امریکی تاریخ کی طویل ترین تباہ کن جنگ ،جو افغانستان سے شرمناک فوجی انخلا پر تمام ہوئی ، کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں بائیڈن انتظامیہ چین کی طرف سے اٹھنے والے چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے تیزی سے نئی خارجہ پالیسی ترتیب دے رہی ہے.
ایک نئی سرد جنگ کے آثار ہویدا ہیں۔ لیکن دلچسپی کی بات یہ ہے کہ امریکہ چین کو محدود کرنے کیلئے ایک پرانا حربہ اور دقیانوسی طریق کار اختیار کررہا ہے ،جو سوویت دور کی سرد جنگ تھی۔
چونکہ اشتراکیت مخالف نظریات اب بھی پذیرائی رکھتے ہیں، یہی پرانا حربہ استعمال کرتے ہوئے چین کی کمیونسٹ پارٹی ( سی سی پی) کو ایک جابرانہ سفاک جماعت کے طور پر اس طرح پیش کیا جارہا ہے جو سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کے بارے میں کئے گئے پروپیگنڈے کی یاد دلاتا ہے ۔
اس جماعت کی قیادت میں سوویت یونین تحلیل ہوگیا تھا۔ ایک مرتبہ جب دشمن ’’تخلیق ‘‘ کر لیا جاتا ہے تو پھر اس ’’خطرے‘‘ سے نمٹنے کیلئے جوابی اقدامات کرنا قدرتی بات ہے ۔
اس کیلئے سب سے اہم قدم ہم خیال اتحادیوں کا الائنس قائم کرنا ہے ، جیسا کہ سرد جنگ میں کیا گیا تھا۔ اسی طرح نظریاتی محاذ پر تصادم کو ’’جمہوریت بمقابلہ آمریت‘‘ کے تصور کے طور پر پذیرائی ملتی ہے کیوں کہ یہ ’’اچھائی ‘‘ اور ’’برائی‘‘ کی اخلاقی کشمکش دکھائی دیتی ہے۔ تاہم امریکی پالیسی ساز یہ سمجھنے میں ناکام ہیں کہ چین کوئی سوویت یونین نہیں ۔
سوویت یونین اور چین کے درمیان واحد قدر مشترک ان کی حکمراں جماعتوں پر لگا ہوا لیبل ہے ۔ درحقیقت چینی کمیونسٹ پارٹی کے اراکین کی تعداد نوکروڑ ہے اور یہ وسیع ریاستی مشینری کے ذریعے حکومت کرتی ہے ، اگرچہ رسمی طور پر یہ مارکسی شناخت رکھتی ہے ۔
لیکن اس کی فعالیت آزاد مارکیٹ پر مبنی ایشیا کی جاندار اور اختراع پذیر معیشت کی صورت دکھائی دیتی ہے ۔ اس کے تصورات کی روح رواں ڈینگ شیائو پنگ (Deng Xiaoping) کا مشہور مقولہ ہے: ’’دولت مند ہونے میں ہی عظمت ہے۔‘‘
ماضی میں ’’سب کے لئے ایک ہی نسخہ‘‘ سرد جنگ کا طرزعمل ایشیا کے حوالے سے امریکہ کو بہت مہنگا پڑا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے اس کے پاس اس ذیل میں تخیلات کا فقدان ہے ۔
دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر ایشیامیں آزادی کے مجاہدوں ، بشمول مائوزے تنگ اور ہوشی من نے نوآبادیاتی دور کے بعد امریکہ سے جوش و جذبے کی تحریک چلی تھی ۔
جنوری 1945 ء میں مائو اور ذو این لائی نے واشنگٹن آکر صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ وہ صدر روزویلٹ کو سراہتے تھے ۔
ہوشی من بھی جیفرسن کے تصورات سے اتنے متاثر تھے کہ اُنھوں نے امریکی آزادی کے اعلامیے کے کچھ اقتباسات کو ویت نام کی آزادی کے اعلامیے میں شامل کیا تھا۔ویت نام نے یہ آزادی فرانسیسی نوآبادیاتی نظام سے حاصل کی تھی ۔ لیکن نظریاتی سیاست کے دائو پیچ کی ایک اپنی دنیا ہوتی ہے ۔ یہاں دونوں کا ہاتھ ’’دشمن‘‘ کہہ کر جھٹک دیا گیا ۔
شی جن پنگ کے دور میں نظریات سے زیادہ چینی کمیونسٹ پارٹی کا سیاسی جوہری عنصر دو تاریخی صدمات سے کشید کیا گیا ہے ۔ ان کی جھلک شی جن پنگ کی تقاریر اور اُن کے مضامین ’’چین کی گورننس‘‘ میں ملتی ہے ۔ پہلا جوہری عنصر ’’توہین آمیز صدی‘‘ کا تصور ہے ۔
اس سے مراد 1840 سے لے کر 1949تک کا دور ہے جب کمزور چین پر غیر ملکی تسلط تھااور چین کی خود مختاری کا عملی طور پر کوئی وجود نہ تھا۔ شنگھائی کی سیر کرنے والوں کو اکثر مختلف عجائب گھروں میں لے جایا جاتا ہے، جہاں 1930 ء کی دہائی کے شنگھائی کی یادیں محفوظ ہیں۔
اس وقت یہ غیر ملکی تسلط کی لکیروں سے منقسم تھا، جیسا کہ فرانسیسی علاقہ، امریکی علاقہ، برطانوی علاقہ اور جرمن علاقہ ۔ اُن کے اپنے ملک پر قابض قوتوںکے اپنے اپنے قوانین نافذ تھے ۔ ان کے کلبوں پر یہ توہین آمیز جملہ رقم ہوتا تھا: ’’کتوں اور چینیوں کا داخلہ منع ہے ۔‘‘
اس پس منظر کو دیکھتے ہوئے سرحدوں کی حفاظت اور چین کی خودمختاری اور اتحاد پر چینی قیادت کے شدید نظریات قابل فہم ہیں ۔ شی جن پنگ کے سیاسی تصور کا دوسرا حصہ ’’سوویت ماڈل ہے‘‘ کہ کس طرح بدعنوان اور مفاد پرست سیاست دانوں کی قیادت میں زوال پذیر کمیونسٹ پارٹی سوویت یونین کی تباہی کاباعث بنی ۔
اس لئے سوویت انہدام کا خوف چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کو مخائل گورباچوف کی’’منفی مثال سے سبق سکھاتا ہے‘‘ کہ کیا کچھ نہیں کرنا ہے ۔ اسلئے چینی کمیونسٹ پارٹی اس عزم پر کاربند ہے کہ ناکام مثال کی کبھی پیروی نہیں کرنی ۔
ناکام ماڈل اپنا کر ملک کو گھن زدہ نہیں کرنا ۔ یہ دو عناصر چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کی سوچ کا تعین کرتے ہیں ۔ اسلئے چینی گورننس اور بیرونی ممالک سے ڈیل کرتے ہوئے وہ چینی مفاد کاہر ممکن طریقے سے تحفظ کرنے اور اسے آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
یہ بنیادی مفادات کیا ہیں جو چینی قیادت کے نزدیک ان کے استحکام اور خوش حالی کی بنیاد ہیں ؟اتحاد، علاقائی سا لمیت اور چین کی خود مختاری کامطلب اس کی سرحدوں کے تقدس کا تحفظ ہے ۔
اس میں کچھ سرخ لکیریں بھی ہیں ، جیسا کہ تائیوان ، تبت، سنکیانگ(Xinjiang) ، ہانگ کانگ اور جنوبی چینی سمندر۔ انڈیا اور بھوٹان کے سوا اپنے چودہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ چین نے سرحدی معاہدوں پر دستخط کر رکھے ہیں ۔ اس کے بعد چین کی ’’پرامن اٹھان‘‘کو ایک فطری ارتقا کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔
عالمی ا سٹیج پر اس کا مقام اس کا تاریخی حق قرار دیا جاتا ہے ۔ سب سے پہلے اس کا حوالہ صدر شی جن پنگ نے اکتوبر 2017ء کو چینی کمیونسٹ پارٹی کے انیسویں اجلاس میں عوامی طور پر دیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’دنیا صدی کی اہم ترین تبدیلی کی گواہ بن رہی ہے۔‘‘ صدر شی جن پنگ کے مطابق’’ چین دنیا کی عظیم طاقت بن کر انسانی تاریخ میں ایک اہم کردار ادا کررہا ہے... وقت آگیا ہے جب ہم دنیا کے مرکزی اسٹیج پر موجود ہوں ۔‘‘ چین کے مرکزی مفادات میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی بالادستی شامل ہے کیوںکہ اس پر ملک کے اتحاد، استحکام اور خوش حالی کا انحصار ہے ۔
شی جن پنگ اور ان کے قریبی رفقا کو یقین ہے کہ گورباچوف جیسی کھلی پالیسی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی ۔ اس کے نتیجے میں چین بھی سوویت انجام سے دوچار ہوکر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوسکتا ہے ۔
دیوارچین تعمیر کرنے اورملک کو بیرونی جارح قوتوں سے بچانے والی مڈل کنگڈم کے وارث ہونے کے ناتے چینی کمیونسٹ پارٹی بخوبی جانتی ہے کہ موجودہ فالٹ لائنزکو ابھار نا چین کیلئے نقصان دہ ہوسکتا ہے ۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ جس دوران امریکیوں کی یادداشت بہت مختصر مدت کے لئےکام دیتی ہے اور وہ اپنے خارجہ تعلقات تبدیل کرتے رہتے ہیں، چینی تاریخ کو گہری نظر سے دیکھتے اور اسے اپنی سوچ کا حصہ بنائے رکھتے ہیں ۔
چند سال پہلے سوچ سمجھ رکھنے والے ایک چوٹی کے چینی پالیسی ساز سے ملاقات ہوئی ۔ اُنھوں نے ’’چین کے خلاف امریکی عزائم ‘‘پر بات کرتے ہوئے بہت شائستگی سے لسلائی جلب(Leslie Gelb) کے ایک مضمون کا حوالہ دیا جو تیرہ نومبر 1991 کو نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا تھا،اور یہ وہ دور تھا جب سوویت یونین منہدم ہورہی تھی۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس مضمون کا عنوان تھا، ’’چین کے حصے بخرے کرنا۔‘‘ لسلائی جلب نے بہت قطعی لہجے میں کہا کہ ’’ اگر بیجنگ کے لیڈر دنیا کے معمول کے رویے کو مسترد کرتے رہے تو امریکہ کو انتہائی پابندیاں لگانا ہوں گی جو مڈل کنگڈم کی جغرافیائی سا لمیت کو تحلیل کردیں گی۔‘‘
جلب نے نیویارک ٹائمز میںاپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اگر چینی سرگرمیاں ناقابل قبول ہوتی دکھائی دیں تو امریکہ اور دیگر ممالک اسے روکنے کیلئےانتہائی اقدامات اٹھاسکتے ہیں ، جن میں علیحدگی کی تحریکیں شروع کرنا بھی شامل ہے ۔
بیجنگ کے لیڈر کچھ اور سوچنے کی مہلک غلطی نہ کریں۔ اس لئے یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ سنکیانگ، تبت یا ہانگ کانگ میں پھوٹنے والی شورش یا تائیوان کے بارے میں بیان بازی کو چین ’’علیحدگی پسندی کی ریاستی پالیسی‘‘ کے طور پر دیکھتا ہے ۔(جاری ہے)