• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

گزشتہ کالم میں‘ میں نے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ جب محترمہ بے نظیر بھٹو ایم آر ڈی کی دوسری تحریک اپنی قیادت میں شروع کرنے پر گرفتار ہوکر جیل میں قید کردی گئیں تو ایک طرف سندھ میں ایم آر ڈی تحریک نے بہت زور پکڑا اور دوسری طرف ضیاء الحق کی مارشل لا حکومت کی طرف سے سندھ کے عوام پر ظلم کی انتہا کردی گئی۔ایک مرحلے پر محترمہ نے سندھ کے عوام کو اس ظلم سے نجات دلانے کے لیے جیلوں سے باہر پی پی کی قیادت کو ہدایات دیں کہ میں چاہےجیل میں ہوں مگر فی الحال یہ تحریک بند کردی جائے۔ اس کے باوجود سندھ کے عوام اور پی پی کے کارکنوں نے پورے زور و شور سے مارشل لا حکومت کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھی ۔ اس وقت سندھ سے تعلق رکھنے والے پی پی کے انتہائی سینئر رہنما آغا غلام نبی پٹھان بھی اس جیل میں قید تھے جہاں بے نظیر بھٹو قید تھیں۔ انہوں نے کسی طرح جیل کے اندر محترمہ سے ان کے سیل میں ملاقات کی اور محترمہ سے درخواست کی کہ وہ یہ کال واپس لیں کیونکہ جس قیادت نے بھی چلتی تحریک کو بند کرانے کی ہدایات دیں اس کی اپنی قیادت ہی ختم ہوگئی ۔یہ سن کر محترمہ نے آغا صاحب سےکہا کہ میں یہ قربانی دینے کیلئے تیار ہوں اور ایک تاریخی جملہ کہا کہ’’ میں اپنی قیادت کی قربانی دے سکتی ہوں مگر یہ نہیں چاہتی کہ سندھ کے عوام پر اتنا ظلم ہو کہ وہ آئندہ 10 سے 15 سال تک اٹھ ہی نہ سکیں‘‘ تاہم تحریک جاری رہی اور آخر کار ضیاء حکومت محترمہ بے نظیر بھٹو کو رہا کرنے پر مجبور ہوگئی۔ جب تک ذوالفقار علی بھٹو راولپنڈی جیل میں قید رہےبیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو بھی پنڈی / اسلام آباد کی ہوگئی تھیں، ہر ایک دو دن کے بعد بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو پنڈی جیل میں قید بھٹو سے جاکر ملتی تھیں ۔ جب پھانسی کیلئے مقرر کی گئی تاریخ قریب آگئی تو دونوں روزانہ آکر جیل میں بھٹو صاحب سے ملتی تھیں، ان دنوں بھٹو صاحب نے دو تین بار بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو سختی سے تاکید کی کہ انہیں اگرپھانسی دی جاتی ہے تو ان دونوں کی آنکھوں میں آنسو نظر نہ آئیں، خاص طور پر جب وہ لوگوں کے درمیان ہوں‘ یہ احکامات سن کر بیگم نصرت بھٹو نے اسی وقت چیخیں مار کر رونا شروع کردیا ۔ بھٹو صاحب کو پھانسی دیئے جانے کے بعد حکومت نے ان کی نماز جنازہ کی اجازت دی اورنہ ہی بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھٹو صاحب کی آخری جھلک دیکھنے کا موقع فراہم کیا‘ بیگم بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو سندھ منتقل کرکے انہیں مختلف جیلوں میں قید کردیا گیا‘ محترمہ بے نظیر بھٹو کو سکھر سینٹرل جیل کے ایک سیل میں بندکیا گیا‘ اس وقت سخت گرمیوں کا موسم تھا‘ سندھ میں سب سے زیادہ گرمی اس زمانے میں سکھر میں پڑتی تھی‘ یہ شاید اس وجہ سے کیا گیا تھا کہ بے نظیر بھٹو اتنی گرمی برداشت نہیں کرسکیں گی اور وہ ضیاء حکومت سے معافی مانگنے پر مجبور ہوجائیں گی مگر دونوں ماں بیٹی اپنے موقف پر سختی سے جمی رہیں‘ محترمہ بے نظیر بھٹو کی طبیعت تو اتنی خراب ہوگئی کہ ان کے ناک سے خون آنا شروع ہوگیا اور خود سکھر جیل کے حکام اس قدر گھبرا گئے کہ انہیں فوری طور پر کراچی لاکر اسپتال میں علاج کرایا اور پھر واپس سکھر جیل منتقل کردیا گیا‘ یہ سختیاں نہ بیگم بھٹو کو جھکا سکیں اور نہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو۔ بہرحال کچھ عرصے کے بعد دونوں کو رہا کردیا گیا‘ دونوں 70 کلفٹن منتقل ہوگئیں‘ روزانہ شام کو پی پی کےکارکن اور کراچی کے مختلف اخبارات کے رپورٹر بھی وہاں پہنچ جاتے ‘ لوگ دھاڑیں مار مار کر روتے اور کچھ تو سر بھی پیٹتے تھے مگر محترمہ بے نظیر بھٹو انتہائی خاموشی سے یہ سب کچھ سنتی رہتیں تھوڑے تھوڑے وقفے سے لوگوں کو مخاطب کرکے چیئرمین مائوزے تنگ کا یہ جملہ دہراتیں کہ ’’غم کو طاقت میں تبدیل کردیں‘ ہم بھٹو صاحب کا بدلہ لیں گے‘‘ ۔ ہم اکثر صحافیوں کی نظریں محترمہ بے نظیر بھٹو کی آنکھوں پر ہوتیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا چہرہ شدید دکھ میں گھرا نظر آ تا مگر ایک بار بھی ان کی آنکھوں سے آنسو نہیں گرے۔ ایک بار شام کو جب اندھیرا ہورہا تھا تو ہم دو تین صحافی 70 کلفٹن میں کھڑے بات چیت کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو کی ہمت اور برداشت پر انہیں داد دے رہے تھےکہ ہمیں پیچھے سے کسی کے رونے کی آواز آئی‘ ہم نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو بھٹو خاندان کا قریبی ملازم عرس رو رہا تھا ، ہمارے پاس آ کر اس نے جو بات بتائی اس پر ہم بھی کسی حد تک روہانسے ہوگئے۔ انہوں نے بتایا کہ آپ محترمہ کی تعریف کررہے ہیں کہ ان کی آنکھوں میں اب تک کوئی آنسو نہیں دیکھا گزشتہ رات جب میں بیگم نصرت بھٹو کے کمرے سے کھانے کے برتن اٹھا کر باہر نکلا اور جیسے ہی محترمہ بے نظیر بھٹو کے کمرے کے پاس سے گزرا تو پہلے تو کمرے کے اندر سے ایک زور دار آواز آئی‘ ایسا لگا کہ دیوار سے کوئی ٹکرایا ہے‘ بعد میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی دھاڑیں مار کر رونے کی آوازیں آئیں‘ اس وقت ان کے کمرے کے سارے دروازے مکمل طور پر بند تھے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین