(گزشتہ سے پیوستہ)
اس کے علاوہ ایک نئی تنظیم ڈیویلپمنٹ فنانس کارپوریشن ( ڈی ایف سی) بھی قائم کی گئی ۔ ان منصوبوں کا مقصد محض شی جن پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا توڑکرنا تھا۔ ڈی ایف سی کے پاس ساٹھ بلین ڈالر کے فنڈز تھے ۔ لیکن ان منصوبوں سے بھی کچھ برآمدنہ ہوا۔ بائیڈن انتظامیہ میں امریکہ نے جون 2021ء میں برطانیہ میں ہونے والے جی سیون کے اجلاس میں ’’بلڈ بیک بیٹر ورلڈ‘‘ (B3W) متعارف کرایا۔ ایک سال بعد اس B3W کا عملی طورپر کہیں وجود تک نہیں تھا۔ اب اسی منصوبے کا نام تبدیل کرکے ’’پارٹنر شپ فار گروتھ انفراسٹرکچر‘‘ رکھ دیا ہے ۔ ایک سال بعد نام کی تبدیلی ہی واحد پیش رفت ہے۔
بہرکیف امریکی پالیسیوں نے چین اور روس کو ایک دوسرے کے قریب کردیا ہے۔ اس کے برعکس سرد جنگ میں چین امریکہ کا اتحادی تھا۔ بیسویں صدی کی سرد جنگ میں سوویت یونین پر امریکی فتح کا ایک اہم عنصر چین کی ٹھوس حمایت تھی۔ پچاس سال قبل صدر نکسن کے چین کے لئے تاریخی افتتاح کے بعد، چین زیادہ تر عالمی مسائل پر امریکی اتحادی بنا رہا ، چاہے امریکہ سوویت یونین کا سامنا کر رہا تھا، چاہے وہ افغانستان ہو یا سوویت حمایت یافتہ ویتنامی حملہ اور کمبوڈیا پر قبضہ یا افریقہ میں سوویت توسیع پسندی کا مقابلہ۔ اس سیاق و سباق کو دیکھتے ہوئے امریکی پالیسی سازوں کو ایک ایسے حریف کے خلاف نئی سرد جنگ میں جانے سے پہلے دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے جسے وہ پوری طرح سے نہیں سمجھتے۔ خاص طور پر موجودہ پیچیدہ ماحول میں جہاں امریکہ اب واحد عالمی طاقت ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔
دوسراعنصرموجودہ عالمی ماحول میں امریکہ کی کشش اور درحقیقت، اس کی طاقت ’’نرم طاقت‘‘ کا میدان ہے جہاں اسے بیمثال سبقت حاصل ہے۔امریکہ کی کشش، امریکی زندگی کی چمک دمک اور اس کی فطری حرکیات اور تخلیقی صلاحیت، ایک مقناطیس کا کام کرتی ہے جو دنیا کے بہترین اور ذہین ترین لوگوں کو امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے، قیام کرنے اور آباد ہونے پر آمادہ کرتی ہے۔ اسے مواقع کی سرزمین کے طور پر دیکھا جاتا ہے جہاں میرٹ کی اہمیت ہے۔ یہ اب بھی عالمی سطح پر امریکہ کا سب سے مضبوط سیلنگ پوائنٹ ہے۔ اس کی طاقت خوفزدہ کرکے اور ڈرا دھمکا کر فوجی اتحاد بنانے میں نہیں۔ کیونکہ وہ ایشیا کے میدان جنگ میں مسلسل ہارتا رہا ہے۔ چین پر قابو پانے کی کوشش کا آغاز کرنا، جب چین بنیادی امریکی مفادات کیلئے براہ راست خطرہ نہیں ، ایک آزمودہ اورناکام فارمولہ ہوگا۔ اس کا نتیجہ وہی ہوگا جس طرح 9/11کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساڑھے چھے ٹریلین ڈالر جھونک دیے گئے لیکن کچھ بھی ہاتھ نہ آیا ۔
تیسرا، شی جن پنگ اور جوبائیڈن، دونوں کو اپنے اپنے ممالک میں اہم تبدیلیوں کا سامنا ہے ۔ صدر شی چینی کمیونسٹ پارٹی کے انتہائی اہم اجلاس کی صدارت کرنے جارہے ہیں۔ یہ اجلاس 1978 ء کے بعد سب سے اہم قرار دیا جارہا ہے جب ڈینگ شیائو پنگ نے انتہائی اہم اصلاحات نافذ کرتے ہوئے مائو کے نظریات سے رجوع کرکے مارکیٹ اکانومی ، یعنی آزاد تجارت ، کی دنیا میں قدم رکھا تھا۔ اس تبدیلی کو سیاسی طور پر ’’چینی خدوخال کے ساتھ سوشلزم‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ جو بائیڈن کے لیے نومبر میں ہونے والے وسط مدت کے انتخابات فیصلہ کن موقع ہوں گے ۔ ان کے نتائج اس بات کا تعین کردیں گے کہ کیا 2024 ء کے بعد بائیڈن کا سیاسی مستقبل باقی ہے یا نہیں۔ اس وقت بائیڈن کو شی جن پنگ کی ضرورت ہے تاکہ امریکی معیشت کو سہارا مل سکے ۔ دوسری طرف شی بھی جانتے ہیں کہ ’’سر پر تباہی منڈلا رہی ہے‘‘جو چین کو عدم استحکام سے دوچار کرتے ہوئے کوویڈ کے تین سال کے لاک ڈائون اور کرانٹائن سے نکلنے کی کوشش کو زک پہنچاسکتی ہے ۔ اس لیے دونوں رہنمائوں کو اپنے اپنے ممالک میں سیاسی استحکام، معاشی نمو اور تنائو زدہ دنیا میں تنائو کم کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون سے ملتی جلتی کسی شراکت داری کی ضرورت ہے ۔ محاذ آرائی ، گھیرائو یا ایک نئی سرد جنگ کا خبط ان مشترکہ اہداف کی منزل کھوٹی کردیں گے اور ان کا حصول دشوار تر ہوتا جائے گا۔ چوتھا، ہاورڈ کے اہم مطالعے ’’عظیم ہائی ٹیک رقابت‘‘ میں پروفیسر گراہم الیسن کہتے ہیں ، ’’چین اور امریکہ کے درمیان ہائی ٹیک دنیا میں رقابت سے پتا چلتا ہے کہ چین پہلے ہی ہائی ٹیک مصنوعات میں امریکہ پر سبقت حاصل کرتا جارہا ہے ۔
پچیس برسوں میں پہلی بار، چین، بھارت اور پاکستان نے عالمی مسئلے پر ایک جیسا موقف اختیار کیا۔انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور سری لنکا سمیت بہت سے دوسرے ممالک کی طرح یوکرین پر ووٹنگ سے گریز کا انتخاب کیا۔ یہاں تک کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے امریکی اتحادی بھی یوکرین مسئلے پر ایک طرف ہوگئے۔ اس منظر نامے کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ چین کا مقابلہ کرنے اور اس پر قابو پانے میں جلدی کرنے کی بجائے ماضی کے تجربے اور عصری جغرافیائی سیاسی حقائق سے حاصل کردہ دانائی چین کے بارے میں امریکی سوچ پر نظرثانی کا مطالبہ کرتی ہے۔ ’’کھیل کے اصولوں‘‘کے بارے میں کچھ وسیع تفہیم بھی درکار ہے دونوں عالمی طاقتیں ایک دوسرے کی رقابت اور مقابلہ اس طرح کریں کہ نظام درہم برہم نہ ہونے پائے ، اور نہ ہی ان کی خطرناک محاذ آرائی کی نوبت آئے ۔ اس وقت نہ تو یہ دونوں ممالک اور نہ ہی دنیا معاشی، سیاسی یا عسکری طور پر اس محاذ آرائی کی متحمل ہوسکتی ہے۔