• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مکہ مکرمہ: ماضی و حال کے آئینے میں (قسط نمبر 1)

مکّۃ المکرّمہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ اِس شہر میں اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر تعمیر ہوا، جو دنیا بَھر کے مسلمانوں کا روحانی مرکز ہے کہ وہ اُسی کی طرف رُخ کرکے نماز ادا کرتے ہیں۔ہر مسلمان کے دِل میں اِس گھر کے طواف، عُمرے اور حج کی خواہش مچلتی رہتی ہے اور وہ پروانوں کی مانند اس کی زیارت کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔اِس مقدّس و معتبر شہر کے حصّے میں یہ اعزاز بھی آیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی، حضرت محمّد ﷺ کو یہیں مبعوث فرمایا۔

یوں مسلمانوں کو جہاں اِس شہر سے ایک والہانہ روحانی لگاؤ ہے، وہیں وہ اس کی تاریخ، تہذیب و تمدّن، تعمیرو ترقّی کے مختلف مراحل سے آگاہی میں بھی گہری دل چسپی رکھتے ہیں۔ اِسی مقصد کے پیشِ نظر جنگ، ’’ سنڈے میگزین‘‘ اپنے قارئین کے لیے ایک نیا سلسلہ شروع کر رہا ہے، جس کے ذریعے وہ اِس شہر سے متعلق بہت کچھ جان پائیں گے۔

……………٭٭……٭٭……٭٭……………

زمین کا ارتقاء

ایک وقت تھا کہ مادّہ پرست عناصر اللہ کے وجود سے اِنکار کا جواز پیدا کرنے کی خاطر اِس نظریے کا پرچار کرتے تھے کہ ’’کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔‘‘ اِس کے علاوہ بھی کائنات کے ارتقاء کے بارے میں عجیب و غریب نظریات کی بھرمار تھی، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کی بعثت کے بعد قرآنِ کریم نے ان تمام نظریات کی سختی سے نفی کرتے ہوئے ایسے ٹھوس دلائل و شواہد پیش کیے، جن سے دُنیا بھر کے سائنس دانوں اور ماہرینِ فلکیات کے لیے تحقیق کے نئے دریچے کھل گئے۔ ان کی روشنی میں دُنیا اِس نظریے پر متفّق ہوئی کہ ہماری یہ کائنات محض حادثاتی طور پر یا اَزخود وجود میں نہیں آئی بلکہ اس کی تخلیق قدرتِ کاملہ کے ارادے، فیصلے اور کامل منصوبہ بندی کے تحت ہوئی۔

قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’اور وہی تو ہے، جس نے آسمان اور زمین چھے دِن میں بنائے اور اس کا تخت پانی پر رکھا۔‘‘(سورۂ ہود، آیت 7)۔ایک اور جگہ ارشاد فرمایا’’تمہارا پروردگار اللہ ہے، جس نے زمین و آسمان چھے دِن میں پیدا فرمائے۔‘‘ (سورۂ یونس آیت3)۔سورۃ الحدید میں فرمانِ الٰہی ہے’’وہی ہے ،جس نے آسمان اور زمین چھے دن میں بنائے۔‘‘ (آیت4)۔

مکّہ مکرّمہ کی پیدائش

امام فخرالدّین رازیؒ ’’ تفسیر کبیر‘‘ میں حضرت مجاہدؒ کی ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ’’ خالقِ کائنات نے مکّہ مکرّمہ کی سرزمین باقی زمین سے دو ہزار سال پہلے پیدا فرمائی اور اس کے چاروں بنیادی ارکان ساتویں زمین تک گہرائی میں رکھے۔‘‘ مزید فرماتے ہیں کہ’’ پانی کی سطح پر اُبھرنے والا وہ مقدّس خطّہ، یعنی بیت اللہ شریف، جو زمین کی پیدائش سے دو ہزار سال قبل اللہ تعالیٰ کے حکم سے وجود میں آیا، مکّہ مکرّمہ ہی کی زمین تھی۔ یہ پانی کے اُوپر سفید جھاگ کی مانند تھی۔ پھر اس کے نیچے سے اللہ تعالیٰ نے زمین چاروں جانب پھیلا دی، لیکن زمین کے پھیلانے کا یہ کام مکّہ مکرّمہ کی زمین کے وجود میں آنے کے دو ہزار سال بعد عمل میں آیا اور مکّہ مکرّمہ کی اسی زمین پر فرشتوں نے بیتُ اللہ شریف کی تعمیر کی۔‘‘ (تفسیر کبیر، جلد3 ، صفحہ 6)۔ 

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ’’ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی پیدائش سے پہلے پانی پیدا فرمایا اور پانی کو ہوا پر ٹھہرایا۔ پانی سے بخارات اُڑتے رہتے تھے۔‘‘ حضرت عطاءؒ بیان کرتے ہیں کہ’’ اللہ نے ہوا بھیجی، جس سے پانی میں ہل چل ہوئی۔ اس حرکت سے اللہ تعالیٰ نے بیتُ اللہ والی جگہ پر ایک ٹیلہ پیدا فرما دیا اور وہاں فرشتوں نے بیتُ المعمور کی سیدھ میں بیتُ اللہ شریف کی تعمیر کی۔ اسی وجہ سے اِس شہر کو’’ اُمُّ القُریٰ‘‘ کہا جاتا ہے۔‘‘ (مصنّف عبدالرّزاق، جلد5 ، صفحہ 90)۔

فضائل مکّہ مکرّمہ

مکّہ مکرّمہ اِس قابلِ صد تعظیم و تکریم خطّۂ مقدّس کا نام ہے، جو کرّۂ اَرض کی تخلیق کا باعث بنا، جسے خالقِ کائنات نے اپنے مُقدّس گھر کے لیے منتخب فرمایا۔ وہ معزّز گھر کہ جو مسلمانوں کے دینی تشخّص، ملّی تحفّظ اور وحدت کا مرکز، معاشرتی و سماجی زندگی کے قیام کا ذریعہ اور شعائرِ اسلام کی بقاء کا ضامن ہے۔ یہ دُنیا کا وہ واحد محترم شہر ہے کہ جس کا سفر مناسکِ حج کی ادائی کے لیے فرض قرار دیا گیا۔ یہ دُنیا کا وہ واحد پُرکشش شہر ہے کہ جو اپنی مقناطیسی رُوحانی قوّت سے دُنیا کے چپّے چپّے سے رَبِّ کعبہ کے پرستاروں کو جُوق دَر جُوق اپنی بانہوں میں سمیٹتا چلا جاتا ہے۔ 

کروڑوں مسلمان سارا سال وہاں پہنچ کر اپنے قلب و جاں ایمان کی حرارت سے منوّر کرتے ہیں۔ یہ شہر حُرمت و تعظیم کا وہ مستقر ہے کہ جہاں گناہ پَت جَھڑ کی طرح جھڑتے ہیں اور ایک سراپا معاصی بھی توبہ استغفار کی بدولت گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے، جیسے نومولود بچّہ۔ کائناتِ اَرضی پر اللہ کی عبادت و بندگی اور ہدایت کا مرکز یہ شہرِ جاناں، رَبِّ کعبہ اور اس کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے محبوب اور پسندیدہ شہر ہے۔ 

یہاں حرمِ کعبہ میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔ اس خطّۂ مُقدّسہ کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ دُنیا کے جس کونے میں بھی مسلمان ہو، اُس کے لیے اِس شہر کی جانب رُخ کر کے نماز پڑھنا فرض ہے۔ اِس شہرِ معظّم کی عظمت و جلالت، بزرگی و پاکیزگی کا یہ عالم ہے کہ اِس کی توصیف و تمحید رَبِّ ذُوالجلال نے اپنی مُقدّس کتاب میں فرمائی اور قرآنِ کریم کی دو سورتوں، سورۂ بلد اور سورۃ التّین میں اس کی حُرمت کی قسم کھائی۔ اس کی تطہیر و تقدیس سے احادیثِ مبارکہؐ اور تاریخِ عالم کے اَوراق مزیّن و معمور ہیں۔سورۂ آلِ عمران میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر، جو لوگوں کے لیے مقرّر کیا گیا، وہ مکّہ میں ہے، جو تمام دُنیا کے لیے ہدایت و برکت والا ہے۔‘‘(آیت96 )۔

یہ مکّہ مکرّمہ ہی فاران کی وہ وادیٔ غیرِ ذی زَرَع( ایسی وادی جہاں زراعت نہ ہو) ہے کہ جس کے سنگلاخ پہاڑوں، خاموش بیابانوں اور تپتے صحرائوں کے درمیان اللہ کے نبی، حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السّلام نے اپنی اہلیہ، بی بی ہاجرہؑ اور نومولود صاحب زادے،حضرت اسماعیلؑ کو چھوڑا تھا اور یہی وہ مُقدّس مقام ہے کہ جہاں ایک ممتا کی ماری ماں کی بے تاب تڑپ نے عرشِ باری تعالیٰ کو ہلا ڈالا اورحکمِ خداوندی سے معصوم اسماعیلؑ کے قدموں تلے دُنیا کا سب سے مُقدّس و محترم چشمہ پُھوٹ پڑا۔اللہ کے آخری نبی، عبداللہ کے لختِ جگر، آمنہ کے لال، پوری دُنیا کے لیے رحمت، اُمّتِ مسلمہ کے لیے باعثِ شفاعت، شہنشاہِ کون و مکاں، حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلّم کا جائے مسکن بھی تو یہی شہرِ تاباں ہے۔ یہی وہ خطّۂ مکرّمہ ہے کہ جہاں محبوبِ خداﷺ کو رسالت کے جلیل القدر منصب پر فائز کیا گیا۔ چالیس سال تک رُوح الامین، حضرت جبرائیلؑ تشریف لاتے رہے، قرآنِ کریم کا نزول ہوتا رہا اور رُشد و ہدایت کا دریا بہتا رہا۔

امن والا شہر

اِس شہر کی حُرمت کا اندازہ اِس بات سے لگایئے کہ رَبِّ ذُوالجلال نے اسے ہمیشہ کے لیے حرمت والا قرار دے دیا۔ اس شہرِ پاکیزہ میں قیامت تک کفّار و مشرکین کے ناپاک قدم داخل نہیں ہو سکیں گے۔ یہودیوں کے رُوحانی پیشوا اور مسلمانوں کے دُشمنِ خاص، دَجّال کا جب ظہور ہوگا، تو وہ مکّہ مکرّمہ اور مدینہ منوّرہ میں داخل نہ ہو پائے گا کہ اِن دونوں شہروں کے راستوں پر فرشتے مقرّر ہوں گے۔فتحِ مکّہ کے موقعے پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ اللہ کے اِس مقدّس شہر میں قتل و قتال کی اجازت نہیں ہوگی۔ 

اس کے خود رَو پودوں اور کانٹوں کو نہیں توڑا جائے گا، اس کے شکار کو پریشان کیا جائے گا اور نہ ہی اس کی تازہ گھاس کو کوئی کاٹے گا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’جو شخص اِس مبارک گھر، یعنی مکّہ میں داخل ہوگیا، اُس نے امن پا لیا۔‘‘(سورۂ آلِ عمران، آیت97-)۔اللہ رَبُّ العزّت نے قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر اپنے اِس معزّز شہر کے مختلف نام بڑی محبّت و پیار سے لیے ہیں۔ کہیں اسے ’’اُمُّ القریٰ‘‘ یعنی’’ بستیوں کی ماں‘‘ کہا تو کہیں’’ البلد الامین‘‘ یعنی’’ امن والا شہر‘‘ کہا۔ کہیں اسے’’ حرمِ امن‘‘ کہا، تو کہیں’’ حرمت والا شہر‘‘ قرار دیا۔

