• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ آئے تو تھے عمران خان حکومت کی خراب معاشی پالیسیوں کی وجہ سے کہ ملکی معیشت کو شدید مشکلات سے نکالیں گے لیکن انہوں نے تو حالات مزید ابتر کرکے رکھ دیے۔

مشکل ترین فیصلے بھی کر لیے لیکن معیشت ہے کہ سنبھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی بلکہ اب تو ایسا ہے لگتا کہ پاکستان واقعی معیشت کی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔

روپے کو ڈالر نے روند ڈالا بلکہ کچل دیا اور وہ بھی ایسے کہ اس حکومت کے چند ماہ کے دوران ڈالر پچاس روپے سے زیادہ مہنگا ہو گیا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ مزید مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔

صرف ڈالر کے مہنگا ہونے کی وجہ سے پاکستان کے مجموعی قرضوں میں ،ان تین ساڑھے تین ماہ کے دوران ،ساڑھے چھ ہزار ارب روپے کا اضافہ ہو چکا ہے، جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔

اس کی بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے لیکن افسوس کا مقام ہےکہ ہمارے سیاستدان چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، سب اس عدم استحکام کو بڑھاوا دے رہے ہیں اور ان سب کے رویوں سے نظر آ رہا ہے کہ جیسےانہیں اس معاشی تباہی کی کوئی فکرہی نہیں۔ اگر فکر ہوتی تو سیاست کیلئے نہیں تو معیشت کو سنبھالنے کیلئے ایک ساتھ بیٹھ جاتے۔

اگر شہباز شریف، عمران خان وغیرہ اپنی اپنی انا اور نفرت کی سیاست کو ختم نہیں کرنا چاہتے اور ایک ساتھ بیٹھنے سے کتراتے ہیں تو اپنے اپنے معاشی ماہرین کو ہی ساتھ بٹھا دیں۔

یہ نقصان کسی ایک سیاسی جماعت کا نہیں ، پورے پاکستان کا ہے، ہم سب کا ہے لیکن افسوس کہ اس پر کوئی بات ہی نہیں ہو رہی۔ اللہ کرے ہمارا حال سری لنکا والا نہ ہو لیکن ڈالر جنتامہنگا ہو چکا اور جس رفتار سے یہ مزید اوپر جا رہا ہے پاکستان کسی کیلئے بھی Governable (حکمرانی کے قابل) نہیں رہے گا۔

اس لیے شہباز شریف اور اتحادیوں کی حکومت کیلئے ہی اسکے سیاسی نتائج منفی نہیں ہوں گے بلکہ آنے والی حکومت کوبھی بہت کچھ بھگتنا پڑے گا۔ پاکستان ڈیفالٹ سے بچ بھی گیا تو ڈالر کے مہنگا ہونے سے آئندہ ایک دو ماہ میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ کرناپڑے گا، جس سے مہنگائی کا ایک ایسا طوفان آئے گا جسے کوئی حکومت، کوئی حکمران نہیں سنبھال سکے گا ۔ جس سے بات کریں وہ معیشت کے بارے میں انتہائی فکر مند ہے لیکن سیاست دانوں کو دیکھیں! سب کے سب سیاسی کشیدگی اور عدم استحکام کو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھا تے چلے جا رہے ہیں جس سے معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔

وطن عزیز کو سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے لیکن وفاقی حکومت اس ماحول میں بھی پنجاب میں گورنرراج لگانے کا سوچ رہی ہے ،صرف اس لیے کہ پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت ختم ہو گئی اور تحریک انصاف کی حمایت سے پرویز الہٰی وزیر اعلی بن گئے۔

دوسری جانب تحریک انصاف نے شہبازحکومت کو دھمکی دی ہےکہ وہ وفاقی حکومت کو رخصت کرنے کیلئےسوچ بچار کر رہی ہے اور اس سلسلے میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی سے کہے گی کہ شہباز حکومت کو اعتماد کا ووٹ لینے کا حکم دیا جائے۔

یعنی اپنے اپنے سیاسی مفادات کیلئے یہ سیاستدان رات دن آپس میں لڑ رہے ہیں، جہاں سوٹ کرتا ہےاپنے سخت ترین مخالفین سے بھی گلے لگ جاتے ہیں لیکن ملک کو اس مشکل سے نکالنے اور معیشت کی تباہی کی وجہ سے پاکستان کو سری لنکا بننے سے بچانے کیلئے ایک دوسرے سے بات کرنے پر بھی تیار نہیں۔ اب بھی وقت ہے اپنی اپنی انا اور سیاسی مفادات کو ایک طرف رکھ کر معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے ہی اکٹھےبیٹھ جائیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف کو اس سلسلے میں پہل کرنی چاہیے،وہ عمران خان کو معیشت پر بات چیت کیلئے اپنی معاشی ماہرین کی ٹیم کا اعلان کرنے کی دعوت دیں۔ عمران خان کوبھی اس سلسلے میں مثبت جواب دینا چاہیے کیوں کہ عمومی خیال یہی ہے کہ تحریک انصاف ہی اگلی حکومت بنائے گی اور اگر ایسا ہوا تو خان صاحب تباہ شدہ معیشت کے ساتھ کیسے حکمرانی کر سکیں گے۔؟

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین