• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ایک بہت ہی امید افزا اور نوجوانوں کیلئے اچھی خبر ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے بے روزگار نوجوانوں کیلئے قومی روزگار پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کے تحت سرکاری اور نجی شعبے میں سالانہ 20لاکھ نئی ملازمتیں پیدا کی جائیں گی۔ وزیر اعظم نے روزگار پروگرام کو فعال بنانے کیلئے جو بہت سارے اقدامات کئے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ نیشنل یوتھ ٹاسک فورس تشکیل دی جائے گی جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر ملک بھر کے دورے کرے گی۔ اس ٹاسک فورس کی کارکردگی کی نگرانی وزیر اعظم خود کریںگے۔

قارئین !روزگار کی فراہمی حکومت کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ معاشی ترقی کا عمل جاری رہے تو روزگار کے مواقع خود بخود ہی پیدا ہوتےجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام ترقی یافتہ ملکوں میں نہ صرف مقامی آبادی مکمل طور پر بر سر روزگار ہوتی ہے بلکہ انہیں دوسرے ملکوں سے بھی افرادی قوت در آمد کرنا پڑتی ہے۔ نوجوانوں کو ہنر مند بنانا کسی ملازمت کے بغیر اپنی روزی آپ کمانے کے قابل بنانا بھی بے روزگاری کے چیلنج سے نمٹنے کا ایک مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ آج کل فری لانسنگ اور آن لائن کا دور دورہ ہے۔ چنانچہ حکومت کو چاہئے کہ آن لائن روزگار کے مواقع بھی پیدا کرے جس کا دائرہ کار پوری دنیا تک وسیع ہونا چاہئے۔

’’محنت میں عظمت‘‘ اور ’’محنت کا پھل میٹھا‘‘ جیسے محاورے ہم سب بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں اور ہم نے زندگی میں ان محاوروں کو حقیقت بنتے بھی دیکھا ہے۔ ’’والٹیئر‘‘نے کہا تھا:’’ میں نے ہمیشہ عظیم لوگوں کو جھونپڑوں سے نکلتے دیکھا ہے۔ ’’آئن اسٹائن‘‘ نے نظریہ اضافیت دے کر ہر ایک کو حیرت میں گم کردیا تھا۔ ’’اسکاٹش اینلایٹمنٹ فلسفے ــ‘‘کے مطابق دنیا میں کامیابی کے لئے سرمایہ ضروری ہے۔ اسکاٹش اینلایٹمنٹ نے ارتکاز سرمایہ اور سرمایہ میں مسلسل اضافے کا فلسفیانہ جواز مہیا کیا تاکہ آزادی اور لذت میں اضافہ کیا جاسکے۔ حالات ساز گار تھے، موسم اچھا تھا لہٰذا آزادی، بے راہ روی، عقلیت پرستی اور لذت پرستی نے مغرب کے تمام علاقوں میں جڑ پکڑلی۔ جدیدیت کے اہم مفکرین ’’ڈیکارٹ‘‘، ’’اسپینوزا‘‘، ’’لائبنز‘‘، ’’لاک‘‘، ’’برکلے‘‘، ’’ہیوم‘‘، ’’ہیگل‘‘،’’ مارکس‘‘، ’’روسو‘‘، ’’والٹیر‘‘، ’’ٹاکو ویلی ہابس‘‘ اور ’’کانٹ‘‘ ہیں۔’’اسکاٹش اینلایٹمنٹ فلسفے ــ‘‘کا رد علامہ اقبال نے کیا۔ علامہ اقبال ؒنے اس فلسفے کا رَد کر تے ہوئے کہاتھا کہ… دنیا نہیں مردانِ جفاکش کیلئے تنگ … کامیابی کا تصور نظام معیشت سے وابستہ نہیں، بلکہ محنت، مشقت، عزم، حوصلے، سادگی اور خلوص کے پیکر بغیر سرمائے کے بھی دنیا میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کی ایک دو نہیں ہر شعبے اور طبقے سےسینکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ اگر سیاست کی دنیا کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہےکہ جنوبی افریقا کے پسماندہ گائوں ’’قونو‘‘ کے ایک چرواہے کو آزادی کا ہیرو ’’نیلسن منڈیلا‘‘ بنادیا۔ ریڑھی پر پھل رکھ کر بیچنے والے سوکھے سڑے انسان کو ملائیشیا کا وزیراعظم ’’مہاتیر محمد‘‘ بنادیا۔ انڈیا کی ’’بھارتیہ جنتا پارٹی‘‘ سے تعلق رکھنے والے ’’نریندر مودی‘کے والد ’’وادنگر‘‘ کے ریلوے اسٹیشن پر خوانچہ فروش تھے۔اگر سماج کی دنیا کی بات کی جائے تو مشرق و مغرب کے وہ تمام بڑے لوگ جنہوں نے قوموں، اُمتوں اور تہذیبوں کا سمتِ سفر تبدیل کیا، معاشرتی انقلاب برپا کئے یعنی افلاطون، ارسطو، سقراط اور بقراط سے لے کر سارتر ،سپنسر، نطشے، فرائیڈ ہیگل اور روسو تک… ان سب کا راستہ امیری نہیں فقیری تھا، ہے اور رہے گا۔ اسی طرح اگر معیشت کی دنیا کی بات کی جائے تو بنگلہ دیش میں غریبوں کے لئے 30 ڈالر سے قائم ہونے والے ڈاکٹر یونس کے ’’گرامین بینک‘‘ نے دنیا کو نیا معاشی فارمولہ دیا ہے۔ اس بینک کی 1041شاخیں ہیں، لیکن اس کے بورڈ آف گورنرز میں آج بھی 13میں سے 9 ممبران عام اَن پڑھ دیہاتی جفاکش مزدور ہیں۔ اسی طرح ریڑھی پر برگر کی فروخت سے کام شروع کرنے والے ’’ہارلینڈ ڈیوڈ سینڈرز‘‘پوری دنیا میں معروف فوڈ چین کے کھر ب پتی مالک بن گئے۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والا ’’ولیم کولگیٹ‘‘ایک کسان کا بیٹا تھا۔ اس نے 1806ء میں اپنے ہی نام پر ایک کمپنی کی داغ بیل ڈالی۔ آج یہ کمپنی ’’کولگیٹ پام اولیو‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اسکے بے شمار ذیلی ادارے 200 ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ’’ہنری فورڈ‘‘ بھی ایک غریب کسان کا بیٹا تھا۔ یہ اپنی محنت کے بل بوتے پر پہلے صنعت کار اورآخر میں فورڈ موٹر کمپنی کا بانی بنا۔ فورڈ کمپنی امریکہ کی دوسری بڑی آٹو میکر کمپنی اور دنیا کی پانچویں بڑی کمپنی ہے۔ آپ کہیں گے یہ تو قدیم مثالیں ہیں۔ اسی طرح آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں آپ نے ان ممالک اور معاشروں کی مثالیں دی ہیں جہاںامیر اور غریب دونوں کےلئے ترقی کے یکساں مواقع میسر ہیں۔ ان معاشروں اور ممالک میں کوئی بھی شخص اپنی انتھک محنت، توجہ اور صلاحیت کے بل بوتے پر آگے بڑھنے کا خواب پورا کرسکتا ہے، ہمارا معاشرہ تو بانجھ پن کا شکار ہے۔ یہاں پر جائز اور سسٹم کے طریقے پر چل کر اعلیٰ منصب، دولت، ترقی اور شہرت حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ تو میرے بھائیو! یاد رکھو! ایسا ہر گز نہیں ہے۔غریب کیلئے بھی مواقع اتنے ہی ہیں جتنے امیر کے لئےہیں۔ غریب کی اولاد بھی کامیابی کی معراج اور ترقی کے زینے پر چڑھ سکتی ہے۔ کئی لوگ ایسے ہیں جو ہمہ وقت روتے رہتے ہیں۔ آخرکار یہی رونا ان کا مقدر بنادیا جاتا ہے۔ کبھی ناکامیوںپہ، کبھی زمانے پہ، کبھی حسرتوںپہ، کبھی وسائل کی کمیابی پر…!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین