• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اٹھارہ اکتوبر پاکستان کی تاریخ میں ایک نہایت ہی خوشی اور اندوہناک غم میں ڈوبے ہوئے دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا جب دو ہزار سات میں اس وقت کی پاکستان پیپلزپارٹی کی سربراہ اور سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو دس برس کی خود ساختہ جلاوطنی سے واپس وطن آئی تھیں اور کراچی ائیرپورٹ سے شاہراہ فیصل تک لاکھوں عورتیں، مرد اور بچے ان کے استقبال کے لئے انسانی سروں کے ایک سمندر کی طرح امڈ آئے تھے۔ پاکستان میں لوگ تھے کہ لنڈی کوتل تا لانڈھی خوف و دہشت کی فصیلیں توڑ کر نکل آئے تھے۔ ایک امید بندھی تھی۔ اگرچہ وہ فوجی آمر پرویز مشرف سے ایک سمجھوتے کے تحت وطن واپس آئی تھیں لیکن وطن کی سرزمین پر پائوں رکھتے ہی اس وقت انہوں نے وہ سمجھوتہ توڑ ڈالا ہو گا جب اپنے استقبال کو آنے والے لاکھوں لوگ دیکھے ہوں گے۔پھر وہی ہوا جو پاکستان کے حکمران اور حکومتیں کرتی آئی ہیں یعنی پانچ اور پانچ سے زیادہ لوگوں کے اکٹھے ہونے کی صورت میں ان کے اجتماع کو منتشر کرنے کیلئے ہلکا پھلکا لاٹھی چارج، ہوائی فائرنگ یہاں تو پانچ یا پانچ سے زیادہ افراد، پانچ سو، پانچ ہزار یا پانچ لاکھ کا مسئلہ نہیں تھا یہاں تو لاکھوں لوگ تھے پھر وہ اندھی منفی ریاستی قوتیں تھیں یا غیر جمہوری غیر ریاستی قوتیں، انہوں نے تیس لاکھ لیکن انتہائی پُرامن لوگوں کے اس عظیم اجتماع کو خون اور آگ کے دریا میں بدل دیا۔ بےنظیر بھٹو اس خود کش حملے میں بال بال بچيں لیکن ایک سو کے قریب ان کے اپنے سروں کے چراغ جلاتے جیالے جن میں اکثریت لیاری کے نوجوانوں کی تھی ہلاک ہوئے۔ رحمٰن ڈکیت اور اس کے ساتھی بے نظیر بھٹو کو اس خون کی ندی سے نکال کر بلاول ہائوس لے گئے۔ یہ شام پاکستان کی تاریخ میں شام غریباں کی طرح یاد رکھی جائے گی کہ جب واقعی لیاری کے غریب اور ان کی امیر لیکن محبوب لیڈر۔ اسی رات جب پاکستان میں دن تھا تو میں نیویارک کے ایک تھیٹر میں ذوالفقار علی بھٹو کے حکومت کے خاتمے کی پس منظر میں طارق علی کا لکھا ہوا ڈرامہ’’چیتا اور لومڑی‘‘ دیکھ کر گھر واپس لوٹا تھا اور پاکستانی چینلوں پر بے نظیر بھٹو کے استقبال کی رپورٹنگ دیکھ رہا تھا تو اچانک یہ روشنی اور رنگوں کا ریلا ایک دوزخ میں بدل دیا گیا۔ لیکن پاکستان میں اپنے اوپر حملے کی اگلی صبح وہی بے نظیر بھٹو تھیں جو لیاری اپنے اوپر بم حملے میں ہلاک ہونے والے جیالوں کے گھروں پر پہنچ گئی تھیں۔ ان کی مائوں بہنوں اور بچوں کو گلے لگانے، ان سے تعزیت کرنے۔بے نظیر بھٹو پر خودکش قاتلانہ حملے اور اس میں ہلاک ہونے والے ایک سو سے زائد جیالوں کے قتل کے جوابدار آج تک گرفتار نہیں کئے جا سکے نہ ہی جمہوریت کے ان پروانوں کی قتل گاہ کارساز پر کوئی یادگار تعمیر کی جا سکی۔ حالانکہ بےنظیر بھٹو کے نام پر اپنے پیٹ اور ملکی غیرملکی بنکوں کی تجوریاں بھرنے والے ان کی پارٹی کے حکمران مشیر و وزیرسندھ میں دوسری بار حکومت کر رہے ہیں۔
اور قصیدے شاہ کے اور
جنرلوں کے جیت گئے
جیت گئے سارے لٹیرے چور ڈاکو
سارے اس کے نام پر
تاریخ کی خونی گلی میں رات جو مجھ کو ملی
سربکف سارے ستارے مشعلیں
اس کی آنکھوں میں جلوسوں کی طرح چل رہے تھے
