مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ جب سے حمزہ شہباز وزیرِ اعلیٰ بنے ہیں انہیں کام نہیں کرنے دیا گیا۔
اسلام آباد میں حکمران اتحاد کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ پریس کانفرنس کے لیے آ رہی تھی تو بہت سے لوگوں کے پیغامات آئے کہ آپ کی اپیل زیرِ التوا ہے، آپ پریس کانفرنس نہ کریں۔
مریم نواز نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں عدالتی فیصلے دیکھیں تو رونگٹے کھڑے کرنے والی داستان ہے، کسی بھی ادارے کی توہین باہر سے نہیں ادارے کے اندر سے ہوتی ہے، ایک غلط فیصلہ سارے مقدمے کو اڑا کر رکھ دے گا، ٹھیک فیصلہ کیا جائے تو تنقید کوئی معنی نہیں رکھتی۔
اُنہوں نے کہا کہ حمزہ شہباز کی جیت کے بعد تحریکِ انصاف والے سپریم کورٹ گئے، انہوں نے رات میں سپریم کورٹ کی دیواریں پھلانگیں، رات کو سپریم کورٹ کھلی، رجسٹرار بھاگا بھاگا آیا، پٹیشن تیار بھی نہیں تھی۔
اُن کا کہنا ہے کہ ہمارے انصاف کا نظام یہ ہے کہ جب کوئی پٹیشن آتی ہے تو لوگوں کو پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ بینچ کون سا ہو گا، جب سپریم کورٹ نے کہا کہ آئین ٹوٹا ہے تو قاسم سوری کو کیوں نہیں بلایا گیا، لوگوں کی پٹیشن نہیں لگتی، انتظار میں رہتے ہیں، پٹیشن آتی ہے تو لوگوں کو پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ کون سا بینچ بنے گا، لوگوں کو پتہ ہوتا ہے کہ فیصلہ کیا ہوگا۔
مسلم لیگ ن کی نائب صدر نے کہا کہ سنجرانی کے کیس میں 6 ووٹ مسترد ہوتے ہیں، عدالت جاتے ہیں تو عدالت کہتی ہے کہ اسپیکر کی رولنگ چیلنج نہیں ہو سکتی، پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کو کٹہرے میں بلایا گیا، عدالت نے قاسم سوری کو کیوں نہیں بلایا۔
مریم نواز نے کہا کہ 25 اراکین کو آپ نے ڈی سیٹ کیا، کہا ان کے ووٹ نہیں گنے جائیں گے، جبکہ قاسم سوری کا اوپن اینڈ شٹ کیس ہے، ڈھائی سال سے وہ اسٹے پر ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے 25 اور ق لیگ کے 10 ارکان پی ٹی آئی کی جھولی میں پھینک دیے گئے، پارٹی ہیڈ کو دیکھ کر آئین کی تشریح بدل جاتی ہے، پارٹی ہیڈ اگر نواز شریف ہے تو اقامہ جیسا فیصلہ دیا جاتا ہے، کہا گیا پارٹی سربراہ سب کچھ ہوتا ہے، اس لیے نواز شریف پارٹی صدارت نہیں کر سکتے۔
مسلم لیگ ن کی رہنما کا کہنا ہے کہ چوہدری شجاعت کی دفعہ پارلیمانی پارٹی معتبر ہو جاتی ہے، عمران خان نے پاکستان کے ہر شعبے میں تباہی کی، وہ اکانومی کو وینٹی لیٹر پر چھوڑ کر گئے، انہیں ہر طرح کی آزادی تب بھی تھی، اب بھی ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ معیشت کی خرابی کے تانے بانے 2017ء کے کورٹ کے فیصلوں سے ملتے ہیں، نواز شریف کو اقامہ جیسے مذاق پر نکالا گیا، واٹس اپ کال پر جے آئی ٹی بنی، مانیٹرنگ جج لگایا گیا، مانیٹرنگ جج تاحیات مانیٹرنگ جج لگا ہوا ہے۔
مریم نواز نے کہا کہ جس طرح میچ فکسنگ ایک جرم ہے اسی طرح بینچ فکسنگ بھی ایک جرم ہے، مانیٹرنگ جج ہمارے خلاف ہر مقدمے میں شامل ہوتا ہے، سپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر ون میں ڈکلیئرڈ اشتہاری عمران خان آتے تھے۔
اُنہوں نے کہا کہ ڈکلیئرڈ اشتہاری عمران خان کورٹ روم نمبر ون میں ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کے بیٹھے ہوتے تھے، وہ کورٹ روم نمبر ون میں بیٹھ کر عدالت کا مذاق اڑاتے تھے، توہینِ عدالت میں ہمارے لوگوں کو چن چن کے باہر کیا گیا، طلال چوہدری اور دانیال عزیز آج تک ڈس کوالیفائیڈ ہیں۔
مسلم لیگ ن کی نائب صدر نے کہا کہ تنقید بھی تمیز کے دائرے میں ہو تو وہ اچھی لگتی ہے، سیسلین مافیا اور گاڈ فادر کہتے ہوئے اقامہ پر چلتا کیا، کھوسہ نے کہا کہ نواز شریف کو نکالنا چاہتا ہوں، ہمارے پاس آؤ، ہم نکالتے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ یو کے میں 5 ججز کی تصویر گاڑی کے شیشے پر لگا کر جوتے مارے گئے، توہین اسے کہتے ہیں، کون سا جرم ہے جس کا ارتکاب عمران خان نے نہیں کیا، جلاؤ گھیراؤ کرو، ہنڈی سے پیسے بھیجو، بل جلاؤ، پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر حملہ کرو۔
مریم نواز نے سوال اُٹھایا کہ کیا کسی عدالت میں عمران خان کے خلاف سوموٹو لینے کی ہمت ہے؟ کیا سارے سوموٹو ن لیگ اور اس کے اتحادیوں کیلئے ہیں؟
اُنہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ دھرنا ڈی چوک نہیں آنا چاہیے، انہوں نے سپریم کورٹ کے احکامات کی دھجیاں اڑائیں اور ڈی چوک پہنچے، اس پر کہا گیا کہ ہوسکتا ہے انہیں عدالت کا حکم ہی نہ پہنچا ہو۔
مریم نواز نے یہ بھی کہا کہ اگلے دن جج صاحب کہتے ہیں کہ شاید آنسو گیس سے بچنے کیلئے گرین بیلٹ کو آگ لگا دی ہو، جس نے تاریخ کے سب سے بڑے جھوٹ بولے اسے صادق و امین کا لقب دے دیا، آپ نے ایک جھوٹے شخص کو صادق اور امین ڈکلیئرڈ کیا۔