• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شکر ہے کراچی کا بجٹ کئ بلین روپے کا ہوتا ہے۔ لیکن یہ خرچ کہاں ہوتا ہے ؟ اس کا مکمل علم نہیں۔ حالیہ بارشوں کے بعد ایسا حال ہوچکا ہے کہ امیر (پوش) اور غریب علاقوں کی تفریق ہی ختم ہوچکی ہیں۔ عمارتیں خاص پہ high rise buildings (جو ملکوں میں ترقی یافتہ علاقے کی پہچان سمجھی جاتی ہیں) اس حال کو پہنچ چکی ہیں کہ اب گریں یا تب گریں۔ پہلے ہی ناقص میٹیریل لگنے کی وجہ سے سیپج کا شکار تھیں اور پلاسٹر اتر چکا تھا۔ اب مسلسل بارشوں کے بعد مزید "مال" بہہ چکا ہے اور اندر لگا ہوا سریا ( بالکل باریکب) باہر سے نظر آرہا ہے۔ یعنی یہ طویل المنزلہ عمارتیں رہائشی کم اور قدیم زمانے کے کھنڈرات کا نقشہ زیادہ کھینچتی ہیں۔ اوپر سے پانی گرنے کی وجہ سے کائی میں لپٹ کر اپنی اصل پہچان سے دور ہوگئی ہیں۔ سڑکوں کا حال تو سب کے علم ہے کہ باران رحمت کے ساتھ "گٹر زحمت" کی بدولت صاف اور گندے پانی کی تفریق مٹ چکی ہے۔ بارش کا پانی سڑکوں پہ گرے یا جمع ہوجائے وہ اتنا نقصان دہ نہیں ہوتا جتنا سیوریج کا گندا جراثیم سے بھرپور پانی سڑکوں کا حال خراب کردیتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ ناقص میٹیریل سے کی گئی سڑکوں کی استرکاری بارش کے سامنے ٹھہر نہیں پاتی اور سڑکوں پہ عجیب و غریب قسم کے نقش و نگار بنا کر نئی سڑک کا تاثر مٹا دیتی ہے۔ اب آپ سڑک پر چلیں، موٹر سائیکل پر سوار ہوں، رکشہ پہ سوار ہوں، اپنی پرانی گاڑی پہ ہوں، نئی گاڑی پہ ہوں، مہنگی گاڑی ہو نسبتا سستی گاڑی ہو، اپنا انشورنس کروا کر نکلیں کیوں کہ کس وقت آپ گڈھے میں گریں گے، تیزی سے اچھلیں گے، یا الٹ جائیں گے، گٹر کے کھلے یا ٹوٹے ڈھکنوں میں پھنس جائیں گے، یا دلدل میں دھنس جائیں گے، کچھ نہیں پتا۔ اب تک کوئی ایسی " ڈیوائس یا ایپ" ایجاد نہیں ہوئی ہے جو ان خطرناک گڈھوں، دلدل، کھلے گٹروں کے بارے میں پہلے سے متنبہ کرسکے کہ اہل کراچی محتاط ہوجائیں اور ان گزرگاہوں سے پرہیز کریں۔ لیکن شومئی قسمت ہم تو موہنجوداڑو کے دور سے بھی اور پیچھے چلیں گئے ہیں اس آثارقدیمہ کو دیکھ کر یہ تو لگتا ہے کہ بڑی اچھی منصوبہ بندی کرکے یہ شہر آباد کیا گیا ہوگا۔ جہاں پانی ، سیوریج، گھروں کی منصوبہ بندی، پانی کے بہاؤ water streams، گزرگاہوں roads کا باقاعدہ مربوط نظام تھا۔ لیکن افسوس اس لاوارث شہر میں جس کا جہاں دل جاتا ہے اعلٰی حکام کی اجازت سے قبضہ کرکے عمارت کھڑی کردیتا ہے چاہے وہ water stream یعنی بہتے ہوئے پانی کا راستہ ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے میں جب تیز بارشوں کی صورت میں زیادہ پانی کو بہنے کے لئے راستہ نہیں ملتا تو وہ ہر طرف پھیل جاتا ہے جس کی بدولت urban flooding ہوجاتی ہے۔ لوگوں کے گھروں، دفتروں، ہسپتالوں میں پانی بھر جاتا ہے۔ لیکن مجال ہے کہ ان ناجائز قابضین اور ناجائز تعمیرات کے خلاف کوئی ایکشن لیا گیا ہو۔ ایکشن تو دور کی بات کوئی آواز کھڑی نہیں کی جاتی۔ بالکل اسی طرح waste management board جس کا بڑا بجٹ ہے، اس پر پروگرام اور کانفرنسیں ہو رہی ہیں لیکن عملا اس کا وجود کہیں نہیں۔ ایک طرف آلودگی سے پاک معاشرہ کی بات ہوتی ہے تو دوسری طرف جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر اور پھر پانی میں بھیگ کر گندی بدبو کا مسلسل بھبکا، کراچی کے شہریوں کو نفسیاتی مسائل سے دوچار کرچکا ہے اور ساتھ ساتھ چراثیم سے بھرپور ماحول میں رہتے رہتے آئے دن وائرس کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ سونے پہ

سہاگہ بخار کی دوا ہی مارکیٹ سے غائب ہوچکی ہے۔ ایسے میں لگتا ہے کہ یہ سب ایک بڑی منصوبہ بندی سے کیا جارہا ہے تاکہ جلد از جلد کراچی کو ایک تاریخی شہر "heritage" میں تبدیل کردیا جائے اور پھر یہاں وہ سیاح جو "تاریخی سیاحت" میں دلچسپی رکھتے ہوں بڑے پیمانے پر آئیں اور حکومت کو ذر مبادلہ کمانے کا بھر پور موقع ملے۔ ( نوٹ: 2017 کی مردم شماری میں آبادی بڑھنے کی بجائے کم ہوئی تھی اور موجودہ حالات برقرار رہے تو اگلی مردم شماری میں کوئی ذی نفس نہ ملے گا، لگے رہئیے)۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین