• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ اور سیاست سے دل چسپی رکھنے والے ایک شخص کے لیے کسی ملک کی تحریک آزادی کے ایک سرکردہ ترین رہنما کے حوالے سے آزادی کے بعد اُس کی قوم کے دو رویّے انتہائی افسوس ناک ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اُس رہنما کے افکار اور خیالات کو یکسر بھلا دیا جائے یا اُن سے صرفِ نظر کا رویّہ اختیار کرلیا جائے ،اُس تاریخی شخصیت کو قومی زندگی کے اہم دنوں کے موقع پر بہترین الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا جائے، اُس کو ایک علامت اور یہاں تک کہ ایک بُت بنا کر رکھ چھوڑا جائے لیکن اُس کے خیالات اور نظریات سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھا جائے۔

ایک دوسرا افسوس ناک رویّہ جو پہلے رویّے سے بھی زیادہ مایوس کُن کہا جاسکتا ہے ، یہ ہے کہ کچھ افراد کی طرف سے اُس رہنما کے خیالات میں ملاوٹ کا سلسلہ شروع کردیا جائے اور ہوسکے تو اُس کے منہ میں اپنے الفاظ ڈالنا شروع کردیے جائیں اور اپنے خیالات اوراپنے افکارکو اُس رہنما سے منسوب کرنے کا سلسلہ شروع کردیا جائے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں قائداعظم کی وفات کے بعد اُن کے ساتھ ان دونوں رویّوں کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ آزادی کے بعد سے اب تک بدقسمتی سے ہمارے یہاں جس طرح کی حکومتیں یکے بعد دیگرے آتی رہی ہیں انہوں نے ملک کو وہ حقیقی جمہوری فضا فراہم نہیں کی جس میں ہم اپنی تحریک ِآزادی کے اصل اسباب و عوامل اور بانیانِ پاکستان کے سیاسی و سماجی اور اقتصادی نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی راہ اور اپنی منزل کا فیصلہ کرتے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ہمارے یہاں ایک طرف تو ایک ایسی اکثریت ہے جو نہ تو تاریخ کے مطالعے کو ضروری سمجھتی ہے اورنہ ہی قیام پاکستان کے محرکات کو دیکھنا اُس کے نزدیک کوئی کارآمد بات ہوسکتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن میں ہمارے سیاستدان، سرکاری افسران اور سرکردہ اداروں سے وابستہ افراد بھی شامل ہیں جنہوں نے قائداعظم کو قوم کے لیے ایک محض قابل احترام علامت بنا کر رکھ دیا ہے ۔ایک بالکل بے جان سی علامت۔

دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو آئے دن اپنے نت نئے خیالات کو قائداعظم کے خیالات کہہ کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ان میں اور بھی زیادہ دیدہ دلیری کا مظاہرہ ان حلقوں کی طرف سے ہوا جنہوں نے تحریک آزادی کے زمانے میں قائداعظم کے فکرو فلسفہ کو سخت تنقیدکا نشانہ بنایا تھا اور ان کی مجوزہ مملکت کو یہ کہہ کر رد کردیا تھا کہ قائداعظم ایک قومی ریاست کا نقشہ پیش کررہے ہیں جو ان کے نقطہ نظر سے نہ تو اسلام کو مطلوب ہے اور نہ ہی وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے دور رس مفاد میں ہے۔

قیام پاکستان کے بعد ان حلقوں کی طرف سے کہا جانے لگا کہ اب جبکہ یہ ریاست بن ہی چکی ہے تو ہم اس کو اپنے تصورات کے مطابق ڈھالنے کی جدوجہد کریں گے۔ اصولی طور پر ان عناصر کو اس بات کا بھی جمہوری حق حاصل تھا کہ وہ نئی مملکت کو اپنی سوچ اور فکر کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے اور عوام کی تائید اُن کو حاصل ہوجاتی تو وہ ایسا کرنے میں حق بجانب بھی ہو جاتے ، تب وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم قائداعظم کے تصورات کے علی الرغم ریاست سازی کررہے ہیں۔

وہ ایسا کہنے میں یوں بھی حق بجانب ہوتے کیونکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ریاستیں اپنا مزاج اور اپنا تشخص بدلتی بھی رہی ہیں لیکن ہمارے یہاں ایسا نہیں ہوا۔ ہمارے یہاں قائداعظم کا نام بھی لیا جاتا رہا اور یہ بھی کہا جاتا رہا کہ وہ قائداعظم کے تصور کے مطابق ہی پاکستان کو ڈھالنے میں مصروف ہیں مگر عملاً وہ قائداعظم کے قومی ریاست کے وژن سے یکسر مختلف بنیادوں پر ریاست کی نقشہ گری میں کوشاں رہے۔ چند برسوں کے بعد اس موقف میں مزید اضافہ کیا گیا۔ اور اب کہا جانے لگا کہ پاکستان ایک قومی ریاست ہے ہی نہیں بلکہ یہ وہ ریاست ہے جو ہم چاہتے تھے اور جس کے لیے ہم قیام پاکستان سے پہلے بھی جدوجہد کررہے تھے۔

کیا ہی اچھا ہو کہ ہم بانی ٔ پاکستان کی پیدائش کی سالگرہ کے اس موقع پر اُن کے خیالات اوراُن کے سیاسی تصورات کو یاد کرنے اور اُن کو سمجھنے کی تھوڑی سی کوشش کرلیں۔ قائداعظم بیسویں صدی میں مسلم دنیا کی سب سے سرکردہ شخصیت تھے ۔ہر چند کہ مصطفی کمال اتاترک بھی جدید ترکی کے بانی ہونے کے ناطے ایک بہت بڑی سیاسی شخصیت تھے اور ۱۹۳۸ء میں ان کے انتقال پر کسی اور نے نہیں بلکہ خود قائداعظم نے فرمایا تھا کہ آج مسلم دنیا اپنے سب سے عظیم رہنما سے محروم ہوگئی ہے، قائداعظم نے مسلم لیگ کے تمام ضلعی یونٹوں سے یومِ مصطفی کمال اتاترک منانے کی اپیل بھی کی تھی لیکن اگر خود قائداعظم اور اتاترک کا موازنہ کیا جائے تو دونوں کے بڑا لیڈر ہونے کے باوجود قائداعظم کی اہمیت اس لیے زیادہ قرار پائے گی کہ جہاں مصطفی کمال اتاترک نے اپنی اور اپنی قوم کی منزل کے حصول کے لیے اپنی فوج کے ادارے پر انحصار کیا تھا، قائداعظم نے کسی فوج کے بجائے مسلم لیگ جیسی ڈھیلی ڈھالی تنظیم ،مسلم عوام کی پرجوش تائید اور اپنی آئینی اور قانونی لیاقت کے ذریعے پاکستان کے قیام کو ممکن بنا یا تھا اور اگر ایسا تھا تو قائداعظم کے خیالات اور سیاسی تصورات بے حد اہمیت کے حامل بن جاتے ہیں اور ان سے صرفِ نظر کرنا افسوسناک، اور ان میں ردّو بدل کرنا اور بھی زیادہ افسوس ناک بات ہوگی۔

یہاں اس امر کی بھی نشاندہی کی جاسکتی ہے کہ قائداعظم جیسی بڑی شخصیت ہو یا کوئی اور لیڈر، مفکر اور دانشور ،ان سب کے خیالات سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے۔ زندہ معاشرے اپنے بڑے سے بڑے لیڈر کے خیالات سے بھی اختلاف کرتے رہے ہیں۔ اس اختلاف سے اس لیڈر کی قامت میں کمی نہیں آتی۔ البتہ اختلاف کرنے والے میں اتنی اخلاقی جرأت ہونی چاہیے کہ وہ کھل کر یہ کہے کہ میں فلاں لیڈرکے فلاں خیال سے اتفاق نہیں کرتا یا اُس کے کسی بھی خیال کو درخورِ اعتنا نہیں جانتا۔ اگر کوئی یہ پوزیشن اختیار کرتا ہے تو آزادیٔ رائے کے مسلّمہ اصول کے پیش نظر اس کے اس اختلاف کو باوجود اس کے کہ وہ کتنا ہی محلِ نظر کیوں نہ ہو، اظہار کا حق دیا جانا چاہیے۔

ریاست اور سیاست کے بارے میں قائداعظم کے طرزِ فکر اور خاص طور سے پاکستان کے حوالے سے ان کے وژن کی تفہیم کے لیے کم از کم چار موضوعات پر قائداعظم کے افکار کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ ان چار موضوعات میں ریاست کے بنیادی تشخص، ریاست کی ایک وفاق کی صورت میں تنظیم، پارلیمانی جمہوریت کے نظام کے تحت ادارہ سازی اور سماجی انصاف کو یقینی بنانے والے اقتصادی نظام، جیسے موضوعات شامل ہیں۔

ان چاروں شعبوں کے اندر قائداعظم کی فکر میں ارتقا کا عمل بھی جاری رہا تھا۔ لہٰذا یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ان کے جس خیال کا بھی جائزہ لیا جائے اس کے حوالے سے یہ ضرور طے کیا جائے کہ اس میں ارتقا کے باوجود بنیادی قدر یا بنیادی سوچ کیا کارفرما رہی۔یہ حقیقت کہ پاکستان کو ایک قومی ریاست بنانا مقصود تھا لامحالہ ہم کو قائداعظم کے دو قومی نظریے کی معنویت اور اس کے حدود اربعہ کو سمجھنے پر مجبور کرتی ہے ۔قائداعظم کم از کم تین عشروں تک ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک اقلیت ہی قرار دیتے رہے جس کے لیے وہ متحدہ ہندوستان میں مناسب ترین مقام اور نمائندگی کے لیے کوشاں رہے تھے۔

جب ان کی یہ کاوشیں کانگریس ، ہندو مہا سبھا اور دیگر تنظیموں کی مزاحمت کے نتیجے میں کامیاب نہیں ہوسکیں تو ۱۹۳۰ء کے عشرے سے انہوں نے مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم قرار دینا شروع کیا۔ یہیں سے ان کا دو قومی نظریے پر بھی اصرار شروع ہوا۔ گو ۱۹۴۶ء میں کیبنٹ مشن پلان کی آمد تک ہندوستان کی وحدت کو کسی نہ کسی شکل میں قائم رکھنے پر آمادہ تھے لیکن اس عرصے میں وہ مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم بھی قرار دیتے رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسا کرتے وقت ان کے پیشِ نظر دنیا کی وہ مملکتیں تھیں جہاں ایک سے زیادہ قوموں کے وجود کو تسلیم کیا جاتا تھا۔

ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک الگ قوم قرار دیتے وقت کم از کم پانچ مزید حقائق قائداعظم کے بیانات سے واضح ہوتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ اُن کا مسلمانوں کو ایک الگ قوم قرار دینا کسی طور ہندوئوں سے نفرت یا ان کی مخاصمت کے معنی نہیں رکھتا تھا۔ ان کا کہنا صرف یہ تھا کہ ایک جمہوری نظام میں ان دونوں قوموں کا ساتھ آگے چلنا مشکل ہوگا۔ ان کے بیسیوں ایسے بیانات ہیں جو یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ وہ کسی طور مذہبی منافرت یا فرقہ واریت پر یقین نہیں رکھتے تھے۔۱۹۳۴ میں انہوں نے کہا : ’’ہندو اور مسلمان ایک جسم کے دو بازو ہیں مگر ایسا جسم کس کام کا جس کا ایک بازو فالج زدہ ہو‘‘۔ ۷مارچ ۱۹۴۷ء کو میمن چیمبرز سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا تھا: ’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں عظیم ہندو کمیونٹی اور اُس سب کا جس کی کہ وہ علمبردار ہے ،احترام کرتا ہوں۔

اُن کا اپنا عقیدہ ہے ،اپنا فلسفہ ہے،اپنا عظیم کلچر ہے۔ ایسا ہی مسلمانوں کا بھی ہے، لیکن دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔۔۔ میں پاکستان کے لیے لڑ رہا ہوں کیونکہ یہ مسئلے کا واحد حل ہے ۔اور دوسرا (حل،یعنی) متحدہ ہندوستان کا آئیڈیل اور پارلیمانی طرز حکومت پر استوار حکمرانی ایک لاحاصل خواب اور ناممکن بات ہے ‘‘ ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ قائداعظم دو قومی نظریے کی بات کرتے وقت مذہبی منافرت (Communalism) کے علمبردار نہیں بلکہ تمام و کمال ایک سیاسی طرزِ فکر اور حکمت عملی کو اختیار کررہے تھے۔سیاسی جمعیت سازی میں بالعموم ثقافتی شناختوں کو بنیاد بنایا جاتا ہے ۔قائداعظم بھی اسی طرزِ عمل کا مظاہرہ کررہے تھے۔

دوسری اہم بات یہ کہ ایک مرتبہ جب قائداعظم نے مسلمانوں کو ایک قوم قراردے دیا تو اس کے حق میں ان کے سارے دلائل وہ تھے جو قوم اور ریاست کے حوالے سے ان کے اپنے زمانے کے جدید تر دلائل تھے۔ مسلمانوں کے ایک قوم ہونے کا دعویٰ اس وقت کیا گیا جب دنیا میں قوموں کے حق خودارادی کا چلن عام ہورہا تھا اور لیگ آف نیشنز قوموں کے خود ارادی کے حق کو تسلیم کرچکی تھی۔۱۹۴۰ء کی قرار داد پیش کرنے کے موقع پر قائداعظم کا یہ کہنا کہ مسلمان بین الاقوامی قانون کے ہر اصول کی رو سے ایک قوم ہیں ، واضح کرتا ہے کہ وہ جدید تصورِ قومی ریاست ہی سے استفادہ کررہے تھے۔

دو قومی نظریے کا تیسرا اہم پہلو یہ تھا کہ جب مسلمانوں کو ایک قوم قراردیا جارہا تھا تو ایسا کرتے وقت خود مسلمانوں میں کوئی تخصیص نہیں کی جارہی تھی ۔ کسی بھی رنگ، نسل یا فرقے سے تعلق رکھنے والے مسلمان اس قوم کا حصہ ہوسکتے تھے۔ ان میں اچھے ، صالح ، بُرے اور بہت بُرے ہر طرح کے مسلمان شامل تھے کیونکہ مسلم قوم کی حد بندی کرتے وقت ان کا صرف مسلمان ہونا بنیاد قرار دیا گیا تھا۔ لہٰذا ہر کلمہ گو اس میں شامل کرلیا گیا تھا۔یہ عین وہ اسلوب تھا جو قومی ریاستوں میں اختیار کیا جاتا ہے جہاں ریاست کی حدود میں موجود تمام شہریوں کو بغیر کسی امتیاز کے شہریت کے حصول کا اہل سمجھا جاتا ہے اور ان پر پابندی نہیں لگائی جاتی کہ وہ پہلے کسی مسلک کے سچے پیروکار بنیں جس کاتعین کرنا ویسے بھی ناممکن ہے ۔

دو قومی نظریے کے حوالے سے چوتھی اہم بات یہ ہے کہ گو کہ مسلمانوں کو ایک قوم قرار دیا گیا ۔ لیکن ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کردی گئی کہ قائداعظم اور مسلم لیگ کا مدعا صرف ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک قوم قرار دینا ہے۔یہ وضاحت کرنا اس لیے ضروری تھا کہ دو قومی نظریہ پیش کرتے ہی یہ سوالات اٹھنے شروع ہوگئے تھے کہ مسلمان تو دنیا کے اور ملکوں میں بھی بستے ہیں تو کیا وہ بھی قائداعظم اور لیگ کی مسلمان قوم کی تعریف میں شامل ہیں؟ یہ سوال بڑے متعین طور پر گاندھی نے پوچھا تھا جس کا واضح جواب قائداعظم نے یہ کہہ کر دیا تھا کہ ان کا مقصد صرف ہندوستان کے مسلمانوں تک اس تصور کو محدود رکھنا ہے۔

دو قومی نظریے کے حوالے سے پانچواں اہم نکتہ یہ ہے کہ جب متحدہ ہندوستان کے اندر مسلمان قوم کے اُس مقام اور کردار کو تسلیم نہیں کیا گیا جس کی وکالت قائداعظم کررہے تھے تو ہندوستان کی تقسیم ناگزیر قرار پائی۔تب یہ طے کرنا ضروری تھا کہ اب مسلمان قوم کی ریاست کہاں قائم کی جائے ۔ظاہر ہے یہ ریاست پورے ہندوستان پر پھیلی ہوئی نہیں ہوسکتی تھی ہر چند کہ مسلمان قوم پورے ہندوستان میں پھیلی ہوئی تھی۔ لہٰذا مسلم اکثریتی صوبوں کو مجوزہ ریاست کی بنیاد بنایا گیا۔ اس ریاست میں جو مسلمان پہلے سے موجود تھے ، وہ اور پھر وہ مسلمان جو ہندوستان کے دوسرے خطوں سے ہجرت کرکے یہاں آئے وہ تو پاکستان کا حصہ بن گئے لیکن مسلمان قوم کا ایک بڑا حصہ ہندوستان میں رہ گیا جس کے لیے قیام پاکستان پر قائداعظم کا یہ پیغام تھا کہ وہ اب ہندوستان کے شہری بن کر رہیں۔

پاکستان کا ایک قومی ریاست کے طور پر وجود میں آنا ہی اس کی نمایاں خصوصیت تھی۔چنانچہ تاریخ نویسوں نے اسی پہلو کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے کہ قائداعظم نے ہندوستان کے ایک ایسے سیاسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے جو مذہبی رنگ اختیار کرگیا تھا، کس طرح ایک جدید قومی ریاست بنا کر حل کردیا۔ مشہور مؤرخ اسٹینلے وولپرٹ (Stanley Wolpert)نے قائداعظم کے اسی کردار کا اعتراف ان الفاظ میں کیا: ’’ کچھ ہی لوگ تاریخ کے رخ کو فیصلہ کن انداز میں موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ اور بھی کم ہوتے ہیں جو دنیا کے نقشے کو بدل سکیں اور یہ ہنر تو شاید ہی کسی کو آتا ہو کہ ایک قومی ریاست کی تشکیل کرسکے۔ محمد علی جناح نے یہ تینوں کام کیے‘‘۔

قیام پاکستان پر قائداعظم نے پاکستان کی قومی ریاست ہونے کے تشخص کو اور بھی زیادہ واضح کردیا۔پاکستان میں مسلمان اکثریت کے علاوہ ہندوئوں کی ایک بڑی اقلیت بھی موجود تھی اور اس کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی رہتے تھے۔ اب صورت حال یہ تھی کہ اگر پاکستان بھی وہی طرز عمل اختیار کرتا جو ماضی میں کانگریس نے اختیار کررکھا تھا تو پاکستان بھی اکثریت اور اقلیت کے ایک ایسے سیاسی گرداب میں پھنس جاتا جو ایک طرف اس ملک کو کمزور کرنے کا باعث بنتا اور دوسری طرف پاکستان کی قومی ریاست پر وان نہ چڑھ سکتی۔

چنانچہ قائداعظم نے ۱۱ ؍اگست ۱۹۴۷ء کی اپنی تقریر میں بہت وضاحت سے یہ کہہ دیا کہ پاکستان میں سب شہری برابر ہوں گے اور سب کے حقوق بھی یکساں ہوں گے۔ انہوں نے کہا: ’’ ہمیں اس جذبے کے ساتھ کام کرنا شروع کردینا چاہیے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ اکثریت اور اقلیت ، ہندو فرقے اور مسلمان فرقے کے یہ چند در چند زاویے معدوم ہوجائیں گے۔ اب آپ آزاد ہیں۔اس مملکتِ پاکستان میں آپ آزاد ہیں۔ اپنے مندروں میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو ، کاروبار ِ مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں‘‘۔ اس سے زیاد ہ پاکستان کے ایک قومی ریاست ہونے کے حق میں مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رہتی ۔گوکہ اس ضمن میں قائداعظم کے کیریئر اور ان کے بیانات سے بہت سے مزید دلائل بھی یکجا کیے جاسکتے ہیں۔

ریاست کے قومی تشخص اور کردار کے علاوہ قائداعظم کی فکر سے ملک کے سیاسی نظام کے حوالے سے بھی بھرپور طریقے سے استنباط کیا جاسکتا ہے۔پاکستان ایک وفاق کی حیثیت سے وجود میں آیا۔ قائداعظم اپنے پورے کیریئر میں صوبائی خود مختاری کے علمبردار رہے  ۔جب وہ متحدہ ہندوستان کے دائرے میں مسلم اکثریتی صوبوں کے لیے غیر معمولی حقوق اور خود مختاری طلب کررہے تھے تب بھی ان کے سامنے وہ معاشی تجزیے تھے جن میں یہ بتایا جارہا تھا کہ متحدہ ہندوستان میں اگر مضبوط مرکز قائم ہوا تو شمال مغرب اور شمال مشرق کے خطے جو پہلے ہی پسماندہ تھے اُس مرکزی حکومت کے تحت مستقل طور پرنظر انداز کیے جاتے رہیں گے جس مرکزی حکومت میں ہندوئوں کو اکثریت میں ہونے کے ناطے فوقیت حاصل ہوگی۔ 

مزید برآں جب ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کا اصولی فیصلہ ہوگیا تو اس کو قانونی شکل اُسی وقت حاصل ہوئی جب پاکستان میں شامل ہونے والے صوبوں سے پوچھا گیا کہ آیا وہ پاکستان کے وفاق میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا نہیں؟ صوبوں کی آمادگی کے بعد ہی پاکستان کا وفاق وجود میں آیا۔ پاکستان میں وفاقی نظام کی ناگزیریت کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ پاکستانی معاشرہ کثیر الثقافتی اور کثیر اللسانی معاشرہ ہے۔ یہاں مختلف وحدتوں کی جداگانہ تہذیبی شناختیں بھی ہیں۔ ماضی میں ان کے سیاسی تجربات میں بھی تنوع موجود رہا ہے ۔چنانچہ پاکستانی معاشرہ جس کو ایک وفاقی معاشرہ بھی کہا جاسکتا ہے اسی چیز کا متقاضی تھا کہ اس کی سیاسی تجسیم بھی وفاقیت کے اصولوں کے مطابق کی جاتی۔

قیام پاکستان کے فوراً بعد مشرقی بنگال اور دوسرے پاکستانی صوبوں کا اصرار بھی یہی تھا کہ اُن کے جداگانہ تشخص کو مجروح کیے بغیر اور اُن کے سیاسی و اقتصادی مفادات اور حقوق کو یقینی بناتے ہوئے ایک ایسا وفاقی نظام تشکیل دیا جائے جو قابلِ عمل بھی ہو اور جس میں خود مختاری کے اصول کو بدرجہ ٔ اتم برتنے کا انتظام کردیا جائے۔ اس امر کو تسلیم کرلیا جائے تو اس حقیقت کے اعتراف میں دشواری نہیں ہونی چاہیے کہ پاکستان میں صوبائی خود مختاری ممکن ہی اُ س وقت ہوسکتی تھی جبکہ ملک کو ایک ایسی قومی ریاست بنایا جاتا جس کی وحدتیں کثرت میں وحدت کا ذریعہ بننے پر آمادہ ہوتیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کا احساس قائداعظم کو شروع ہی سے رہا۔

قائداعظم کی فکر کا ایک اہم پہلو پارلیمانی طرز حکومت سے متعلق تھا۔قائداعظم کی سیاسی سوچ پر پارلیمانی طرزِ حکومت سب سے زیادہ اثر انداز ہوا۔ برطانیہ میں انہوں نے اس نظام کو روبہ کار ہوتے ہوئے دیکھا۔ہندوستان آنے کے بعد انہوں نے یہ ضرور محسوس کیا کہ اگر عوام ثقافتی بنیاد پر ایک بڑی اکثریت اور ایک اقلیت میں تقسیم ہوجائیں تو پارلیمانی نظام کے ثمرات حاصل نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے لیے آئینی تحفظات کی بات کی لیکن اس حقیقت سے قطع نظر خود پارلیمانی نظام ان کے نزدیک ایک بہتر نظام تھا۔ 

زمانۂ طالب علمی میں انہوں نے خواہش ظاہر کی تھی کہ کاش وہ برطانیہ کے ہائوس آف کامنز میں ایک رکن بن سکتے۔ ہندوستان واپس آنے کے بعد وہ کوئی دس سال یعنی ۱۹۰۹ء سے ۱۹۱۹ء تک امپیریل لیجسلیٹو کاؤنسل کے رکن رہے۔ ۱۹۲۳ء میں وہ سینٹرل لیجسلیٹو کائونسل میں شامل ہوئے اور ۱۹۳۱ء تک اس کے اجلاسوں میں شریک ہوتے رہے۔ یہ سلسلہ اس وقت رکا جب وہ برطانیہ میں قیام پذیر رہے۔۱۹۳۴ء میں وہ ایک مرتبہ پھر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔

ان قانون ساز اداروں میں قائداعظم کی تقاریر ان کی قانون پر گہری نظر، منطقی استدلال، تجزیے کی غیر معمولی صلاحیت، زبان و بیان پر قدرت اور مختصر ترین الفاظ میں زیر بحث موضوع پر گفتگو کی اہلیت پر غیر معمولی روشنی ڈالتی ہیں۔ ان کے بارے میں لندن ٹائمز نے لکھا کہ وہ ایک طاقتور مقررہیں اور ایف ای جیمز نے اُن کے منفرد پارلیمانی اوصاف کا اعتراف کیا۔ان کے بارے میں کہا گیا کہ وہ ایک پیدائشی پارلیمینٹیرین ہیں۔ قائداعظم کا قانون سا زاسمبلیوں کی رکنیت کے زمانے میں ہمیشہ یہ موقف رہا کہ برطانیہ نے جس طرح انتظامیہ کومقننہ کے سامنے جوابدہ بنانے کا اپنے ملک میں انتظام کیا ہے، اسی طرح ہندوستان میں بھی انتظامیہ کو مقننہ کے سامنے جوابدہ بنایا جانا چاہیے۔ پاکستان بننے کے موقع پر اپنی ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر میں قائداعظم نے پارلیمان کو مقتدر ادارہ قرار دیا تھا ۔ایسا کرتے وقت ظاہر ہے کہ ان کے ذہن میں پارلیمانی نظام کا یہی وصف تھا جس کی رو سے پارلیمان دیگر تمام اداروں پر فائق تصور کی جاتی ہے کیونکہ یہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتی ہے ۔

قائداعظم کی فکر اور وژن کا ایک اور پہلو اُن کی سماجی انصاف سے متعلق سوچ سے عبارت ہے۔جب قیام پاکستان کامرحلہ آیا تو قائداعظم نے کئی ماہرین ِ معاشیات سے نئی مملکت کے اقتصادی امکانات کے بارے میں معلومات حاصل کیں ۔ ان تمام کاوشوں کی بہت عمدہ تفصیل ڈاکٹر نورین طلحہ نے اپنی کتاب 'Economic Factors in the Making of Pakistan' میں درج کردی ہیں ۔ان تفصیلات سے اور قائداعظم کے دیگر بیانات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کو معاشی لحاظ سے ایک قابل عمل ریاست تصور کرتے تھے جس میں معاشی ہم آہنگی، ریاست کے جدید قومی تشخص کو مضبوط بنانے کا ذریعہ ثابت ہوتی۔ پاکستان کے حوالے سے قائداعظم کی اقتصادی سوچ علامہ اقبال کے ساتھ ان کے مراسلات میں بھی نمایاں ہوتی ہے۔