اقتدار و طاقت کے نشے ہیں کہ بے نظیر کے نام پر اپنی انکم کو سپورٹ دینے والی کاٹن اور سوٹ کلاس کے نہیں ٹوٹتے۔ سندھ کے غریب اس کے عشق میں اس لیلائے وطن کو دفناکر صحرائوں کی خاک چاٹتے اور ریت پھانکتے پھر رہے ہیں اور یہ چُوری کھانے والے مجنوں ہیں کہ بڑے خان خانان بنے ہوئے ہیں۔ ان کیلئے سیاست اور پاکستان گویا سلطان راہی کی فلم ہو۔ کہنے لگے، مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نہیں مرسکدا۔بالکل ایسے مولا جٹ ٹائپ ڈائیلاگ اور بڑھکیں اٹھارہ اکتوبر کو کارساز میں اس جگہ کرائون پرنس بلاول بھٹو زرداری نے ماری ہیں جہاں کراچی کی تاریک راہوں میں مارے جانے والے لوگوں کی قتل گاہ ہے، جس جگہ بے نظیر بھٹو پر پہلا حملہ ہوا تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس مقام پر کوئی سنجیدہ اور باتدبر سیاست کے پیغام دیئے جاتے۔ سندھ اور ملک کے لوگوں کے زخموں کا کوئی مداوا کیا جاتا لیکن ٹھٹھہ، مذاق اور بڑھکیں ماری گئیں۔ میں اسے برگر بلاول کی بچگانہ باتیں کہوں گا۔ ایک کامک بیانیہ۔ شیر کے شکار اور پتنگ بو کاٹا کئے جانے کی بڑھکیں۔ وہی مرتضیٰ بھٹو کی سی باتیں جنہیں بے نظیر طوطا کہانی کہتی تھیں۔ کہ چابی دریا میں پھینک دیں گے۔ شیر سے شہزادے بلاول کی مراد نواز شریف اور ان کی پارٹی مسلم لیگ نون اور پتنگ سے ان کی مراد ایم کیو ایم اور کراچی لندن کی کالونی یعنی الطاف حسین کی طرف سے کنٹرول کی ہوئی ہے ۔
یعنی اگر کراچی لندن کی کالونی ہے تو اندرون سندھ کو بھی تو بھٹو زرداریوں نے اپنی جاگیر اور سندھ کے عوام کو اپنے سیاسی مزارعے سمجھ رکھا ہے پھر میں سندھ کے لوگوں کے اجتماعی سیاسی شعور اور سیاسی فیصلوں کی داد دیتا ہوں۔ یہ اور بات تھی کہ اگر سندھ میں پی پی پی حکومت میں نہ ہوتی تو شاذ و نادر ہی گزشتہ انتخابات جیت سکتی تھی۔ابھی کل کی ہی بات ہے جب انارکلی کے قصے کی طرح ’’شہزاہ سلیم باغی ہو گیا‘‘ نما افواہوں کی بیچ بلاول بھٹو انتخابات کے دنوں میں پلٹ کر بھی عوام کے پاس نہیں آئے۔ لوگ سیلابوں اور بارشوں میں ڈوبے ہوئے تھے اور بلاول بھٹو زرداری اپنی شکر ملوں کے دورے کر رہے تھے۔ ذوالفقار مرزا سے بھی سارا جھگڑا شوگر ملوں کی ملکیت اور حصے پر تھا۔ ضلع بدین میں پنگریو جہاں ان کی شوگر مل ہے وہاں کے علاقے میں انتہاپسندی اتنی بڑھی ہے کہ اقلیت سے تعلق رکھنے والے فنکار بھورو بھیل کی لاش ان کی قبر سے کھود کر سڑک پر پھینک دی گئی۔ بلاول کا بھورو بھیل کی لاش کی بے حرمتی میں مذمتی بیان قابل تحسین بات ہے لیکن ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ ملک کی طرح اب سندھ کے طرف بڑھتی ہوئی مذہبی انتہاپسندی پر واضح اور دو ٹوک پالیسی بیان دیتے لیکن وہ صرف ایک ہیجانی نعرے بازی سے شروع ہوئے اور بے نظیر بے قصور پر ختم ہوئے۔ اب دھمالوں اور دھمکیوں سے کام نہیں چلنے والا۔ بقول شخصے یہ رحمٰن ملک اور بلاول کے ابا پی پی پی حکومت کے تمام پانچ سال لندن کے پیر کو راضی کرنے میں لگے رہے اور اب برخوردار پتنگ بو کاٹا کی باتیں کرکے کس کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ سندھ کے لوگ اتنے بھی بیوقوف نہیں، مجنوں و عاشق ضرور ہیں۔ ایک ایسا عاشق اور جیالا کامریڈ منوبھیل ضلع سانگھڑ کے کھپرو میں گزشتہ دنوں مر گیا جو اب چُوری کھانے والے مجنوئوں کو یاد بھی نہ ہو۔ ابھی کل ہی رات شاہ بھٹائی کے روضے کو آنکھیں کھولتے ہی اپنے گھر کے آنگن سے (اور ہر روز و شب) دیکھنے والے بھٹ شاہ سے آئے ہوئے میرے ایک دوست نے مجھے اپنا یہ شعر سنایا :
تیرا ابا ہے زرداری
میرا بابا ہے اک ہاری
تیری گاڑی لینڈ کروزر
میری گاڑی ہے بس لاری
تری بیٹی لیڈر ہوگی
میری بیٹی ہوگی کاری
تیرے سو سو جوڑے لیکن
میری ہے یہ شرٹ ادھاری
تو چاہے کس سے بھی صلح کر
میں جو کروں تو ہے غداری
تازہ ترین