قائد اعظم کا پاکستان اپنے قیام کے صرف 24سال بعد. دولخت ہوکر قوم کو ایک عظیم صدمے سے دو چار کر گیا۔آج اس المیے کو تین دہائیاں گزرنے کے بعد بھی یہ طے نہیں کیا جاسکا کہ پاکستان توڑنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ حالات کی سنگینی کو اس نہج پر پہنچانے میں غیر ملکی طاقتوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جنہوں نے بھارت کے ساتھ متحد ہوکر بنگالی عوام کے ذہنوں میں مغربی پاکستان اور غیر بنگالیوں کے لیے نفرت کے بیج بوئے اور انہیں کھلی بغاوت پر آمادہ کیا۔
کسی نے حقوق کی جنگ لڑی تو کسی نے مفادات کی،کوئی آزادی کا علمبردار بنا تو کوئی غداری کا مرتکب ہوا۔کوئی منظر پر رہا توکسی نے پسِ منظر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ سچ تو یہ ہے اسلامی تاریخ کی سب سے بڑی اورذلت آمیزشکست وریخت میں ان تمام کرداروں نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔مسلم بنگال سے پاکستان پھر مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے میں کس نے کیا کردار ادا کیا ؟ ان حقائق کو سمجھنے کے لیے ہمیں ملکی سیاسی تاریخ کے ان گوشوں پر نظر ڈالنا ہوگی جو بنگالی عوام کے دلوں میں احساس محرومی پیدا کرنے کا موجب بنے اور بالاخر حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ بنگالیوں نے غیر ملکی حمایت سے بغاوت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
سرسید احمد خان نے 1888ء میں میرٹھ کے مقام پر دو قومی نظریئے کے تصور کو اس کا نام دیئے بغیر اجاگر کیا انہوں نے استفسار کیا کہ انگریز حکمران اپنی فوج اور جدید ترین اسلحہ و. بارود لیکر ہندوستان سے رخصت ہوں تو کون اس ملک کا حکمران ہوگا۔ کیا یہ ممکن ہوگا کہ محمداور ہندوایک تخت پر براجمان ہو کر یکساں قوت کے حامل ہو سکیں گے۔ یقیناً ’’نہیں‘‘ ان کا کہنا تھا پھر ضروری ہوتا کہ ایک قوم دوسری کو مسخر کرلے اور اسے زمین پر پٹخ دے یہ توقع کرنا کہ ان میں مساوات رہے، یہ ناممکن اور ناقابل تصور ہے۔
دوسری جنگ عظیم میں ہندو قیادت نے ہندوستان کی شمولیت پر یہ کہہ کر اعتراض کردیا کہ اس میں ہندوستان کی رضا مندی حاصل نہیں کی گئی دراصل وہ حکمرانوں کو دباؤ میں لانا چاہتے تھے کہ انہیں اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا اور ان سے اجازت کیوں حاصل نہیں کی گئی جوواص اشارہ تھا کہ انہیں ہندوستان کی قسمت کا آئندہ وارث تسلیم کیا جائے مسلمانوں نے ان ارادوں کو بھانپ کر ان کے بارے میں اپنے تحفظات ظاہر کئے اسی اثنا میں 1940ء میں مسلمانان ہند نے تقسیم ملک کا باضابطہ مطالبہ کردیا۔
ہندو انتہا پسندوں نے اسے بھارت ماتا کا بٹوارہ قراردیا اور بھارت کی اکھنڈ تاکو برقرار رکھنے کے لئے ریشہ دوانیوں کو تیز کردیا۔ حکیم الامت علامہ اقبال نے موجودہ پاکستان اور مشرقی بنگال کے علاقوں پر مشتمل الگ ملک قیام پاکستان کے تصور کو اجاگر کیا اور اس کی تحریک مشرقی بنگال کے منتخب وزیراعلیٰ مولوی اے کے فضل الحق نے پیش کی، اسے قرارداد لاہور کا نام دیاگیا جسے ہندو میڈیا نے قرارداد پاکستان کا نام دیکر اپنی طرف سے شرانگیزی کی حالانکہ اس سے آل انڈیا مسلم لیگ کو تقویت ملی انہی دنوں میں نئی دہلی میں آل انڈیا آزاد مسلم کانفرنس نے سراٹھایا جس نے مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہوئے ہندوستان کی تقسیم کی مخالفت کردی۔
