• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موجودہ دہائی پاکستانیوں کیلئے بڑی ہی تکلیف دہ رہی ، آج بھی بے یقینی کے بادلوں نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لےرکھا ہے کوئی پنجاب کے درپے ہے تو کوئی وفاق پر نظریں جمائے بیٹھا ہے، پارلیمان کے اختیار میں متعدد بار مداخلت کی گئی، ایک خط حلال جبکہ دوسرا حرام قرار دیدیا گیا جس کے نتیجہ میں پیدا شدہ معاشی بحران نے ملک کی حالت ناگفتہ بہ کردی ہے، آج ڈالر 244کی حد پار کرکے ملک کو قرضوں کی دلدل میں اتنا دھکیل چکا ہے جس سے نکلنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔

ایک طرف ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف عدالتی فیصلہ سے نئے مسائل پیدا ہوں گے اور معاشی بحران کا مزید گہرا ہونا لازم ہے، دوسری جانب خود مختار کراچی کا نعرہ لگا کر رائے عامہ ہموار کرنیکی مذموم کوشش شروع کردی گئی ہے،محبان وطن کا موقف ہے کہ بین الاقوامی طاقتیں اس بار ایک سے زائد نئے بنگلہ دیش بنانے کی سازش رچا چکی ہیں، محبان وطن پر تو یہ خوف بھی طاری ہے کہ کہیں خود مختار بلوچستان، خود مختار جنوبی پنجاب اور خود مختار ہزارہ وغیرہ کے منصوبوں پر عمل کرکے مملکت خداداد کے حصے بخرے کرنے کیلئے ایک بار پھر’ ادھر ہم ادھر تم‘ کا خوفناک نعرہ نہ لگ جائے،ذرا سوچیں کس قدر اندوہناک منظر ہوگا جب ہمیں کوئٹہ، کراچی یا بہاولپور جانے کیلئے ویزا لینا پڑے گا یا کوئی ہمارے داخلے پر پابندی لگادے گا۔

زیادہ پرانی بات نہیں جب بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے ریپ کے ملزمان کو پھانسی دیتے ہوئے ریمارکس دیئےکہ’’ یہ پاکستان نہیں ‘‘، ان ریمارکس کو سن کر محبان وطن کو کس قدر اذیت ہوئی ہوگی ؟کیا ایسی ہوتی ہے ریاست مدینہ جس کے بارے میں ہمارے ہمسائے ایسے خیالات رکھتے ہیں ؟دل خون کے آنسو روتا ہے یہ سوچ کر کہ ہم کون تھے؟ ہم کیا تھے؟ ہمارے اسلاف نے کیا پیغام دیا؟ جنت مکانی قائد اعظم محمد علی جناح کس قدر مایوس ہوں گے کہ ان کی پاک سر زمین پر سیاسی اختلاف رائے کے نام پر کس قدر نفرت پھیلائی جا چکی ہے،نفاق کا بیج بو کر عوام کو کس قدر انتشار کے ایجنڈے پر لگا دیا گیا؟ مذموم ایجنڈے کی آڑ میں ہر قسم کی ملک دشمن سرگرمیاں زوروں پر ہیں،کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کوئی بحرانی عمل نہ ہو رہا ہو،خفیہ مداخلت اور کھلم کھلا مداخلت کے بعد نرم مداخلت کی گونج سنائی دے رہی ہے۔

عوام شدت سے سوال کررہے ہیں کہ کب تک غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹے جاتے رہیں گے؟ کب تک جمہوریت کے نام پر مرضی کے تیل میں دل پسند اجزاء ڈال کر من پسند حکومتی ہانڈی پکائی جاتی رہے گی؟ اختیارات کی بساط بچھانے اور بگاڑنے کا عمل بتدریج جاری ہے لیکن اس میں عوامی فلاح کا عنصر نظر نہیںآتا، معاشی پالیسیاں اس قدر خراب اپنائی گئیں کہ ستر سال میں پہلی بار ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا ہے لیکن مجال ہے کہ ملک کو اس خوفناک حالت تک پہنچانے والے تسلیم کرنے کو تیار ہوں۔چین سمیت دنیا بھر نے دیکھ لیا اور جان بھی لیا کہ کون کیا کرسکتا ہے اور کس کی کتنی اہلیت ہے؟کون اجاڑنے کی جبلت رکھتا ہے اور کون ترقیاتی منصوبے لگانے کے نظریے پر عمل کرتا ہے؟ کون تعمیر پر یقین رکھتا ہے اور کون مجسمہ تخریب ہے؟ کون رواداری کی جانب مائل کرتا ہے اور کون انتشار پر ابھارنے کے منصوبوں میں ماہر ہے؟

عوام جان چکے ہیں کہ 1993میں وہ کس شاخ پر بیٹھا تھا ؟1999میں وہ کس کا ہمنوا بن گیا؟2000 میں وہ کس کے گن گا رہا تھا ؟2001 میں اس نے کس سے ہاتھ ملا لیا ؟2002 کی اسمبلی میں اس نے وزیراعظم کا ووٹ کس کو دیا؟2006 میں وہ دوبارہ کس کےساتھ تھا ؟2008 میںوہ کس کے ساتھ مل گیا؟2013میں اس نے کونسی لائین اپنائی ؟ 2014کا دھرنا اس نے کس کے کہنے پر کیا ؟2016کے سینیٹ الیکشن میں وہ کس کا ساتھی بن گیا ؟2018 میں چیئرمین سینیٹ کی سیٹ کیلئے اس نے کس کو ووٹ دیا ؟اس کے باوجود اس کافخر سے بار بار کہنا ہے کہ میں کرپٹ لوگوں کے خلاف بائیس سال سے جہاد کررہا ہوں، پورے پاکستان کو دائو پر لگانے والوں نے اس کا تابناک مستقبل مخدوش کر ڈالا ہے، میرا نہیں بلکہ قوم کا موقف ہے کہ دنیا بھر کے قبرستان ایسے لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں جو خود کو ناگزیر سمجھتے تھے، چلتے چلتے یہ بھی یاددہانی کرادوں کہ جب خدائی ’’کن‘‘ ادا ہوجاتا ہے تو سامنے فرعون ہویا ہامان سب نیست و نابود ہوجاتے ہیں۔

تازہ ترین