• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاشی عدم استحکام دراصل سیاسی عدم استحکام ہی کہ کوکھ سے پیدا ہوتا ہے۔ جب تک ملک و قوم کو نا اہل اور کرپٹ حکمرانوں سے نجات حاصل نہیں ہوجاتی، اس وقت تک مسائل کی دلدل سے باہر نکلنا ممکن نہیں۔ 74برسوں سے قوم کو جاگیر داروں، سرمایہ داروں اور وڈیروں نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ اسمبلیوں کو چوروں، لٹیروں اور مفاد پرستوں سے پاک کرنا ہوگا۔ کرپٹ مافیا نہیں چاہتا کہ ملک و قوم کی خدمت کرنے والے اسمبلیوں میں پہنچیں۔ ڈالر ملکی تاریخی کی بلند ترین سطح تک پہنچ گیاہے۔ مسلسل اضافے سے اوپن مارکیٹ میں اس کی قیمت دو سو تیس روپے ہو گئی ہے۔اسٹاک مارکیٹ میں 700پوائنٹس کی کمی سے سرمایہ داروں کے اربوں روپے ڈوب چکے ہیں۔ جبکہ ڈالر کی اونچی پرواز کے باعث غیر ملکی قرضوں کے حجم میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں جاری معاشی عدم استحکام پر قابوپانے کے لئے سودی نظام معیشت کو فی الفور ترک کرنا چاہئے۔ سیاستدانوں کی باہمی چپقلش میں سب سے زیادہ نقصان ملک و قوم اور قومی سلامتی کے اداروں کو پہنچ رہاہے۔پارلیمنٹ اور دیگر ادارے مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں۔ فرسودہ اور ظالمانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہئے۔ حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کا خمیازہ عوام بھگتنے پر مجبور ہیں۔

جس طرح حالیہ ضمنی انتخابات میں ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑائی گئیں اور روپے کا بے دریغ استعمال ہوا اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ قوم نے جاگیر داروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کو بار بار آزمایا ہے، ان کو بار باراقتدار فراہم کرنے کا مطلب مزیدکرپشن کو دعوت دینا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ قوم ان کو مستر د کرے۔ کراچی سمیت سندھ میں بھی بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے سے ایسے لگتا ہے کہ حکومت شکست کے خوف سے بلدیاتی الیکشن سے بھاگنے کی کوشش کررہی ہے۔ سندھ حکومت کے اس اقدام کی بھر پورمذمت کی جانی چاہئے۔ کراچی میں تو بلدیاتی الیکشن کی مہم زور و شور سے جاری تھی تما م پارٹیاں الیکشن مہم میں حصہ لے رہی تھیں کہ انتخابات سے دوتین روز قبل اچانک الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات ملتوی کر دیئے۔پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں گئے کہ بلدیاتی الیکشن ملتوی کر دئیے جائیں لیکن الیکشن کا عمل نہ رک سکا۔اب الیکشن کمیشن نے پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کوخوش کرنے کیلئےبلدیاتی انتخابات ملتوی کر دیئے ہیں۔ یہ سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے فیصلوں کی نفی ہے۔ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم نے کراچی میں جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن کی بھرپور انتخابی مہم سے خائف ہوکر چوبیس جولائی کو الیکشن رکوائے ہیں لیکن لگتا ہےکہ اس کا فائدہ پیپلزپارٹی یا ایم کیو ایم کو بھی نہیں ہوگا۔ اس وقت مرکز اور صوبوں میں برسر اقتدار حکومتیں ہر محاذ پر بری طرح ناکام ہوچکی ہیں۔ عوام میں ان کی مایوس کن کاکردگی کے حوالے سے شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ آئی ایم ایف کی غلامی کو قبول کرنے میں تحریک انصاف اور اتحادی حکومت دونوں برابر کی مجرم ہیں،دونوں نے عوام کی مشکلات میں اضافے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ مہنگائی خوفناک اندازمیں بڑھتی چلی جا رہی ہے۔بجلی اور گیس کی مسلسل لوڈشیڈ نگ کے باعث ملک میں 300سے زائد ٹیکسٹائل ملز بند ہونے کے قریب ہیں ،جس سے 300ملین ڈالرز ماہانہ ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ میں کمی کا اندیشہ ہے۔ پاکستان کا ٹیکسٹائل سیکٹر ملکی معیشت میں ریڑ ھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جس کا ملک کی مجموعی ایکسپورٹ میں 60فیصد،مینوفیکچرنگ سیکٹر میں ملازمتوں میں 40فیصد اور ملکی جی ڈی پی میں 8.5فیصد حصہ ہے۔یہ صنعت 15ملین افراد کو ملازمتیں فراہم کرتی ہے مگر حکمرانوں کے عاقبت نا اندیش فیصلوں کے باعث ہر سیکٹر تباہی کی جانب گامزن ہے۔ 45فیصد عوام خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔سرکاری اداروں کی نجکاری کی خواہش رکھنے والے حکمراں غریب عوام کو دو وقت کی روٹی سے بھی محروم کرنا چاہتے ہیں۔ اگرارباب اقتدار ادارے ٹھیک نہیں کرسکتے اور اداروں سے کرپشن کا قلع قمع نہیں کرسکتے، ان کو منافع بخش نہیں بناسکتے تو ان سے ملک چلانے کی امید کیسے کی جاسکتی ہے؟اگر پاکستان کوترقی کرنا ہے تواسے سودی معاشی نظام کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ سودی نظام ہی تمام مسائل کی جڑ ہے۔ایک غیر سرکاری سروے کے مطابق ملک میں 60 فیصد پاکستانی بہتر مستقبل کی امید ختم کرچکے ہیں۔ پی ٹی آئی اور اتحادی حکومت کی سیاسی کشمکش سے قومی ادارے مزیدکمزور ہوں گے،معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنا وقت کا سب سے اہم تقاضا ہے۔قوم نے مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو آزما لیا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد بر سراقتدار آنے والی شہباز شریف کی اتحادی حکومت بھی ہر محاذ پر بری طرح ناکام دکھائی دیتی ہے،ان کے پاس بھی عوام کو ریلیف فراہم کرنے کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔تمام مسائل کا واحد حل اب عام انتخابات ہیں۔ جتنا جلدی ممکن ہو ہمیں نئے عام انتخابات کی طرف جانا ہوگا۔پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کو بھی آئندہ عام انتخابات میں اپنا ووٹ سوچ سمجھ کر اچھی شہرت کے حامل امیدواروں اور پارٹیوں کو دینا ہو گا، تاکہ نا اہل، کرپٹ اور آئی ایم ایف کے غلام حکمران طبقے سے نجات مل سکے۔

تازہ ترین