آل انڈیا مسلم لیگ نے اسے فتنہ قرار دیا اور مابعد واقعات نے ثابت کردیا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کو ہی مسلمانوں کی حقیقی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہے تحریک پاکستان میں ہی نہیں قیام پاکستان کے بعد بھی موقع بے موقع فتنہ گری ہوتی رہی ،ر فتنہ پرور سیاستدان جنم لیتے رہے اور تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہوتے رہے۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد ہندوئوں نے اس کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا وہ اسے ناکام بنانے کے لئے اس کے قیام سے پہلے ہی متحرک ہو چکے تھے ان کے بڑے رہنما مہاتما کہلوانے والے موہن چند کرم داس گاندھی پنڈت جواہرلعل نہرو کا مراج اورپت جسے ٭٭٭ نے پورے زور وشور سے تقسیم ہند کی مزاحمت کی یہ مسلمانوں کے جذبہ ایمانی اور قائداعظمؒ کی فراست کا نتیجہ تھا کہ تمام سازشیں ناکام ہوئیں اور 14؍اگست 1944کو طلوع آفتاب کے ساتھ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کا نمائندہ ملک پاکستان بھی منصہ شہود پر آگیا۔
وسائل کے اعتبار سے یہ ہی ملک تھا جس کے مسائل ان گنت تھے جن سے نمٹنا نوزائیدہ مملکت کی قیادت کے سامنے پہاڑ کی طرح کا چیلنج تھا۔ مہاجرین لاکھوں کی تعداد میں آرہے تھے، جو بے سروسامانی کے عالم میں اپنے نئے وطن کی آغوش میںآنے کی خاطر اپنے خاندان کے خاندان کٹوا کر اور آبائو اجداد کی جائیداد چھوڑ کر یہاں پہنچ رہے تھے۔ ہندوستان کی کوکھ سے پیدا ہوئے بھارت نے وسائل اور اثاثوں کی تقسیم میں پاکستان کو اس کا طے شدہ حصے دینے سے مجرمانہ انکارکردیا اس پرگاندھی جی نے دکھاوے کامرن برت بھی رکھا۔
نئے ملک میں انتظامی ڈھانچہ سرے سے ہی موجود نہیں تھا۔ اس سے ملک پر اس وقت قیامت گزر گئی جب اسے معرض وجود میں آئے محض ایک سال ہی ہوا تھاکہ مسلمان ہند کے مسلمہ رہنما حضرت قائداعظم محمد علی جناح رحلت فرماگئے اس سانحہ کے بعد ملک کی قیادت جن ہاتھوں میں آئی وہ بانیان پاکستان میں شمار ضرور ہوتے تھے ان میں اس ژوف نگاہی کا فقدان تھا جو رب العزت نے حضرت قائداعظمؒ کو ودیعت کر رکھی تھی اس مرحلے پر اگر یہ نشاندہی کردی جائے تو شاید موزوں ہوگا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی داغ بیل جن ہاتھوں نے رکھی تھی ان کے خاندانوں سے وابستہ افراد پاکستان کے انتظام و انصرام میں کلیدی حیثیت سے محروم رہے مشرقی پاکستان میں انہیں اثرونفوذ حاصل تھا مغربی پاکستان میں ان کا عمل دخل اس طرح برائے نام تھا کہ مرکزی حکومت میں وہ اپنے نئے مقام نہ بنا سکے یا انہیں بنانے نہیں دیا گیا۔
انتظامی مسائل کو حل کرنے کے لئے نئی حکومت کے پاس سرے سے کوئی لائحہ عمل ہی موجود نہیں تھا تحریک پاکستان کے ایام میں ماحول حد درجہ جذباتی تھا اور مسلمانوں کی قیادت کی تمام تر توجہ نئے ملک کے معرض وجود میں لائے جانے کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بنانے پر مرتکزتھی اور دستور سازی پر خاطر خواہ توجہ نہ دی جا سکی قائداعظمؒ نے ملکی آئین اور نظام کے خدخیل بیان کر دیئے تھے ان کی عملی تفسیر کے لئے ضروری تھا کہ باضابطہ طور پر دستاویز مرتب ہوتی، جسے رہنمائی کے لئے بروئے کار لایا جاتا۔ ملکی نظام 1935ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت معمولی ردوبدل سے چلایا جا رہا تھا جسے بھارتی حکومت نے بھی من و عن اپنا رکھا تھا بھارتیوں نے روزاوِّل سے ہی اپنے ملک کے آئین کی ترتیب و تدوین پر توجہ دینا شروع کردی جبکہ پاکستان میں اسے مطلوبہ ترجیح نہیں مل سکی۔اس کے اسباب پرمباحث کے دفترکھل چکے ہیں جسے پاکستان کولاحق امراض اور خرابیوں کا بنیادی ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔
اس بارہ سال پرانے ایکٹ میں انتظامی ڈھانچے کی مقتسیات کو سمودیا گیا تھا وہ ایک نظریاتی ملک کی ضرورتوں سے ہم آہنگ نہیں تھا اس کے جامع ہونے میں کلام نہیں تھا۔ گورنر جنرل کو تاج برطانیہ کا نمائندہ قراردیاگیا تھا اور اسے بے مثال اختیارات حاصل تھے وزیراعظم اس کے ماتحت تھا۔ قائداعظمؒ ملک کے پہلے گورنر جنرل تھے ان کی وفات کے بعد مشرقی پاکستان کے خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل بنائے گئے۔ نوابزادہ لیاقت علی خان جو قائداعظمؒ کے مقرب تھے۔ ملک کے پہلے وزیراعظم بنے، انہیں ملک بننے کے چار سال بعد راولپنڈی کے بھرے جلسے میں گولی مار کر شہید کردیاگیا تو خواجہ ناظم الدین وزیراعظم بنا دیئے گئے۔ یہی وہ ایام تھے جب ملک محلاتی سازشوں کی زد میں آگیا۔
عوام کے مسائل خاص سست روی سے حل ہو رہے تھے جنہوں نے مشکلات سے سمجھوتہ کر لیا تھا ان کے نزدیک اپنا آزاد وطن مل جانا ہی دنیا کی سب سے بڑی نعمت تھی۔کراچی ملک کا دارالحکومت تھا، اعلیٰ سرکاری ملازمین عوام کے مسائل حل کرنے سے زیادہ سیاسی امور میں دلچسپی رکھتے تھے اس کا سبب اقتدار کی بالاتر مسندوں پر بیٹھے ان افراد کی ہوس تھی جو اس مملکت خداداد کو اپنے شکنجے میں رکھنے کے خواہاں تھے۔ ا اس طرح پاکستان اپنی زندگی کے ابتدائی برسوں میں اقتدار کی ایسی کشمکش کا شکار رہا جس کا وہ متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔
دوسری جانب بھارت کے کشمیر کے وسیع علاقے پر غاصبانہ قبضہ کرلیا تھا اس نے ان خودمختار ریاستوں کو پاکستان کے حوالے کرنے کی بجائے ان پر اپنا تسلط جما لیا جو انہی مسلمان اکثریتی آبادی یا اپنے حکمرانوں کے آزادانہ فیصلوں کی وجہ سے پاکستان کا حصہ بننے کا فیصلہ کر چکی تھیں۔ بھارت نے ان فیصلوں کو ٹھکراتے ہوئے وہاں جارحیت کے ذریعے ان ریاستوں کو قابو کر لیا۔
کشمیر جسے قائداعظمؒ پاکستان کی شہ رگ قراردے چکے تھے اس کے بڑے علاقے پر نہ صرف بھارتی حکومت نے قبضہ کر رکھا تھا بلکہ وہاں کے عوام پرجبروظلم کا بازار بھی گرم کر دیا تھا قبائلی لشکریوں نے اس کے ایک حصے کو آزاد کرالیا کہ ان کی پیش قدمی بوجوہ رُک گئے یہ مسئلہ قائدؒ کی زندگی میں ہی سراٹھا چکا تھا چلتے چلتے 1958ء کی آخری سہ ماہی آگئی ملک کا اقتدار جس کی بساط پر سینئر سروس سرونٹس مہرے چل رہے تھے اور اس میں عندالضرورت مسلح افواج کی خدمات بھی حاصل کرتے تھے اب اقتدار کا منظر تبدیل ہو گیا فوجی قیادت نے محسوس کیا کہ سول سرونٹس ان کی خدمات سے استفادہ کرکے خود حکومت پر اپنا تصرف جما لیتے ہیں وہ بھرپور قوت اپنے ماتحت رکھتے ہیں کیوں نہ وہ خود اس کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھیں سول سرونٹ سے سیاستدان اور پھر گورنر جنرل بنے میجر جنرل اسکندر مرزا کے ذریعے ملک میں مارشل لاء نافذ کرایا گیا پھر ایک رات ان کی خوابگاہ پر شب خون مارتے ہوئے ان سے استعفیٰ لیکر رات کی تاریکی میں وہ بیرون ملک بھیج دیئے گئے یوں اس پاکستان میں فوجی اقتدار اور آمریت کا عہد شروع ہوا جسے اس کے بانی نے پارلیمانی جمہوریت کے نظام کے ماتحت رکھنے کا حکم دیا تھا اور خود اس ملک کا وجود جمہوری عمل کا رہین منت تھا۔ دنیا پاکستان کا تقابل بھارت سے کرتی تھی جہاں نہ صرف ملک کا آئین تیار ہو کر نافذ ہو چکا تھا بلکہ وہاں جمہوری نظام اپنی تمام تر مملکتی کمزوریوں کے باوجود چل رہا تھا اور ایسے کوئی آثار نہیں دکھائی دے رہے تھے کہ وہ جمہوری پٹڑی سے اُتر جائے گا۔
پاکستان کی مسلح افواج کے اولین مسلمان کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان اب ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے حکمران بن کر انہوں نے ایسے اقدامات کئے جنہیں محتاط ترین لفظوں میں ملک کی بربادی کا نکتہ آغاز قرار دیا جا سکتا ہے اور وہ ملک جس کی بنیاد ڈھاکہ میں رکھی گئی تھی یہ آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کا حوالہ ہے جو اس شہر میں بنی تھی اور پاکستان کی تخلیق کا سہرا اس کے سر ہے ڈھاکہ، مشرقی پاکستان کا دارالحکومت تھا جنرل ایوب خان کے عہد میں مشرقی پاکستان میں بے چینی نے زور پکڑا اور ملکی نظام کے خلاف ہو رہی جدوجہد کا رُخ ملک کے خلاف موڑ دیا گیا۔ یہ اس قرارداد مقاصد کی نفی بھی تھی جو قیام پاکستان کے محض دو سال بعد 1949ء میں منظور کی گئی تھی اس میں اسلامی شعائر کو قومی اساس قراردیا گیا۔
ملک میں مطلق العنانیت کی ہرگزگنجائش نہیں تھی ایوب خان کے مارشل لاء میں مادی ترقی کو ہدف بنا کر سیکولر ہونے کے تاثر کو ابھارا گیا۔ مذہبی حلقے بدستور قرارداد مقاصد کو بنیاد بناکر ترویج دین کا تقاضا کرتے رہے فوج کے سربراہ کو ملک میں مارشل لاء نافذکرنے کی شہ ان سول سرونٹس کی حرکتوں اور بعض سیاستدانوں کی کوتاہ نظری کے باعث ملی جو اقتدار کے لئے سازشیں کر رہے تھے اور سازشوں کے لئے اقتدار کو استعمال کرتے آئے تھے اس دوران تواتر کے ساتھ حکومتیں بدل رہی تھیں جن کا استہزا پاکستان کے بدترین مخالف جواہر لعل نہرو نے اڑایا وہ بھارت کے وزیراعظم تھے ایوب خان کو اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے بعض عالمی مراکز کی حمایت بھی حاصل تھی جو دوسرے ممالک میں تختہ پلٹنے اور حکومتیں بنانے کیلئے شہرت رکھتے تھے ایک بڑی طاقت کا سفیر کراچی میں ایوب خان سے مسلسل رابطے میں رہا اور اس نے اپنی حکومت کو پاکستان میں جاری سیاسی آنکھ مچولی سے آگاہ رکھا۔
پاکستان کی عمر عزیز محض سات برس تھی مشرقی پاکستان میں بے چینی موجود تھی اس کا ایک سبب ہندئوں کا کثیرتعداد میں وہاں موجود ہونا تھا جو صنعت وحرفت پر ہی نہیں بلکہ نظام تعلیم پر بھی چھائے تھے وہ اساتذہ تھے جو اسکولوں اورکالجوں میں نوجوانوں کو پڑھایا کرتے تھے ان ہندو اساتذہ نے مشرقی پاکستان کے نوجوان طلبا کے دل میں پاکستان کے خلاف جذبات کو ابھارا اور مارشل لاء کے نفاذ نے ان کے کام کو مزید آسان کردیا ہر چند قائداعظمؒ کے انتقال کےبعد ملک کا گورنر جنرل مشرقی پاکستان کا قابل فخر سپوت تھا انہیں آئینی اختیارات کے باوجود غیر مؤثر رکھا گیا، ایسے میں فوج کے سربراہ جن کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا ،اقتدار پر قبضہ کر لیا آئینی و قانون کو پائوں تلے روند ڈالا، پھر مستقبل کی کوئی واضح تصویر دینے سے گریز،یہ وہ اقدامات تھے جن سے مشرقی پاکستان کے عوام دل برداشتہ ہوئے۔
ایوب خان کے پورے عرصہ اقتدار میں مشرقی پاکستان میں امن عامہ غیر مستحکم رہا، انہوں نے 1956ء کے اس آئین کو پامال کر ڈالا تھا جو ملک کے تمام حصوں کے رہنے والوں کے لئے امید کا درجہ رکھتا تھا 1962ء میں ایوب خان نے جو خود کو کسی جنگ میں کوئی کار نمایاں انجام دیئے بغیر فیلڈ مارشل بن چکے تھے ایسا آئین عوام پر مسلط کردیا جو کسی عوام کے منتخب شدہ ادارے کی تخلیق نہیں تھا بلکہ ایوب خان نے اسے یہ کہہ کر ملک پر نافذ کردیا کہ میں یہ آئین عوام کو دے رہا ہوں آئین ایک ایسی دستاویز ہوتی ہے جو عوام کی رائے اور سوچ سے عبارت ہوتی ہے وہی اس کی تائید کرتے ہیں تو اسے رائج کیا جاتا ہے۔
مشرقی پاکستان کے عوام سیاسی شعور کے معاملے میں دوسرے علاقوں سے کہیں بہتر تھے انہوں نے ایوب خان کے آئین کو مسترد کردیا، اس سے پہلے 1965ء میں انہوں نے بھارت کے خلاف جنگ لڑی جس کی شروعات کشمیر سے ہوئی اس لڑائی کا پاکستان کو زیادہ فائدہ نہیں ہوا، مشرقی پاکستان سے ملنے والی بھارتی سرحدوں پرکوئی تصادم نہ ہوا اور نہ ہی مشرقی پاکستان کے بھارت سے ملنے والے وسیع و عریض سرحدی علاقے کے دفاع کی خاطر فوج کی اس قدر تعداد متعین کی گئی جو بھارتی حملے کی صورت میں دفاع وطن کا رگر طور پر کرتی فضائیہ کے چند پرانی طرز کے طیارے مشرقی پاکستان کے ہوائی اڈوں پر رکھے گئے تھے اس نے قرار واقعی طور پر مشرقی پاکستان کے عوام میں احساس محرومی کو جاگزیںکیا ان سے کہا گیا کہ مشرقی پاکستان کادفاع مغربی پاکستان سے ملنے والی سرحد پر بھرپور جنگ کے ذریعے کیا جائے گا۔
یہ وضاحت ناقابل فہم تھی بھارت کے ساتھ جنگ ختم ہوتے ہی ایوب خان کے دل میں ملک کا جمہوری حکمران بننے کا جذبہ مچلنے لگا انہوں نے اپنی نام نہاد جمہوریت کے لئے بنیادی جمہوریتوں کا نظام متعارف کرایا جس میں چالیس ہزار نمائندے مغربی پاکستان اور اسی قدر تعداد میں بنیادی جمہوریت کے نمائندے مشرقی پاکستان سے چنے گئے یہ انتخابات کیا تھے مکمل فریب تھا۔ مغربی پاکستان میں حکومتی انتظامیہ کو استعمال کرکے ایوب خان کے طرفدار ارکان بھاری تعداد میں جتوا دیئے گئے جبکہ مشرقی پاکستان میں یہ ممکن نہیں ہو سکا تھا۔
وہاں بہت بڑی تعداد میں ایسے ارکان کامیاب ہوگئے جو ایوب خان کے حامی نہیں تھے ایوب خان نے 1964ء میں صدارتی انتخاب کے انعقاد کا اعلان کردیا انہیں توقع تھی کہ ملک میں کوئی سربرآوردہ ایسی سیاسی شخصیت سرے سے موجود ہی نہیں جو اس مقابلے میں ان کے سامنے صف آرا ہو سکے ان کا یہ خیال اس وقت باطل ثابت ہوا جب قائداعظمؒ کی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کو ملک کے دونوں حصوں کے سرکردہ سیاسی رہنمائوں نے ایوب خان کے مقابل کے لئے آمادہ کرلیا۔ وہ عمر رسیدہ خاتون جنہیں پیار اور احترام سے پورا ملک مادرملت تسلیم کرتا تھا ، ان کی کردار کشی کے لئے مذموم مہم چلوائی دراصل ہر طالع آزما جس کے پاس اپنے اقتدار کے لئے کوئی سند جواز نہیں ہوتی یا اس کے پاس پیش کرنے کے لئے کارکردگی نہیں ہوتی اس طور پر اپنے مخالفین کے کردار پر کیچڑ اچھال کر کوتاہیوں سے پردہ پوشی کراتا ہے۔
مشرقی پاکستان میں محترمہ فاطمہ جناح کے حامی ارکان کی تعداد مغربی پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔ صوبائی انتخابات میں خوب دھاندلی ہوئی تھی جسے جھرلو کا نام دیا گیا تھا ایوب خان نے اپنے چنائو کے لئے صدارتی انتخاب میں بڑی بے رحمی سے جھرلو استعمال کیا اور اپنی کامیابی کو یقینی بنایا مشرقی پاکستان کے عوام محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا امید وار تصور کرتے تھے انہیں محسوس ہوا کہ مغربی پاکستان نےانہیں شکست دی ہے اور اس ضمن میں غیر جمہوری ہتھکنڈوں کا کھل کر استعمال ہوا ہے۔ جو ہوا سو ہوا، اسی دوران ایوب خان کو 1967ء میں یاد آیا کہ انہیں حکومت کرتے ہوئے دس سال کی مدت پوری ہونے والی ہے ،انہوں نے اچانک ملک میں عشرہ ترقی کا جشن وسیع پیمانے پر منانے کا اعلان کردیا اس کے لئے اگلے سال کو وقف کردیا۔
عشرہ ترقی کا اعلان ایوب خان کے لئے واٹر لو ثابت ہوا پورا ملک ان کی آمرانہ حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑاہوا۔ مشرقی پاکستان کے جمہوریت پسند عوام اس میں پیش پیش تھے۔ یوں جنرل ایوب خان اپنے اقتدار کے گیارہویں سال رخصت ہوگئے، انہوں نے اپنے ہی بنائے آئین کو پامال کرتے ہوئے اسے منسوخ کردیا اور اقتدار مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے اسپیکر عبدالجبار خان کو سونپنے کی بجائے جنرل یحییٰ خان کے سپرد کردیا ۔ جنرل یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالتے ہی اعلان کیا کہ وہ عام انتخابات کراکر اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کردے گا۔
اعلان 1968ء میں کیا گیا 1970ء میں عام انتخابات ہوئے مشرقی پاکستان سے قوم پرست رہنما شیخ مجیب الرحمن نے تمام نشستیں جیت لیں مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی تاہم ان کی نشستوں کی تعداد شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ سے نصف تھیں یہ آئین ساز اسمبلی کے انتخابات تھے۔
جنرل یحییٰ خان نے شرائط عائد کردیں کہ بڑی سیاسی جماعتیں جو اکثریت میں تھیں باہم مفاہمت کرلیں کہ ملک میںآئین کی نوعیت کیا ہوگی جس کے بعد اسمبلی کا اجلاس طلب کیا جائے گا۔ شیخ مجیب الرحمن نے جن چھ نکات کی بنیاد پر انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی ان پر عملدرآمد سے پاکستان فیڈریشن کے درجے سے نیچے آکر کنفیڈریشن بن جاتا اور پانچ ریاستیں معرض وجود میں آجاتیں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایسے تباہ کن منشور پر کسی جماعت کو انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت ہی نہ ہوتی اس دوران مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے جوناکام رہے آخرکار جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان ’’روشنی کی تلاش‘‘ کے نام سے فوجی آپریشن شروع کردیا جس میں شیخ مجیب الرحمن کو ڈھاکہ سے گرفتار کرکے کراچی لایا گیا مشرقی پاکستان سے فوجی آپریشن کے بعد متاثرین کی بڑی تعداد بھارتی ریاست مغربی بنگال چلی گئی بھارت نے مشرقی پاکستان پرحملہ کرنے اور قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا لیا تھا جس کی پورے طور پر جنرل یحییٰ خان کو خبر نہ ہو سکی بھارت نے مکتی باھنی کے نام سے ایک فوج تیار کی جسے گوریلا جنگ کی تربیت دے کر اسلحہ سمیت مشرقی پاکستان میں داخل کردیا گیا اکتوبر کے آخری ہفتے میں بھارت نے پاکستان کے ساتھ مکمل جنگ ھیڑ دی اور 1971ءکو مشرقی پاکستان، مغربی پاکستان سے کٹ گیا،پا کستان دو لخت ہو گیا ،مشرقی پاکستان اب یہ بنگلہ دیش بن چکا تھا اور مغربی پاکستان ہی پاکستان رہ گیا تھا۔
فوجی جرنیلوں نے اقوام متحدہ میں گئے ملک کے نامزد نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو خصوصی طیارہ بھیج کر اسلام آباد بلایا اور اقتدار ان کے حوالے کردیا انہیں چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی بنا دیاگیا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کی فراست تھی کہ انہوں نے نہ صرف بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کارروائی شروع کی بلکہ وہ مقبوضہ علاقے بھی اس سے آزاد کرالئے جو اس نے جنگ میں مغربی پاکستان میں زیر نگیں کرلئے تھے نوے ہزار پاکستانی جنگی قیدی جن کی اکثریت مشرقی پاکستان سے گرفتار ہوئی تھی انہیں بھی وطن واپس لایا گیا۔ بھٹو نے پہلے عبوری اور پھر مستقل آئین دیا جسے 1973ء میں متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اگر مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن نہ کیا جاتا تو صورت حال مختلف ہوتی جبکہ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہےکہ 1965ء کی جنگ ستمبر کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے بھارتی سفارت کاروں کے ساتھ باقاعدہ خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ انٹلیجنس بیورو اس کی اطلاعات مشرقی پاکستان کی صوبائی حکومت اور مرکزی حکومت کو دیتی رہتی تھی، مگر جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تو اگرتلہ کے مقام پر اسے بھارتی حکام سے ربط ضبط کے الزام میں رنگے ہاتھوں گرفتار کر کے اگرتلا سازش کیس کے نام سے مقدمہ چلایا گیا جس کے باعث شیخ مجیب کی بنگالیوں میں مقبولیت بڑھی اور وہ جی ایم سید اور غفار خان سے زیادہ قوم پرست لیڈر کے طور پر ابھرے۔ 25مارچ 71ء کی نصف شب کو فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو کر جنوری 1972ء میں بھٹو کے حکم پر رہا ہونے والے غداری کے ملزم شیخ مجیب الرحمن کو بھی بالاخر اس کے ان ہی ساتھیوں نے خاندان کے تمام مرد افراد کے ساتھ قتل کر دیا جو اس کے حکم پر پاکستان کے سینے میں گولی اتارنے کے مرتکب ہوئے تھے۔