• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیامِ پاکستان کوآج 75 سال ہو گئے اور ہر سال کی طرح قوم جوش و خروش سے یومِ آزادی منا رہی ہے ۔ آزادی بلاشبہ ایک بہت بڑی نعمت ہے اور جو ظلم و ستم بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے، اُسے دیکھ کر اس نعمت پر ہم اپنے رب کا جتنابھی شکر ادا کریں ،کم ہے۔ تاہم ایک مسلمان، ایک پاکستانی کی حیثیت سے جب ہم آج کے پاکستان کو دیکھتے ہیں تو دُکھ ہوتا ہے کہ ہم نے اس ملک کو کیا سے کیا بنا دیا؟

سیاسی حالات ہوں یا معاشی، گورننس یا انسانی حقوق کے معاملات ہوں، سرکاری محکموں کو دیکھیں یا پولیس کچہری اور عدالتوں کی حالتِ زار ، پارلیمنٹ ہو سرکاری مشینری جدھر دیکھیں بُرا بلکہ بہت ہی بُرا حال ہے۔ہماری معاشرتی زندگی بھی ایسی گراوٹ کا شکار ہے کہ ایسی کوئی خرابی نہیں جو یہاں نظر نہ آتی ہو۔ نہ کوئی سسٹم، نہ کوئی محفوظ، نہ انصاف نہ میرٹ۔ بے ایمانی، جھوٹ فراڈ، رشوت، سفارش، اقرباپروری، ملاوٹ، دھوکہ دہی، کرپشن، فحاشی و عریانی کون سی خرابی ایسی ہے جو یہاں موجود نہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ ہم ایک قوم کیوں نہ بن سکے؟ معاشرتی اور اخلاقی خرابیاں کیوں بڑھتی جا رہی ہیں؟

 سچ پوچھیں اور پاکستان کے قیام کے 75 سال پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ بحیثیت قوم ہمارا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ ہم نے قیام پاکستان کے وعدے اور اس وطن کے قیام کے خواب کے ساتھ وفا نہیں کی بلکہ ہم نے اس سے دھوکہ کیا، اُس عہد و عزم کو چھوڑ دیا جو قیام پاکستان کی بنیادی و جہ تھے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا،’’ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ ‘‘کی گونج میں اس وطن کو حاصل کیا گیا لیکن پاکستان بننے کے بعد ہم اس وعدے اوراس خواب کو بھول گئے۔

 اسلام کا نام بار بار لیا گیا، قرارداد مقاصد بھی پاس کر لی، ملک کو اسلامی آئین بھی دے دیا لیکن پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا بلکہ ہم نے الٹا سفر شروع کر دیا۔ اسلام، اسلامی نظام اور ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے اسلامی ماحول کی فراہمی کا جو عہد قراردادِ مقاصد میں لکھا گیا، جو آئین کہتا ہے، اُس پر کسی نے عمل نہ کیا اور یوں ،یہ وہ 75 سال کا دھوکہ ہے جو ہم نے پاکستان کے ساتھ کیا، عوام کے ساتھ کیا۔

 آئین کی ایک ایک اسلامی شق کو پڑھ لیں شاید ہی کسی ایک شق پر بھی اس کی روح کے مطابق عمل کیا گیا ہو جب کہ ان شقوں کی خلاف ورزیاں عام ہیں اور ان میں حکومت، پارلیمنٹ اور حتیٰ کہ عدلیہ تک، سب شریکِ جرم ہیں۔ سودی نظام یہاں عام ہے، انگریز دہائیوں پہلے ہندوستان چھوڑ کر چلا گیا، اُس کا نظام آج بھی موجود ہے، شراب کھلے عام فروخت ہوتی ہے جس پر پابندی کے لیے ایک ہندو ایم این اے پارلیمنٹ اور عدالتِ عظمی تک جاتاہے لیکن شراب پر پابندی نہیں لگائی جاتی۔ پاکستان کے سینکڑوں قانون اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں، ہمارا نظامِ حکومت، نظامِ عدل، بیوروکریسی سب آج بھی انگریز کے دورِ غلامی کی یاد دلاتے ہیں۔ انگریز کی غلامی کی چھاپ اس قدر گہری ہے کہ آج بھی فوج و سول سروس اور سرکاری ظہرانوں میں کھانے کے لیے کانٹا سیدھےہاتھ کی بجائے الٹے ہاتھ میں پکڑ کے کھانے کی ترغیب دی جاتی ہے۔عورتوں کے حقوق، بچوں کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق، سب کتابی باتیں ہیں، عملاً ہمارا حال بہت ہی بُرا ہے۔

پاکستان ایک مسلمان ملک ہے لیکن ہم اگر اپنی معاشرتی زندگی کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم بحیثیت قوم اسلامی تعلیمات سے کوسوں دور ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان 75 برسوں میں اس قوم کی اسلامی تعلیمات کے مطابق تربیت اور کردار سازی کا کوئی نظام ہی نہیں بنایا گیا اور یہی وجہ ہے کہ ہم فرقہ بندی اور قوم پرستی کا شکار ہو چکے ہیں ۔ اخلاقی گراوٹ کا تو پوچھئے ہی مت کہ حالت یہ ہے کہ ایسی کوئی خرابی نہ ہوگی جو ہم میں موجود نہیں۔

 اسلام اسلام کے نعرے تو لگائے گئے اور لگوائے گئے لیکن عوام کو نہ اسلام پڑھایا گیا نہ اسلامی تعلیمات سے اُنہیں روشناس کروایا گیا۔ ایک طرف ہم پاکستان کو اس کے خواب سے بہت دور لے گئے تو دوسری طرف یہاں رہنے والے مسلمانوں کو مقصدِ حیات سکھانے سے قاصر رہے۔ یوں ہم ایک ایسا ہجوم بن گئے جو قوم کہلائے جانے کے قابل نہیں۔

ہم نے اگرسدھرنا ہے، اپنے ملک و قوم کو بہتر مستقبل دینا ہے تو پھر اپنی اصل پہچان اور اصل مقصد کی طرف عملاً واپس آنا ہو گا۔ یہ 75 سال سے دیا جا رہا دھوکہ مزید نہیں چل سکتا۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین