• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کل رات سے میرا دل بوجھل ہے۔ مجھے اپنا ایک مرحوم ساتھی اور دوست بہت یاد آ رہا ہے۔ اس نے سچائی کی خاطر اپنی جان دے دی۔ جس سچائی کی خاطراس نے جان دی وہ سچائی اب پوری دنیاکے سامنے آچکی ہے۔ آج کئی لوگ کہہ رہے ہیں کہ سب سے پہلے یہ سچ انہوں نےبولا تھا۔ کسی میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ اس بہادر انسان کا ذکر بھی کردے جس نے سب سے پہلے یہ سچ بولا تھا۔ اس بہادر انسان کا نام حیات اللہ خان تھا۔ آج ایمنسٹی انٹرنیشنل کہہ رہی ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکہ کے ڈرون حملوں میں مارے جانے والے تین ہزار سےزائدمرد و خواتین میں اکثریت بیگناہ شہریوں کی تھی اور بیگناہوں کی ہلاکت پر امریکہ کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ چل سکتا ہے۔ پاکستان میں امریکہ کے ڈرون حملوں کا بھانڈا سب سے پہلے حیات اللہ خان نےپھوڑا تھااور اس نے یہ سچ بھی بولا تھا کہ ڈرون حملوں میں صرف امریکہ کو مطلوب عسکریت پسند نہیں بلکہ بیگناہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں۔ حیات اللہ خان کا تعلق شمالی وزیرستان کی تحصیل میرعلی سے تھا۔ میری اس کے ساتھ پہلی ملاقات 1997 میںہوئی جب میں نے اسلام آباد سے ایک اردو اخبار کا اجراکیااور حیات اللہ خان میرعلی میںاس اخبار کا نمائندہ بنا۔ وہ اپنے علاقے کے مسائل اجاگر کرنے کے علاوہ طاقتور پولیٹیکل انتظامیہ کی نااہلی اور کرپشن پر بھی نظر رکھتا۔ خود بھی مشکلات میں پھنس جاتا اورکئی مرتبہ مجھے بھی مشکل میں پھنسا دیتا لیکن میں ہمیشہ اس کے ساتھ کھڑا ہو جاتاکیونکہ وہ جو بھی لکھتا سچ لکھتا تھا۔ 2002 میں پاک افغان بارڈر کے قریب امریکی فوج ایک سرچ آپریشن کر رہی تھی۔ حیات اللہ خان کیمرہ لے کر وہاں پہنچ گیا۔ وہ تصویریں بناتا بناتا افغان علاقے میں داخل ہو گیااور امریکی فوج نے اسے گرفتار کرلیا۔ اس وقت میں جیو ٹی وی سے وابستہ ہو چکا تھا لیکن حیات اللہ خان سے رابطہ برقرار تھا۔ بڑی مشکل سے اس کی رہائی ممکن ہوئی تو میں نے اسے سمجھایا کہ وہ خطرات سے کھیلنا بند کردے لیکن وہ میری نصیحت کو ایک مودبانہ مسکراہٹ کے ساتھ نظرانداز کردیتا تھا۔
اکتوبر 2005 کے پہلے ہفتے میں وہ میری وجہ سے ایک مشکل میں پھنس گیا۔ مجھے شمالی وزیرستان کے ایک کالج کے کچھ اساتذہ نے کہا کہ ان کےکالج کی عمارت کو فوجی کیمپ میں تبدیل کردیا گیا ہے اور طلبہ عسکریت پسندوں سے رابطے کر رہے ہیں۔ ان اساتذہ نے کہا کہ میں شمالی وزیرستان آکر ان کےمسائل اجاگر کروں۔ میں نے شمالی وزیرستان اور کرّم کے دورے کافیصلہ کیااور دونوں علاقوں کی پولیٹکیل انتظامیہ کو آگاہ بھی کردیا۔ کرّم ایجنسی میں ایک را ت گزار کر میں اپنے کیمرہ مین عمران الیگزینڈر اور ساتھی علی افضل افضال کے ساتھ ٹل کے راستے شمالی وزیرستان میں داخل ہوا تو مقامی خاصہ داروں نےکہا کہ اگرآپ آگے گئے تو آپ کو گولی مار دی جائےگی۔ میں نے پوچھاکون گولی مارے گا؟ مجھے کوئی جواب نہیں ملتا تھا۔ میں نے حیات اللہ خان سے رابطہ کیا تو اس نے کہاآپ ٹل کے پل پر کھڑے ہوں میں آ رہا ہوں۔ تھوڑی دیر میں وہ ایک چھکڑامزداگاڑی چلاتا ہوا ٹل کے پل پر پہنچااور ہمیں لے کر میرانشاہ کی طرف روانہ ہوا۔ ابھی ہم میرعلی کےقریب کھجوری چیک پوسٹ پر پہنچے تھے کہ فائرنگ شروع ہوگئی۔ ہم نےمیرعلی ایف سی کے قلعے سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہو کرصورتحال کی فلم بندی کی کوشش کی تو ہم پر فائر آنے لگا۔ یہ وہ مناظر تھے جو کافی عرصہ تک جیو ٹی وی پر چلتے رہے۔ اس فائر نگ سے بچنے کے لئے مجھے گاڑی کے نیچے گھسناپڑالیکن حیات اللہ خان شیر کی طرح گاڑی کے اردگرد پہرہ دیتا رہا۔ وہ اس شدید فائرنگ میں مجھے میرعلی سے نکال کر میرانشاہ لے آیا۔ اگلے دن میں نےمیرانشاہ میں وہ کالج دیکھا جو فوجی کیمپ میں تبدیل ہو گیاتھا۔ میں اپنا کام کرکے واپس اسلام آباد آگیا۔ تھوڑے دن بعد 30نومبر 2005 کی رات کومیرعلی میں ایک دھماکے کی آواز سنی گئی۔ صبح ہوئی تو پتہ چلا کہ ایک گھر تباہ ہوچکا تھا اور مارے جانے والوں میں مقامی کالج کے دو طالب علم بھی شامل تھے۔ آئی ایس پی آر کےسربراہ نے کہا کہ یہاں القاعدہ کارہنما ابوحمزہ ربیعہ بم بنارہا تھالیکن بم پھٹ گیا اوروہ ساتھیوں سمیت ماراگیا۔ اس سے قبل جنوبی وزیرستان میں نیک محمد کی موت پرکہا گیا تھا کہ وہ پاکستانی فوج کی کارروائی میں مارا گیا۔ حیات اللہ خان کو یہاں ایک بہت بڑے میزائل کے ٹکڑے نظر آگئے۔ اس نے ان ٹکڑوں کی تصویریں بنائیں اور دنیاکو یہ بتایا کہ میرعلی میں دراصل امریکی میزائل حملہ ہوااور مارے جانے والوں میں بیگناہ طالب علم بھی شامل تھے جن کی شناخت ان کی کتابوں اور کالج کے شناختی کارڈ سےہوئی۔ یکم دسمبر کی دوپہر ان طلبہ کے کلاس فیلوز نے میرعلی میں حیات اللہ خان سے رابطہ کیااور بتایا کہ وہ اپنے ساتھیوں کے جنازے کے بعد مظاہرہ کریں گے۔اگلے دن حیات اللہ خان کو مقامی حکام کے علاوہ ایک خفیہ ادارے کے افسر کے فون آنے لگے۔ حیات اللہ خان سے کہاگیا کہ وہ حکومت کے موقف کی نفی کرکے ملک دشمنی کر رہاہے۔ حیات اللہ خان نےاپنی اہلیہ مہر النسا کو کچھ لوگوں کے نام بتائے اور کہا کہ اگر وہ مارا گیا تو یہ لوگ ذمہ دارہوں گے۔ 5دسمبرکو وہ میزائل حملےمیں مارےگئے بیگناہ طلبہ کے ساتھیوں کے مظاہرے کی کوریج کے لئے جارہا تھا کہ اسے اغوا کرلیا گیا۔ اگلے دن اس کے اغواکے خلاف ہم نے اسلام آباد میں مظاہرہ کیا تو وزیرداخلہ آفتاب شیرپائو نے یقین دلایا کہ حیات اللہ خان کو بازیاب کرالیا جائے گا۔ شمالی وزیرستان کی پولیٹیکل انتظامیہ نے کبھی کہا کہ حیات اللہ خان کو امریکیوں نے اغوا کیا، کبھی کہا طالبان نے اغوا کیا لیکن دونوں طرف سے اس الزام کی تردید کردی گئی۔ چھ ماہ تک اس کا کچھ پتہ نہ چلا۔ 16جون 2006کو میرعلی کے ایک نواحی علاقے میں لوگوں نےدیکھا کہ ایک نوجوان ننگے پائوں بھاگ رہا ہے اوراس کے ہاتھ پیچھے کی طرف بندھے ہوئے ہیں۔ پھر پیچھے سے ایک جیپ میں کچھ لوگ آئے اور اس بھاگتے نوجوان کو گولی مار دی۔ یہ حیات اللہ خان تھا۔ 19جون 2006 کو میں نے حیات اللہ خان کی شہادت پر اپنے کالم میں مشرف حکومت کو اس کی موت کا ذمہ دارقراردیا۔ اس موت نے پاکستان کےریاستی اداروں اور صحافی برادری میں غلط فہمیوں کی خلیج پیدا کردی کیونکہ حیات اللہ خان اپنی زندگی میں مجھ سمیت اسلام آباد میں کئی صحافیوں سے کہہ چکا تھا کہ اگر وہ ماراگیا تو ذمہ دار ایک خفیہ ادارہ ہوگا۔ صحافی برادری کے دبائو پر حیات اللہ خان کے قتل کی انکوائری شروع ہوئی۔ 3نومبر 2007 کو مشرف حکومت نے ایمرجنسی لگا کر میڈیا پرپابندیاں عائد کردیں۔ ٹی وی چینلز کو بند کرکے 17نومبر 2007 کو حیات اللہ خان کی اہلیہ کو ان کے گھر میں قتل کردیا گیاتاکہ قاتلوں کے نام انکوائری کمیشن کے سامنے بے نقاب نہ ہوں۔اس دوران حیات اللہ خان کے ایک اور بھائی کوبھی مار دیا گیا۔ پوراخاندان دربدر ہو گیا۔ ڈرون حملوں کی اصل حقیقت سامنے لانے پر پانچ معصوم بچے اپنے والدین سے جدا کردیئے گئے۔ آج مجھے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی 2007 کی رپورٹ یاد آرہی ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ حیات اللہ خان نے ایک میزائل کے ٹکڑوں کی تصاویربنائی تھیں جن پر ’’اے جی ایم 114 یو ایس اے‘‘ لکھا ہوا تھا جبکہ پاکستانی فوج کے ترجمان کاکہنا تھا کہ ابوحمزہ ربیعہ میرعلی میں بم بناتے ہوئے مارا گیا۔ آج پاکستان کا دفتر خارجہ ڈرون حملوں کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو اپنے موقف کی تائید قرار دے رہا ہے حالانکہ 2005 میں حیات اللہ خان نےڈرون حملے میں مارے جانے والے دو مقامی طلبہ عبدالواسد اورطارق عزیز کےساتھیوں کا احتجاج دنیا کے سامنے پہنچانے کی کوشش کی تو اسے ملک دشمن قرار دیا گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان اور امریکہ نے 2004میں طےکیا تھا کہ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کو فوجی کارروائی قرار دیا جائےگا۔ تفصیل کے لئےامریکی صحافی مارک مازیٹی کی کتاب ’’دی وے آف دی نائف‘‘ پڑھ لیجئے۔ ایک صحافی کی جرأت نے دو حکومتوں کی ملی بھگت اور منافقت کو بے نقاب کر دیا۔ حیات اللہ خان سچاثابت ہوگیا۔ جولوگ اسے ملک دشمن کہتے تھےان کی غداری کوتاریخ نے بے نقاب کر دیا۔ حیات اللہ خان اور اس کی اہلیہ کی شہادت کے بعد اس کے بھائی اور بچوں کو ایک مغربی ملک میں پناہ کی پیشکش ہوئی لیکن انہوں نے پاکستان میں رہنا پسند کیا۔ آج حیات اللہ خان کی بڑی بیٹی نائلہ ساتویں جماعت میں پڑھتی ہے اورفخر سے کہتی ہے کہ وہ ایک ایسے باپ کی اولاد ہے جو ڈرون حملوں کی سچائی دنیاکے سامنےلایا۔ حکومت پاکستانحیات اللہ خان کو کسی اعلیٰ اعزاز سے نوازے یا نہ نوازے لیکن آج اس کا سچ ایک سپرطاقت کے گلے میں بدنامی کا طوق بنگیا ہے جس پر دنیا کا ہر صحافی فخر کرسکتاہے۔
تازہ ترین