ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی پارٹی صدارت سے ہٹانے کے خلاف اور انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے درخواست پر الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔
چوہدری شجاعت کی پارٹی صدارت اور انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق درخواست کی سماعت چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی زیرِ سربراہی 5 رکنی بینچ نے کی۔
مسلم لیگ ق انٹرا پارٹی کیس کی الیکشن کمیشن میں سماعت ہوئی، جس کے دوران چوہدری شجاعت حسین کے وکیل عمر اسلم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی آئین کے مطابق صدر کا عہدہ صرف استعفے یا موت سے خالی ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سینٹرل ورکنگ کمیٹی کبھی قائم نہیں تھی جس سے انتخاب کیا جائے، جس صدر کے خلاف قرار داد آئی ان کا مؤقف جاننے کے لیے کوئی نوٹس بھی نہیں بھیجا گیا، جوبدہ نے تحریری جواب میں کہا کہ صدر نے آئین کی خلاف ورزی کی اور ساتھ ہی کہا کہ ان کی صحت ٹھیک نہیں اور وہ پارٹی معاملات کو دیکھ نہیں سکتے، ایک ہی ساتھ انہوں نے صدر کو عہدے سے ہٹانے کی 2 متضاد وجوہات دیں۔
پرویز الہٰی کے وکیل نے کہا کہ ورکنگ کمیٹی کا وجود ہی نہیں تو چوہدری شجاعت کیسے صدر بنے تھے؟ الیکشن کمیشن کو اختیار نہیں کہ کسی جماعت کے انٹرا پارٹی انتخابات میں مداخلت کرے۔
انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار کو اس ہی ائین کے تحت منتخب کیا گیا اور اب وہ خود اسے چیلنج کر رہے ہیں، الیکشن میں کوئی معاملات ہوں تو اپیل پارٹی کے اندرونی ٹریبیونل میں جاتی ہے ناکہ الیکشن کمیشن میں، چوہدری شجاعت کو الیکشن کمیشن نہیں بلکہ پارٹی کے ٹریبیونل سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔
الیکشن کمیشن نے چوہدری شجاعت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل الیکشن کمیشن نے چوہدری شجاعت اور طارق بشیرچیمہ کو عہدے پر بحال رکھنے کا حکم دیا تھا۔