(گزشتہ سے پیوستہ)
فری میسن ہال (میسونک لاج)کی موجودہ عمارت جو چیئرنگ کراس شاہ دین بلڈنگ اور واپڈا ہاؤس کے سامنے ہے یہاں پر کبھی لالہ میلہ رام کی ملز کے دفاتر اور گلاب کے پھولوں کا ایک باغ بھی ہوا کرتا تھا، کبھی تاریخی ہوٹل اسٹیفل اور مینزی بھی ہوا کرتا تھا اس کی تاریخ بھی بڑی دلچسپ ہے، لارنس گارڈن اور گورنمنٹ کالج لاہور کا بوٹنیکل گارڈن موتیے اور رات کی رانی کی خوشبو سے مہکا کرتا تھا۔ کہتے ہیں رات کی رانی کی خوشبو کے پودے اور بانس کے پودوں پر اکثر سانپ آ جایا کرتے تھے ایچیسن کالج میں جب بانس کے بڑے بڑے پودے ہوا کرتے تھے تو اکثر وہاں سانپ وغیرہ آ جاتے تھے۔
فری میسن ہال کی یہ خوبصورت عمارت 1980ء تک دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی، اس تاریخی میسونک لاج کی عمارت میں اس وقت تبدیلیاں ہونا شروع ہوئی تھیں جب یہاں پنجاب کلب (ایلیٹ کلاس کے گوروں کا کلب) سیاحت پی پی، پنجاب آرٹس کونسل اور وزیرِ اعلیٰ کے دفاتر قائم ہوئے۔
نواز شریف جب وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو انہوں نے اپنی خواہش کے مطابق اس تاریخی عمارت میں کافی اکھاڑ پچھاڑ کی، اس کے تاریخی حسن کو بہت متاثر کر کے رکھ دیا گیا، خصوصاً جب چوہدری پرویز الہٰی پہلی مرتبہ وزیرِ اعلیٰ بنے تو انہوں نے اس خوبصورت ہال کی بے شمار جگہوں سے لکڑی کے دیدہ زیب فرش اتروا کر ماربل لگوا دیا۔
عمارت کے اندر لکڑی کی خوبصورت سڑھیاں تھیں کئی کمروں کے فرش لکڑی کے تھے۔ اب صرف ایک ہی ہال میں لکڑی کا فرش رہ گیا ہے۔ فری میسن ہال کے بار روم میں اب آفیسرز دوپہر کا کھانا کھاتے ہیں اور ہال کے داخلی دروازے کے سامنے اب نماز کا بندوبست کر دیا گیا ہے۔
اس عمارت کے اندر جو دروازے لکڑی کے ہیں یقین کریں ایسے خوبصورت دروازے اور ڈیزائن ہم نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھے، لکڑی کے دروازوں کے گرد خوبصورت بارڈر، لکڑی کی چوکھٹ، دروازوں کے درمیان میں دیکھنے کے لبے چھوٹا شیشہ لگا ہوا ہے، آپ جب اس عمارت میں داخل ہوتے ہیں تو واقعی آپ پر ایک عجیب و غریب کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔
اس فری میسن ہال کی موجودہ عمارت سے قبل لاج روڈ پر لاہور میں فری میسن کا پہلا آفس قائم کیا گیا تھا، یہ بات ہے 1859ء کی، پہلا میسونک ٹیمپل لاہور میں گورنمنٹ میکلیگن اسکول کی عمارت میں قائم کیا گیا تھا، اس وقت اسکول قائم نہیں کیا گیا تھا۔
لاہور پر دو اسکاٹس لوگوں کی بڑی مہربانیاں ہیں، ایک مسٹر میکلوڈ اور دوسرے مسٹر میکلیگن۔ ان دونوں نے لاہور میں تعلیمی ادارے قائم کرنے میں قابلِ فخر کردار ادا کیا۔ لاہور کا میکلوڈ روڈ اور میکلیگن روڈ ان ہی کے ناموں پر ہیں۔ ان دونوں کی تعلیمی خدمات پر پھر بات کریں گے۔ فی الحال پہلے ہم فری میسن ہال اور پھر دوسرے فری میسن ہال کی تاریخ اور تعمیراتی حسن پر بات کر رہے ہیں۔ پہلے فری میسن ہال کی عمارت کو لاہور کے زلزلے میں بہت نقصان پہنچا تھا۔ جس کا ذکر ہم اپنے پچھلے کالم میں کر چکے ہیں، پرانے فری میسن ہال میں لیڈی میکلیگن نے بچیوں کے لبے اسکول قائم کر دیا تھا اور پھر اسی پہلے فری میسن ہال کی ایک اینٹ لے کرچیئرنگ کراس والے یعنی موجودہ فری میسن ہال کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ مشہور رائٹر یارڈ کپلنگ نے اپنے ناول KIM میں بھی اس تاریخی عمارت اور فری میسن کی سرگرمیوں کا ذکر کیا ہے۔
قارئین کی دلچسپی کے لبے یہ بتا دیں کہ کراچی میں بھی وکٹوریہ روڈ پر فری میسن کا بڑا خوب صورت ہال ہے، وہ عمارت جس کا ہم نے اپنے طالب علمی کے زمانے میں بڑا بغور جائزہ لیا تھا اور اس کے اندر لکڑی کے کام کو دیکھ کر بڑی دیر تک محوِ حیرت رہے تھے، اب وہ حسنِ نفاست اور خوبصورتی کہیں نظر نہیں آ رہی تھی کیونکہ پتھر لگانے سے عمارت کا وہ تاریخی حسن بہت متاثر ہوا ہے، اگرچہ اس عمارت کے چیف کنٹرولر ملک دائم بہت حد تک آج بھی اس عمارت کو زمانے کی گرم سرد ہوا سے بچا رہے ہیں، مگر مال روڈ پر ماحولیاتی آلودگی نے اس عمارت کو متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔
پتھر لگانے سے اس عمارت کا وہ گریس اور تاریخی حسن جس کے ہم عاشق تھے وہ ختم ہو گیا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس عمارت سے دفاتر ختم کر کے اس کو ریسرچ کا ادارہ بنا کر گورنمنٹ کالج لاہور کے باٹنی ڈیپارٹمنٹ کو دے دیا جائے۔ باٹنی ڈیپارٹمنٹ کو یہ تاریخی ہال اس وجہ سےدیا جانا چاہیے کہ اس کے سامنے بوٹنیکل گارڈن اور چڑیا گھر ہے۔
چوہدری پرویز الہٰی نے فری میسن ہال کے گراؤنڈ کو وسیع کرتے ہوئے اس کے نیچے ایک ہال بنوا دیا تھا جس کے بعد چڑیا گھر والے بوٹنیکل گارڈن کے کچھ ایریا میں پارکنگ کے لیے گھس گئے ہیں۔
کبھی یہاں پر موتیے کے پھولوں اور رات کی رانی کی دل فریب خوشبو آیا کرتی تھی اب نہ موتیے کے پودے رہے، نہ رات کی رانی رہی، اب تو رات کو ڈاکو پھرتے ہیں۔ رات کی رانیاں اور مہا رانیاں تو اس شہر لاہور سے کب کی جا چکی ہیں۔
ہم نے جس زمانے میں یہ لاج دیکھا اس وقت اس میں بے شمار روشن دان اور کھڑکیاں تھیں، کھڑکیاں کچھ اب بھی ہیں۔ البتہ روشن دان کسی نہایت ہی عقل مند آفیسر نے بند کرا دیے اور اب اے سی لگا دیئے ہیں۔ ارے عقل کے اندھوں اس تاریخی عمارت میں فری میسن کے ورکرز بغیر اے سی کے کام کرتے رہے، حالانکہ وہ غیر ملکی تھے انہیں ہمارے مقابلے میں زیادہ گرمی لگتی ہے مگر ہم نے خود جب یہ عمارت دیکھی تھی اس وقت ایک بھی اے سی اس عمارت میں نہ تھا، فری میسن ہال کے اندر آج بھی یہودیوں کا نشان پڑا ہوا ہے اور عمارت کا اگر آپ واپڈا ہاؤس پر چڑھ کر یا اونچائی سے جائزہ لیں تو اس تاریخی عمارت کا تعمیراتی ڈیزائن یہودیوں کے لوگو (نشان) سے ملتا نظر آئے گا۔ (جاری ہے)