے جواب وہیں بیٹھ کر سوچنے اور خود کو دینے ہیں۔‘‘ ہم نے سعدیہ کو اپنا پروگرام بتایا۔ ’’چلیں، آپ اکیلے گھومنا چاہتی ہیں، تو گھوم لیں، لیکن مَیں آپ کو وہاں خود چھوڑ کر آؤں گی اور آپ بھی وعدہ کریں کہ زیادہ دُور نہیں جائیں گی اور ہاں، گھر کا پتا سنبھال کر رکھیے گا۔‘‘ سعدیہ نے تاکید کی، تو اس کی باتوں اور انداز میں ہمیں اپنی ماں کی جھلک دکھائی دی۔ اگلے روز ہم تیار ہوئے اور وہ ہمیں تھین آن من اسکوائر چھوڑ آئی۔ اس کے جانے کے بعد ہم کِھلکھلا کر ہنسے اور گردوپیش کو چاہت سے دیکھا۔موسم میں خنکی، دھوپ میں نرمی تھی۔ہمارے چھوٹے سے بیگ میں چھوٹی سی بوتل، جس میں چائے تھی،شامی کباب اور خشک میوہ تھا۔کچھ دیر بیٹھ کر اپنی آزادی کا جشن منایا، پھر خود سے پوچھا۔’’اب کہاں سے شروع کرنا ہے؟‘‘تو جواب ملا، ’’پہلے مائو دیکھ لیاجائے۔‘‘مقبرہ اسی جگہ بنایا گیا ہے، جہاں کبھی ’’گیٹ آف چائنا‘‘ تھا۔ 

اسکوائرکمال وسعتوں کا حامل تھا۔اس وقت صبح ہونے کے باوجود بہتیرے لوگ وہاں موجود تھے۔مقبرے کے سامنے لوگوں کی طویل قطار دکھائی دے رہی تھی۔ یہاں بہت رَش تھا، شاید کوئی اسکول، کالج وغیرہ ٹرپ پر آیا ہوا تھا۔ مرکزی دروازے کے پاس ہی گُل دستے قطار دَر قطار سجے تھے، جنہیں لوگ خرید رہے تھے۔ہم نے بھی وہاں سے تین یوان میں ایک چھوٹا سا گُل دستہ خریدا، اسے اپنے بازوئوں میں سنبھالا اور زرد روشنی میں مجسمّوں کی طرح ساکت کھڑے گارڈز کے بیچ سے دھیرے دھیرے آگے بڑھتے گئے۔ بڑے دروازے سے اندر جاتے ہی ایک شان دار کمرے میں مائو کا سفیدبرّاق سنگِ مرمر کا مجسمّہ کرسی پر براجمان نظرآیا، تو ہم نے وہیں اس کے قدموں میں پھول رکھ دئیے۔ 

بعد میں پتا چلا کہ یہ پھول واپس اسی اسٹال پر پہنچا دئیے جاتے ہیں، جہاں سے ہم نے خریدے تھے۔فراخ پیشانی والا مائو ایک شوکیس میں سجا چِین کے قومی پرچم میں لپٹا ابدی نیند سورہا تھا۔ساری بنگالی سہیلیاں یاد آگئیں، جو اس کے نغمے گاتی تھیں۔مائو نے اپنے جسم کو جلانے کی خواہش کی تھی، مگر پرستاروں اور عقیدت مندوں نے اسے محفوظ کردیا۔اسی طرح جیسے لینن نے بھی ایسا نہیں چاہا تھا، اس کی بیوی واویلا کرتی رہ گئی کہ اُس کے نظریات اور فرمودات پر عمل کی ضرورت ہے، مگر اسٹالن جیسا شاطر لیڈر لاش پر سیاست کرنے کا متمنّی تھا۔ خیر، اس موقعے پرہمیں مائو کی چینی خواتین کو خراجِ عقیدت پیش کرنے والی ایک نظم بہت شدّت سے یاد آئی، جو ہم نے دو دن پہلے ہی پڑھی تھی۔؎ پانچ فٹ لمبی رائفلوں کو کندھوں پر لٹکائے…وہ کتنی خُوب صُورت اور شان دار نظر آتی ہیں…چِین کی بیٹیوں کے عزائم بہت بلند ہیں…صبح کی اوّلین مدھم روشنی میں انہیں…پریڈ گرائونڈ میں جنگی مشقوں کی قطار بننے سے پیار ہے…ریشم اور ہارسنگھار کی چیزوں سے کہیں زیادہ۔