مکّہ مکرّمہ کے 56 نام

ماہرینِ عُمرانیات اور مفسّرین نے اِس شہرِ مُقدّس کے 56 ناموں کا تذکرہ کیا ہے۔ علّامہ جلال الدینؒ نے جامع اللطیف میں یہ56 نام تحریر کیے ہیں، لیکن سب سے مشہور و معروف نام ’’مکّہ‘‘ اور ’’بکّہ‘‘ ہیں۔ سیّدنا علی المرتضیٰؓ سے یہ قول منقول ہے کہ ’’بکّہ‘‘ صرف بیتُ اللہ شریف ہے۔ اس کے علاوہ پورا شہر’’مکّہ‘‘ ہے۔یہی قول امام مالکؒ، امام زہریؒ، امام ابراہیمؒ، عکرمہؒ اور امام مقائل بن حسّانؒ کا بھی ہے۔(ابنِ کثیر، جلد1 ، صفحہ383)۔

قرآنِ کریم میں مکّہ مکرّمہ کے نام

قرآنِ مجید میں مکّہ مکرّمہ کو جن ناموں سے یاد کیا گیا ہے، ان میں سے چند یہ ہیں۔

٭ …مکّہ: سورۃ الفتح میں ارشادِ باری ہے ’’اور وہی تو ہے، جس نے تم کو ان (کافروں) پر فتح یاب کرنے کے بعد مکّہ میں ان کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روک دیا ۔‘‘( سورۃ الفتح، آیت24)۔

٭…اُم القریٰ: سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’اور (ویسی ہی) یہ کتاب ہے، جسے ہم نے نازل کیا ہے، جو بابرکت ہے اور اپنے سے پہلی (کتابوں) کی تصدیق کرتی ہے اور جو اس لیے نازل کی گئی ہے کہ تم اہلِ مکّہ اوراس کے آس پاس کے لوگوں کو آگاہ کر دو۔‘‘ (سورۃ الانعام آیت92)

٭…بکّہ: سورۂ آلِ عمران میں فرمایا’’اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر، جو لوگوں کے لیے مقرّر کیا گیا، وہی ہے جو بکّہ(مکّہ شریف) میں ہے۔ جو تمام جہانوں کے لیے بابرکت اور ہدایت والا ہے۔‘‘ (سورۂ آلِ عمران، آیت96)۔

٭… البلد: سورۂ ابراہیم میں فرمایا گیا’’اور جب ابراہیمؑ نے دُعا کی کہ’’اے میرے پروردگار! اِس شہر(مکّہ مکرّمہ) کو امن کی جگہ بنا دے۔‘‘ ( سورۂ ابراہیم، آیت35)۔

٭… البلدۃ : سورۂ نمل میں رَبِّ کعبہ فرماتے ہیں’’کہہ دو کہ مجھے تو بس یہی حکم دیا گیا ہے کہ مَیں اِس شہر (مکّہ مکرّمہ) کے مالک کی عبادت کرتا رہوں۔ جس نے اس شہر کو حرمت والا بنایا ہے۔‘‘ ( سورۂ نمل، آیت91)۔

٭… معاد: سورۃ القصص میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’جس اللہ نے آپؐ پر قرآن نازل فرمایا، وہ آپؐ کو دوبارہ پہلی جگہ معاد (مکّہ مکرّمہ) میں پہنچا دے گا۔‘‘(سورۃ القصص، آیت85)۔

٭… حرمِ اَمن: سورۃ العنکبوت میں فرمانِ الٰہی ہے’’ کیا اُنہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے حرم (مکّہ مکرّمہ) کو مقامِ اَمن بنایا ہے۔‘‘(سورۃ العنکبوت، آیت 67)۔