علامہ اقبال نے قائداعظم کے نام اپنے خطوط میں مسلمانوں کی اقتصادی پسماندگی کو موضوع بنایا بلکہ خود مسلمانوں میں طبقاتی تفریق کی موجودگی کو بھی ہدفِ تنقید بنایا۔۱۹۴۳ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ دہلی میں واشگاف الفاظ میں کہا :’’پاکستان میں عوامی حکومت ہوگی اور یہاں میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کردوں جو ایک ظالمانہ اور قبیح نظام کے وسیلے سے پھل پھول رہے ہیں اور اس بات نے انہیں اتنا خود غرض بنادیا ہے کہ ان کے ساتھ عقل کی کوئی بات کرنا مشکل ہوگیا ہے۔عوام کی لوٹ کھسوٹ ان کے خون میں شامل ہوگئی ہے۔

انہوں نے اسلام کے سبق بھلا دیے ہیں۔ حرص اور خود غرضی نے ان لوگوں کو اس بات پر مائل کررکھا ہے کہ دوسروں کے مفادات کو اپنے مفادات کے تابع بنا کر موٹے ہوتے جائیں ۔میں گائوں میں گیا ہوں۔ وہاں لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں ہمارے عوام ہیں جن کو دن میں ایک وقت کی روٹی نصیب نہیں۔ کیا یہی تہذیب ہے ؟ کیا یہی پاکستان کا مقصود ہے؟ اگر پاکستان کا یہی تصور ہے تو میں اس کے حق میں نہیں ہوں۔ اگر یہ (سرمایہ دار اور جاگیردار) عقل مند ہیں تو انہیں زندگی کے جدید حالات کے ساتھ مفاہمت کرنی ہوگی اور اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو ان کا خدا حافظ ہے ۔ہم ان کی کوئی مدد نہیں کریں گے‘‘۔

ریاست کا سماجی انصاف کے اصولوں کا پاس کرنا قائداعظم کے نزدیک ریاست کے استحکام کے لیے ناگزیر تھا ۔قائداعظم نے اکثر و بیشتر اپنی تقاریر میں اسلام کا حوالہ دیا ۔ایسا کرتے وقت اسلام کی جس تعلیم کو انہوں نے سب سے زیادہ اپنی گفتگو کا موضوع بنایا و ہ سماجی انصاف اور عدلِ عمرانی کی تعلیم تھی۔ ایسا کرتے وقت اُن کے علم میں تھا کہ اقتصادی انصاف کے اصول کے بہت سے ماڈل دنیا میں موجود ہیں۔ قائداعظم کے معاشیات سے متعلق بیانات کو دیکھا جائے تو بحیثیتِ مجموعی وہ ملی جُلی معیشت کے حامی نظر آتے ہیں، ہر چند کہ انہوں نے بعض اوقات دوسرے ماڈلز کا بھی ذکر کیا اور چٹا گانگ کی اپنی ایک تقریر میں انہوں نے اسلامی سوشلزم کی اصطلاح بھی استعمال کی۔ 

بنیادی طور پر قائداعظم پاکستان کی قومی ریاست میں ایک ایسی معیشت کا دور دورہ دیکھنا چاہتے تھے جس میں امیر و غریب کے درمیان وہ بھیانک تفاوت موجود نہ ہوتا جو انہوں نے ہندوستان میں بھی دیکھا تھا اور گردو پیش کی دوسر ی دنیا میں بھی اُس کے مظاہر کچھ کم نہیں تھے۔ پاکستان بننے کے بعد معاشرے میں طبقاتی تقسیم میں جو اضافہ ہوا وہ ہماری ریاست کی کمزوری پر منتج ہوااور ریاست کی یہ کمزوری اُس وقت تک طاقت میں نہیں بدل سکتی جب تک کہ طبقاتی تقسیم کی یہ صورت حال ختم نہیں ہوتی۔

قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان کی ریاست کے حوالے سے افکار روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔ ان افکار سے خلوصِ نیت کے ساتھ استنباط کیاجائے تو پاکستان حقیقی معنوں میں ایک جدید قومی ریاست بن سکتا ہے ۔بہ صورتِ دیگر ہم مختلف دائروں میں بھٹکتے رہیں گے اور ذہنی و فکری خلفشار ہمیں ایک قوم بننے سے باز رکھے گا۔