وہاں سے باہر نکلے تو دھوپ میں ابھی تک کوئی شوخی، کوئی چلبلاہٹ ،کسی قسم کی تندی و تیزی نہیں تھا۔ وہی مَری مَری سی زور دار ہوائوں کے سامنے گھگھیاتی ہوئی۔تاحد ِنظر پھیلے اِس اسکوائر میں بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں تھی، تو سوچا یہیںپھسکڑامار کر بیٹھ جاتے ہیں، حالاں کہ نیچے سےاُٹھنے کا مرحلہ مشکل ہوگا،مگر کچھ نہ کچھ ہوہی جائے گا۔خیر ، شانوں سے بیگ اتارااور اس میں سے چائے کی بوتل نکالی، توشامی کبابوں کی خوش بُو نے بےچین کردیا۔ 

ماؤ کے مقبرے کے سامنے قائم انقلابی یادگار
ماؤ کے مقبرے کے سامنے قائم انقلابی یادگار

گوکہ ابھی بھوک نہیں لگی تھی، لیکن دل نے کہا ’’بھوک کومارو گولی،کھائو پیو ،لُطف اٹھائو۔‘‘ بس تو گھونٹ گھونٹ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے شامی کباب بھی کھائے، اُف…کیا مزے دار جوڑ تھا۔پھر ہم نے ٹانگیں پساریں، اپنے سامنے پھیلے اسکوائر کو دیکھا اور 1989ء کے دنوں کو اپنے سامنے مجسّم کیا۔اسکوائر تو رونقوں سے بھرا تھا۔ جمہوریت کے لیے نئی نسل کے جذبات تو 1976ء ہی سے اندر ہی اندر پرورش پانے لگے تھے، لیکن 1989ءمیں تو لاوا پُھوٹ پڑا۔ 

نئی نسل آزادیِ اظہار کی متمنّی اور پرانی نسل غلط پالیسیز پر احتجاج کرنے کی آرزو مند تھی۔لکھاریوں، شعرااور زندگی کے دیگر شعبوں سے منسلک لوگوں میں یہ بیج پھلنے پھولنے لگے تھے۔نئی نسل نمایندہ بن کر اُبھری تھی اور پھر وہی ہوا، جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔زمین گل زار بنی، جیلیں بھریں، جلاوطنی ہوئی۔شاعر اور لکھاری وجود میں آئے اور تھین آن من نسل پیدا ہوئی۔

کل لیپ ٹاپ پر ہم نے ماضی کے بہت سے مناظر دیکھے تھے، اُس وقت کی یاد نے ایک بار پھر آنکھیں گیلی کردیں۔تب ہم نے اس چینی نژاد، امریکی شاعر Bei Daoکو،جس کا اصل نام Zhao Zhenkalتھا، یاد کیا، جو ایسی خُوب صُورت، انقلابی شاعری کا خالق تھا کہ جس نے احتجاجیوں کے دل گرما دئیے تھے۔جس کے شعروں سے انہوں نے بینرز سجائے، جس کی شاعری وہ مائیک پر پڑھتے اور لوگوں کو احساس دلاتے کہ ’’مُلک کا سنجیدہ اور دانش وَر طبقہ آپ کے ساتھ ہے۔‘‘ یہی سوچتے سوچتے ہم نے اس کی بہت سی انقلابی نظمیں پڑھ ڈالیں۔؎شاید آخری وقت آن پہنچا ہے…مَیں کوئی شہادت نہیں چھوڑنا چاہتا…سوائے ایک پن کے جو میری ماں کے لیے ہے…ایک ایسے وقت میں ،جو ہیروز کے بغیر ہے…مَیں صرف ایک فرد کے طور پر رہنا چاہتا ہوں۔ان ہی دنوں کی ایک اور نظم ’’امن کا اُفق‘‘ بھی یاد آگئی۔؎ زندوں اور مُردوں کو الگ کرتا ہے…مَیں صرف جنت کا طلب گار ہوں…اور مَیں حاکم وقت کے آگے…جُھکوں گا نہیں کہ وہ لمبا لگے…اور آزادی کی ہوا کو روکے۔

تھین آن من اسکوائر کی ایک جھلک
تھین آن من اسکوائر کی ایک جھلک 

ہم نے1989ءکی سب یادوںکو شاعری کی صُورت دُہرایا اور پھر بولے’’مَیں نہیں جانتی کہ غلطی تمہاری تھی یا نہیں۔ مجھے اس پر بھی کوئی رائے نہیں دینی کہ تمہارے مطالبات جائز تھے یا نہیں۔تمہاری حکومتوں کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہنا کہ انہوں نے تم پر ظلم کیا۔مَیں تو بس ایک بات جانتی ہوں کہ کہیں اگر تم زندہ ہوکر ایک باراپنا مُلک دیکھنے آجائو تو فرطِ حیرت سے گنگ رہ جائو گے اور یقیناً کہو گے؎ اے وطن ہم نثار تجھ پر…ہمارے خون نے تمہیں حیاتِ نو دی …اِسے دنیا میں ممتاز کیا…ہزاروں کیا،لاکھوں کیا،کروڑوںہم جیسی جانیں تجھ پر قربان۔‘‘سوچتے سوچتے ہم نے چائے کا دوسرا کپ بھرا اور پیا۔باقی بچا کھچا کباب کھایا، تھوڑی دیر اردگرد گھومے پِھرے، پھرتھک ہار کرکر ایک جگہ جا بیٹھے۔ 

ایک بار پھرسوچوں کی یلغاریں تھیں۔ہم ایک بار پھراُلٹےسیدھے سوالات کی زَد میں تھےکہ خود سے مکالمے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔چِین اور روس دو بڑے ممالک، جو نظریاتی مسالک کے اعتبار سے ایک دوسرے سے گہری مماثلت رکھتے تھے۔گو، بدلتے حالات میں دونوں ہی بہت حد تک تائب ہوگئے ہیں، اقتصادی پالیسیز نےبھی کایا پلٹ دی ہے۔ تاہم ،بہت سے معاملات پراب بھی یک جانظر آتے ہیں کہ ہم سائے بھی ہیں اور ماڑے موٹے سُرخے بھی۔تھین آن من اسکوائر کی وسعت حیران کُن ہے۔ تاریخ بھی بڑی قدیم،ساتھ ساتھ جدید زمانے کے نئی نسل پر ظلم و ستم ،ٹینک، توپوں کے چڑھاوے اور لہو رنگ کہانیاں بھی اس کی نام وَری کا ایک بڑا حوالہ ہیں۔

جگہ بھی بڑی مرکزی سی کہ اسکوائر کی ایک سمت، چینی کمیونسٹ انقلاب کے بانی مائو اور قوم کے جیالے اور سربکف مجاہدوں سے سجی کھڑی ہے، تو وہیں ریڈ اسکوائر میں لینن کا مقبرہ اور اسی سے ملتی جُلتی تصویریں اور رنگ۔ہم نیشنل میوزیم آف چائنا دیکھ چُکے ہیں۔ریڈ اسکوائر کے اسٹیٹ ہسٹری میوزیم نے بھی بہت کچھ یاد دلا دیا۔ایک طرف قدیم شاہوں کے فاربڈن سِٹی کی سُرخ کنگری دار دیوار نظر آئی ،تو ریڈ اسکوائر(رُوس میں قائم) کے پہلو میں کریملن کی کنگورے دار سُرخ دیوار بھی یادوں میں اُبھر آئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چِین سے پاکستان کے گہرے روابط آج سے نہیں، برسوں پرانے ہیں۔

اسکوائر کا مرکزی دروازہ
اسکوائر کا مرکزی دروازہ 

چین کو ہم اپنا ایسا قابلِ فخر دوست کہتے ہیں، جو ہر کڑے وقت میں ہمارے ساتھ کھڑا رہتا ہے۔اب جہاں تک رُوس سے تعلقات کا سوال ہے، تو یہ کبھی بہت خوش گوار نہیں رہے۔کبھی تو بہت تلخیاں بھی پیدا ہوگئیں، پاکستان کو نشانے پر رکھا گیا۔تو پھر کیا وجہ تھی کہ ہم اپنے دوست مُلک کی اس مرکزی جگہ جاکربھی اپنے اندر سکون محسوس نہیں کر رہے تھے۔فاربڈن سٹی کا نام تو سُنا تھا، مگر لاعلمی بھی انتہا کی تھی۔تی آن مین اسکوائر دیکھنے کا شوق تو تھا، مگر اس رومانیت کا عُشرِ عشیر بھی نہ تھا، جو ریڈ اسکوائر کے لیے تھا۔ہمیں یاد ہے، ایک زمانے میں ماسکو جانا خواب تھا کہ ویزا پابندیاں بہت تھیں۔

آج جیسے حالات نہ تھے۔پہلا دن اور پہلا کام ریڈ اسکوائر جانا، لینن کا مقبرہ اور ریڈ اسکوائر کے گردونواح میں کریملن کی کنگوروں والی دیواردیکھنا کہ جس میں قرونِ وسطیٰ کا تعمیری حُسن مضمر تھا، گویا اس عہد کی خوش بُو میں سانس لینے جیسا احساس تھا۔مگر ہم کریملن نہیں گئے ۔سوچاکہ اُسے ایک تحفے کے طور پر سنبھالنا چاہیے، تو وقتِ آخر مزے سے دیکھیں گے۔میٹھے، یخ ٹھنڈے لال شربت کی طرح گھونٹ گھونٹ پئیں گے۔غور کرتے گئے، تو جیسے پردے سے اُٹھتے گئے ۔روسی ادیب ایک کے بعد ایک یاد آنے لگے۔ستّر، اسّی کی دہائیوں میں لیوٹالسٹائی کو پڑھا،میکسم گورکی، پشکن ، دستووسکی، چیخوف گوگول اور پینوواویرا کو وقفے وقفے سے اس طرح پڑھاکہ رُوس اور اس کے شہروں سے اَن جانی سی محبّت سی ہوگئی۔

ہمارے خیال میں سوویت یونین کی وزاتِ اطلاعات و نشریات نے بھی اِس ضمن میں بہت کام کیا ہے۔پھر برّصغیر کے ترقی پسند مصنّفین نے بھی ٹالسٹائی،میکسم گورکی، پشکن، دستووسکی، چیخوف اورگوگول کی تصانیف کے بہترین تراجم کی صُورت روس سے محبّت نبھائی۔ ان کتابوں کو سستے کاغذ پر چھپوایا، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ پڑھ سکیں۔یوں رُوس کا طاقت وَر ادب اپنی پوری توانائی سے پڑھے لکھے لوگوں کے سامنے آیا۔لوگ روسی ادباء سے مانوس ہی نہیں ہوئے، ان سے محبّت بھی کی۔ گورکی کی ماں نلوونا تو اپنی ماں جیسی ہی لگتی تھی۔

صوفیہ ٹالسٹائی کے دُکھوں اور ٹالسٹائی کی جانب سے کی جانے والی زیادتیوں میں ہمیں اپنی عورت کی جھلک نظر آتی ہے۔ایسے ہی تو پیٹرز برگ کے ریلوے اسٹیشن پر اترتے ہی دستووسکی کے گھر جانے کی ہڑک نہیں اٹھتی۔سچی بات ہے،یہاں تو ایسی کوئی ہڑک ہی نہیں تھی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے کسی چینی لکھاری کو نہیں پڑھا تھا۔ کتابیں کتنی اہم اور ادیب کتنا بڑا کردار ادا کرتے ہیں، اس بات کا احساس اور انکشاف ہمیں تھین آن من اسکوائر آکے ہوا۔ (جاری ہے)