٭…البلد الامین: سورۃ التّین میں فرمایا ’’اِس امن والے شہر (مکّہ مکرّمہ) کی قسم۔‘‘ (سورۃ التّین، آیت3)

مکّہ مکرّمہ کا محلِ وقوع

علّامہ طاہرکردیؒ فرماتے ہیں کہ’’ مکّہ مکرّمہ دُنیا کا دِل ہے اور زمین کے وسط میں واقع ہے،جب کہ کعبہ شریف اُس نقطے کی مانند ہے، جو کسی دائرے کے وسط میں ہوتا ہے۔‘‘(تاریخ القویم)۔امام محمّد فخرالدّین رازیؒ تفسیرِ کبیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ’’ مکّہ مکرّمہ رُوئے زمین کے وسط میں واقع ہے اور یہ زمین کی ناف ہے۔ اِسی لیے اسے اُمُّ القریٰ یعنی بستیوں کی ماں کہا جاتا ہے اور یہ بیت المعمور کا سایہ ہے۔‘‘(جِلد3 ، صفحہ9)۔قدرتی طور پر ہیرے کی شکل سے مشابہ مکّہ مکرّمہ ایک مستطیل نُما شہر ہے، جو مملکتِ سعودیہ عربیہ کی مغربی جانب سرزمینِ حجاز کی ایک ایسی وادی کے دامن میں واقع ہے، جسے چاروں جانب سے سنگلاخ پہاڑوں نے اپنی آغوش میں لیا ہوا ہے۔ یہ پہاڑ اس شہر کی قدرتی حفاظتی دیواریں ہیں۔

اس شہر کی سطحِ سمندر سے بُلندی 280 میٹر ہے۔ یہ جدّہ سے مشرق میں73 کلومیٹر کی دُوری پر ہے، جب کہ مدینہ منوّرہ سے اس کا فاصلہ430 کلومیٹر جنوب کی جانب ہے۔ مکّہ مکرّمہ میں داخلے کے تین بنیادی راستے ہیں۔ معلاۃ، مسفلہ اور شبیکہ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اہلِ معلاۃ میں سے تھے اور وہیں آپؐ کی جائے پیدائش ہے۔

اہلِ مکّہ کا پیشہ

علّامہ قاضی سلیمان منصور پوری ؒ تحریر کرتے ہیں کہ’’ قدیم دُنیا کے نقشے پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایشیا، یورپ، افریقا اور اوقیانوس کے برّاعظموں میں جزیرہ نُما عرب کو ایک خاص مرکزی حیثیت حاصل ہے اور یہ ایشیا میں ہوتے ہوئے بھی یورپ اور افریقا کے قریب ہے۔ پرانے زمانے میں مِصر اور رُوما متمدّن اور ترقّی یافتہ قومیں کہلاتی تھیں، لیکن مکّہ مکرّمہ کے تاجر وہاں باآسانی کام یاب تجارت کیا کرتے تھے۔ دُنیا کے وسط میں ہونے کی وجہ سے اللہ رَبُّ العزّت نے اس جگہ کو اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے منتخب فرمایا اور اسی شہر سے دینِ اسلام کی تبلیغ و ترویج کے کام کا آغاز کیا۔ 

مکّہ مکرّمہ کے باشندوں کا پیشہ ہمیشہ سے تجارت رہا ہے۔ یہ لوگ عموماً عطریات، کپڑے، خشک میوہ جات، چمڑے، غلّے اور اسلحے کی تجارت کیا کرتے تھے۔‘‘ (رحمۃ اللعالمین، جلد1 ، صفحہ 30)۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس شہرِ مقدّس میں یہ خصوصیت رکھی ہے کہ یہ ایّامِ حج میں لاتعداد اِنسانوں کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیتا ہے۔ لاکھوں افراد کے ایک جگہ قیام کے باوجود اس کے بازاروں میں کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہوئی۔ (جاری ہے)