• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہباز گِل مزید 48 گھنٹے کیلئے پولیس کے حوالے

فائل فوٹو
فائل فوٹو

پی ٹی آئی رہنما شہباز گِل کے جسمانی ریمانڈ مسترد ہونے کے حکم کے خلاف نظرثانی درخواست پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے انہیں مزید 48 گھنٹے کیلئے پولیس کے حوالے کردیا۔

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں پی ٹی آئی رہنما شہباز گِل کا جسمانی ریمانڈ مسترد ہونے کے حکم کے خلاف نظرثانی درخواست کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری نے کی، شہباز گِل کے وکلا فیصل چوہدری اور سلمان صفدر عدالت میں پیش ہوئے، جبکہ تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری بھی کمرہ عدالت میں موجود رہے۔

عدالت نے کیس کی سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے دن 3 بجے سنانے کا کہا گیا تھا۔

اس سے قبل آج کی سماعت میں پولیس نے شہباز گِل کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد ہونے پر نظرثانی درخواست دائر کی ہے، ایڈیشنل سیشن جج نے درخواست گزار کی عدم موجودگی پر سماعت میں وقفہ کیا، پولیس حکام نے بتایا کہ تفتیشی افسر کچھ دیر میں پہنچ جائیں گے۔

سماعت کے دوران اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے عدالت کو شہبازگل پر مقدمے کے الزامات بتاتے ہوئے کہا کہ گرفتاری کے بعد جوڈیشل مجسٹریٹ نے 2 روزکا جسمانی ریمانڈ دیا، تفتیشی افسرکی جانب سے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی،ملزم بار بار جھوٹ بول رہا ہے، پولی گرافک ٹیسٹ کروانا ہے۔

اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ ڈیوٹی مجسٹریٹ کو تمام پہلوؤں کو دیکھنا چاہیے لیکن استدعا مسترد کر دی گئی، پیمرا سے انٹرویو کی مزید تفصیلات لے کرایف آئی اے کو بھیج دی ہیں، ڈیوٹی مجسٹریٹ نے کیسے فیصلہ دے دیا کہ ملزم کا جسمانی ریمانڈ نہیں چاہیے۔

اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ ابھی ملزم کی مزید تفتیش مکمل کرنا ضروری ہے، ملزم پولیس کے سامنے اقرار کرچکے ہیں کہ ان کا ایک موبائل ڈرائیور کے پاس ہے، تفتیشی افسرنے واضح لکھا کہ محض ریکوری نہیں مختلف پہلوؤں پرتفتیش بھی کرنی ہے، کیا ملزم کو کہیں سے کال آئی یا انہوں نے فوراً بیپر پر ایسا بیان دیا؟

رضوان عباسی نے کہا کہ کس نے ملزم کے اسکرپٹ کی منظوری دی؟ ابھی تفتیش باقی ہے، پولیس نے ملزم شہباز گِل کا بیان سچ پرمبنی قرارنہیں دیا تھا، جوڈیشل مجسٹریٹ نے ملزم کے بیان کو حتمی کیسے مان لیا؟ یہ قانون شہادت کے مطابق درست نہیں، عاشورہ کی وجہ سے سگنل بند ہونے کا جوازبھی درست نہیں، معمولی نوعیت کے کیسزمیں آٹھ 10 روزکا جسمانی ریمانڈ دیا جاتا ہے، یہ تو مجرمانہ سازش کا کیس ہے۔

اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نےاسلام آباد ہائیکورٹ کا آرڈر پڑھ کر سنایا، انہوں نے کہا کہ تفتیشی افسرکا تفتیش سے مطمئن ہونا لازمی ہے، تفتیشی افسر نے واضح کہا ہے کہ اسے مزید جسمانی ریمانڈ کیلئے وقت چاہیے،اسلام آباد پولیس نے ہردن ملزم کی تفتیش کیلئے نتیجہ خیز بنایا۔

رضوان عباسی نے کہا کہ پولیس جسمانی ریمانڈ کیلئے مزید وقت کی استدعا کر رہی ہے تو دی جانی چاہیے، کیس میں ابھی کئی پہلوؤں کا جواب لینا باقی ہے، کوئی انکارنہیں کرسکتا کہ ملزم خود چینل پر آیا، خود اکسانے پر الفاظ ادا کیے، تفتیشی افسرنے یہ نہیں کہا کہ اس کی تفتیش مکمل ہوچکی۔

اسپیشل پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ تفتیشی افسر نے تو مزید جسمانی ریمانڈ مانگا،تفتیشی افسرکی استدعا مسترد کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ ہونی چاہیے،مجسٹریٹ نے تفتیشی افسرکی استدعا محض مفروضے کی بنیاد پر مانی ہے۔

اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے ماضی کے سپریم کورٹ کے مختلف فیصلے پڑھ کرسنائے اور کہا کہ تفتیشی افسرکہتا کہ ملزم کا موبائل ڈیٹا چاہیے تومیں جسمانی ریمانڈ کی حمایت نہیں کروں گا،یہاں الزام اُن الفاظ کا ہے جو ملزم نے نجی چینل پر کہے، ملزم سے مختلف پہلوؤں پر تفتیش کیلئے جسمانی ریمانڈ بہت ضروری ہے۔

رضوان عباسی نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ 12 اگست کو مجسٹریٹ کی جانب سے دیا گیا آرڈر غیر آئینی ہے، جسمانی ریمانڈ کی استدعا کو ٹھیک طرح ہینڈل نہیں کیا گیا، پولیس کی جانب سے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کو منظور کیا جائے۔

اس موقع پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں موجود شہباز گِل کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ ریمانڈ میں چند پہلوؤں کو خفیہ قرار دیا گیا ہے، پولیس کو ملزم شہبازگل کا جسمانی ریمانڈ کیوں چاہیے؟اس کا تعین ضروری ہے۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ شہبازگِل کے خلاف درج مقدمہ بدنیتی پرمبنی ہے، ہمیں کیس کا ریکارڈ بھی فراہم نہیں کیا گیا،

شہباز گِل نے گرفتاری کے وقت اپنا موبائل جیب میں ڈالا جو ویڈیو میں واضح ہے، پولیس کے پاس ہی تو موبائل فون ہے، تو پھر موبائل کیوں مانگ رہے ہیں؟

سلمان صفدر کاکہنا تھا کہ کیس میں کمپلیننٹ کیا عدالت میں موجود ہے؟ مجھے محسوس نہیں ہو رہا، شہباز گِل کا کیس صرف الفاظ اور تقریر پر مبنی ہے اور تقریر تو پولیس کے پاس موجود ہے، پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی نے24 گھنٹوں میں تحقیقات بھیج دیں۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ تفتیشی افسر نے کیوں تفتیش مکمل نہیں کی؟ کمپلیننٹ ایک مجسٹریٹ ہے جس نے بیوروکریسی اور فوج کی طرف سے کیس فائل کیا، وفاقی حکومت کی اجازت کے بغیر بغاوت کا مقدمہ درج نہیں کیا جاسکتا۔

شہباز گِل کے وکیل نے کہا کہ عدالت پراسیکیوشن سے معلوم کرے کہ کیا وفاقی کابینہ کی اجازت لی گئی تھی؟ تقریر کا مخصوص حصہ مقدمے میں درج کیا گیا جو نامناسب ہے، ٹی وی اینکرنے سوال پوچھا جس پرجواب دیا گیا، اس میں پہلے سے کیسے کچھ پلان ہوسکتا ہے؟

وکیل صفائی نے کہا کہ مجسٹریٹ نے3 دن کا جسمانی ریمانڈ دیا تھا، فوراً استدعا مسترد نہیں کی تھی، ملزم نے تقریرمیں مریم نواز، نواز شریف، ایاز صادق سمیت 9 ن لیگی رہنماؤں کے نام لیے، صاف ظاہر ہے کہ کیس کے ذریعے سیاسی انتقام لیا جارہا ہے۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ پراسیکیوشن کے مطابق شہباز گِل نے تقریر تسلیم کرلی، پھر باقی کیا رہا؟ پراسیکیوشن زیادہ زور دے رہی ہے کہ شہبازگِل نے کسی کے کہنے پر تقریر کی، کچھ چیزیں غلط تو ہوسکتی ہیں لیکن وہ بغاوت،سازش یا جرم میں نہیں آتیں۔

شہبازگل کی تقریرمحب وطن تقریر ہے، اس کے کچھ حصے نکال لیے گئے، شہبازگِل نے سوال کا لمبا جواب دیا،اس میں کچھ باتیں غلط کہہ دی گئیں، ملزم شہبازگل سیاسی رہنما ہیں لیکن بہت ووکل ہیں،اتنا ووکل نہیں ہونا چاہیے،پراسیکیوشن کو جسمانی ریمانڈ مبینہ شریک ملزم تک پہنچنے کیلئے چاہیے۔

وکیل صفائی نے کہا کہ شہبازگِل کے خلاف جو دفعات لگائی گئیں وہ سزائے موت اور عمر قید کی ہیں، آپ بتائیں، کیا اس تقریر پر سزائے موت کی دفعات بنتی ہیں؟ تفتیشی افسرنے کہا کہ حساس نوعیت کا مقدمہ ہے،ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا، تفتیشی افسرنے کہا موبائل ریکوری کروانی ہے تاکہ وائس میچنگ کروائی جاسکے، تفتیشی نے کہا غیرملکی عناصرشامل ہیں اوربینک اکاؤنٹس کی تفصیلات حاصل کرنا ہیں،جبکہ میرے موکل کا موبائل فون گرفتاری کے وقت ہی لے لیا گیا تھا۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ تفتیشی افسر 3 دن میں تفتیش نہ کرپائے حالانکہ موبائل ان کے پاس تھا، لینڈ لائن سے فون کیا گیا، یوم عاشورہ پر موبائل فون ہی بند تھا، ساری چیزیں ملزم نے نہیں دینی،تفتیشی افسر نے بھی کچھ کرنا ہے، لینڈ لائن کو اکھاڑ کر نہیں لیجایا جاتا، جسمانی ریمانڈ کی اس میں کہاں ضرورت ہے؟

وکیل سلمان صفدر نے آج کی سماعت میں اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہاکہ یہ کیس سائبر کرائم کا ہے ہی نہیں، یہ کیس 164 قانون شہادت کا کیس ہے، جسمانی ریمانڈ کا نہیں، ریکوری کسی دوسرے سے نہیں کی جاتی، پولیس نے شہباز گِل کے ڈرائیور سے موبائل لینے پر مقدمہ درج کر دیا، لیپ ٹاپ کی ریکوری کا تفتیش سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں۔

فریقین کے دلائل مکمل ہوجانے کے بعد اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کی ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھی کہ اسے 3 بجے سنایا جائے گا۔

قومی خبریں سے مزید